English   /   Kannada   /   Nawayathi

مغربی بنگال کی صورت حال دھماکہ خیز ہے 

share with us

عبدالعزیز


     مغربی بنگال کے کئی علاقوں میں فساد اور دہشت کا ماحول ہے۔ الیکشن سے پہلے بھی حالات میں تناؤ تھا اور بی جے پی پولرائزیشن کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ جس کے نتیجے میں اسے لوک سبھا کی 18سیٹوں پر کامیابی ملی۔ 2009ء میں لوک سبھا کے انتخابات میں ترنمول کانگریس نے کمیونسٹوں کے سرخ قلعے میں شگاف ڈال دیا تھا۔ اس وقت ترنمول نے لوک سبھا کی 19سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔ اس وقت تقریباً مغربی بنگال میں 2009ء کی کم و بیش صورت حال ہے۔ بعض لحاظ سے اس سے بھی بدتر ہے، کیونکہ 2009ء میں مغربی بنگال میں فرقہ واریت کا زہر نہیں پھیلا تھا اور نہ ہی ہندو اور مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہوئے تھے۔ لوک سبھا کے انتخابات کے نتائج کے بعد ہی سے مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے ورکروں میں تصادم شروع ہوگیا۔ کئی جگہوں پر خونیں جھڑپ ہوئی۔ عید الفطر سے پہلے ضلع شمالی چوبیس پرگنہ کے ایک علاقہ کانکی نارہ میں فرقہ وارانہ فساد برپا ہوگیا۔ اگر چہ اس فساد میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن تقریباً ساڑھے تین سو مکانات اور دکانیں تباہ و برباد کر دی گئیں۔ فساد جس روز پھوٹ پڑا ایک بستی سے تین چار سو مسلمان خوف و ہراس کی وجہ سے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ لگ بھگ ایک ہفتہ ہوگیا اس کے باوجود بہت سے لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں آئے۔ کئی دکانوں اور مکانات پر غیروں کا اب تک قبضہ ہے۔ حکومت بے بس نظر آرہی ہے اور پولس اپنے فرائض کی ادائیگی سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ 
    گزشتہ رات (10جون) کو گیارہ بجے دو مسلمانوں پر جو ایک میدان میں گھر سے نکل کر بیٹھے ہوئے تھے ان پر کئی نامعلوم اشخاص بم پھینک کر بھاگ نکلے۔ جس کے نتیجے میں دو افراد کی جان چلی گئی اور 68سالہ مقتول محمد مختار کے خاندان والے بھی بم پھٹنے سے زخمی ہوئے۔ کانکی نارہ بارکپور لوک سبھا کے علاقے میں ہے۔ ارجن سنگھ وہاں سے ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی تھے جو لوک سبھا کے الیکشن سے پہلے ترنمول سے نکل کر بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ جنھوں نے بی جے پی کے ٹکٹ پر ترنمول کانگریس کے ایم پی دنیش ترویدی کو لوک سبھا کے الیکشن میں شکست دے دی۔ کہا جارہا ہے کہ ارجن سنگھ کو مسلمانوں نے ووٹ نہیں دیا جس کی وجہ سے ارجن سنگھ بی جے پی کی مدد سے مسلمانوں سے بدلہ لے رہے ہیں۔ آج تک یہ علاقہ دہشت اور فساد سے باہر نہیں نکلا۔ پولس حالات کو قابو کرنے میں ناکام ہے۔ حکومت بے بس ہے۔ 30مئی کو محترمہ ممتا بنرجی نے کانکی نارہ سے قریب کانکی پاڑہ (بھاٹ پاڑہ) سے جب اپنے کار کے ذریعہ گزر رہی تھیں تو بی جے پی کے ورکر ممتا بنرجی کو جے شری رام کے نعرے سے مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ ممتا بنرجی طیش میں آگئیں۔ ایک بار نہیں دوبار گاڑی سے اتر کر بی جے پی کے ورکروں کو بتایا یہ لوگ کریمنل ہیں اور باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ پولس کو ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ ان سب کی گرفتاری جلد ہونی چاہئے۔ اسی دن اندازہ ہوگیا تھا کہ کانکی نارہ اور اس کے آس پا س کا علاقہ کس طرح میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ریاست کی وزیر اعلیٰ کو بھی جب بی جے پی کے ورکر اور لیڈر چھیڑ چھاڑ کرنے پولس کی موجودگی میں نڈر ہوگئے ہیں تو پھر عام مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ کیسا ہوسکتا ہے۔آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ 
     گزشتہ سنیچر کو شمالی چوبیس پرگنہ ہی کے سندیش کھالی میں بی جے پی اور ترنمول ورکروں کے درمیان خونیں جھڑپ ہوئی۔ جس میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کا سلسلہ اتوار تک جاری رہا اور دونوں پارٹیوں میں معرکہ آرائی ہوتی رہی۔ بی جے پی کے لیڈروں نے ماحول کو گرم کرنے کی غرض سے اپنے مہلوک پارٹی ورکروں کی لاشیں کلکتہ لانے کی کوشش کی لیکن پولس ان کے آڑے آئی۔ بی جے پی نے سندیش کھالی کے سانحہ کو بھنانے کیلئے اپنا محور و مرکز بناتے ہوئے ترنمول کانگریس کی حکومت سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا۔ احتجاج اور مظاہرے کا منصوبہ بنایا جس میں بشیر ہاٹ کا بارہ گھنٹے کا بند بھی شامل ہے۔ گزشتہ سوموار کو پوری ریاست میں یوم سیاہ منایا گیا اور آئندہ بدھ کو بی جے پی کی طرف سے ریلی نکالی جائے گی۔ 
    گورنر مغربی بنگال کیسری ناتھ ترپاٹھی گزشتہ روز وزیر اعظم کو بنگال کی صورت حال سے آگاہی دی۔ یہاں کے حالات پر تبادلہ خیالات بھی کئے۔ اگر چہ گورنر اور وزیر داخلہ کی طرف سے صدر راج ریاست میں نافذ کرنے کی کوئی بات نہیں آئی۔ کیسری ناتھ ترپاٹھی نے تو اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ صدر راج کے نفاذ پر وزیر داخلہ یا وزیر اعظم سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود بی جے پی کے مقامی اور مرکزی لیڈر ممتا بنرجی کو صدر راج کے نفاذ سے خوف زدہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ ممتا بنرجی بی جے پی پر الزام عائد کر رہی ہیں کہ مرکزی حکومت ریاستی حکومت کو گرانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ انھوں نے کہاکہ ”زخمی شیر زیادہ خونخوار ہوتا ہے۔ حکومت کو گراکر مجھے بے بس نہیں کیا جاسکتا“۔ 
    مرکزی حکومت نے جو ایڈوائزری مغربی بنگال کی حکومت کو بھیجا ہے اسے بھی ممتا بنرجی نے بی جے پی کی سازش قرار دیا ہے، کہاکہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے۔ ممتا بنرجی کا یہ کہنا کہ یہاں سب خیریت ہے میرے خیال سے صحیح نہیں ہے۔ گزشتہ روز ہی ریاستی سکریٹریٹ نباننہ میں ممتا بنرجی نے جو اپنے لیڈروں کے ساتھ میٹنگ کی اس میں ابھر کر یہ بات سامنے آئی کہ بہت سے سیول افسران اور پولس اپنا کام ٹھیک سے انجام نہیں دے رہی ہے۔ کئی لیڈروں نے محترمہ ممتا بنرجی سے یہ شکایت کی۔ حکومت کی طرف سے اگرچہ اس حقیقت کا اعتراف اب ہورہا ہے لیکن ایک سال پہلے یہی صورت حال تھی۔ راقم نے اپنے ایک مضمون میں آسنسول کے سانحہ کے بعد لکھا تھا کہ مغربی بنگال میں حکومت ممتا بنرجی کی ہے لیکن پولس بی جے پی کے اشارے پر کام کر رہی ہے۔ حکمراں جماعت کی سربراہ اور اس کے لیڈران اس وقت اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں جب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے اور حکومت کی بے بسی لوگوں کے سامنے کھل کر آگئی ہے۔ 
    مسلمانوں کی حالت: مغربی بنگال میں مسلمانوں کی تعداد 30 فیصد سے کم نہیں ہے۔ یہ تعداد بہت معنی رکھتی تھی۔ لیکن لوک سبھا کے الیکشن میں بی جے پی کے ووٹروں کی تعداد 40% ہوگئی۔ اگر چہ اس میں 24%ووٹرس مارکسی پارٹی اور 3%کانگریس کے شامل ہیں۔ بی جے پی پولرائزیشن کرنے میں پورے طور پر کامیاب نظر آرہی ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی مغربی بنگال میں بھاری اکثریت بے معنی ہوتی جارہی ہے۔ بی جے پی کا خاص مقصد ہے کہ مسلمانوں کو ہندوؤں سے بالکل الگ تھلگ کر دیا جائے تاکہ 70% ووٹ میں اس کو اکثریت حاصل رہے۔ 40فیصد ووٹ پاکر بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ مسلمان بغیر سوچے سمجھے ہر سیاسی کشمکش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہاں کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ جب کانگریس کو بایاں محاذ خاص طور پر مارکسی پارٹی زیر کرنے کی کوشش کی تو کئی سالوں تک خون خرابہ جاری رہا۔ جس میں 60سے 70فیصد مسلمان مارے گئے۔ یہی حال کم و بیش بایاں محاذ حکومت اور ترنمول کانگریس کی سیاسی کشمکش میں مسلمانوں کا رہا۔ اس وقت بی جے پی جو ترنمول کانگریس کے درپے ہے اور ہر جگہ خونیں فساد برپا کرنا چاہتی ہے اس میں بھی مسلمانوں کی اموات غیروں سے کہیں زیادہ ہے۔ گزشتہ پنچایت الیکشن میں مسلمان ہی کی ہلاکت زیادہ ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کے الیکشن میں 70 افراد مارے گئے تھے جس میں 50مسلمان تھے۔ یہ رپورٹ بی جے پی نے اپنے دفتر سے جاری کی تھی۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی غربت دیگر ریاستوں سے زیادہ ہے۔ 
    کسی حکومت نے بشمول ممتا حکومت مسلمانوں کیلئے کوئی ٹھوس کام انجام نہیں دیا۔ ان کی غربت آج تک باقی ہے۔ ممتا بنرجی نے صرف یہ کیا کہ مسلمانوں کا بار بار نام لے کر بی جے پی کی مدد کی۔ خداحافظ، اللہ حافظ کہہ کر اور سر پر ساڑی کا پلّو رکھ کر مسلم نوازی کا ثبوت دینا چاہا۔ مسلم نوازی تو ہوئی نہیں لیکن مسلمانوں سے بی جے پی کی دشمنی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی اور ممتا بنرجی کی مقبولیت کا گراف غیر مسلموں میں بہت گرگیا۔ مسلمانوں کا سب سے المیہ یہ ہے کہ اپنے اندر کے کسی شخص کو خواہ وہ کتنا ہی قابل اور بڑا ہو لیڈر نہیں مانتے۔ اس کے مقابلے میں مایا وتی، ممتا بنرجی، ملائم سنگھ، لالو پرساد جیسے لوگوں کو آسانی سے اپنا لیڈر تسلیم کرلیتے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ رونا روتے ہیں کہ مسلمانوں میں کوئی لیڈر نہیں ہے لیکن شاید ان کو معلوم نہیں ہے کہ مسلمانوں میں امامت یا قیادت کا روزانہ مسجدوں میں مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اگر کسی وقت امام موجود نہیں ہوتا تو نمازی مسلمان بغیر کسی تاخیر کے دوسرے کو اپنا امام بنالیتے ہیں۔ 
    حدیث میں ہدایت دی گئی ہے کہ اگر تم جنگلوں میں بھی ہو دو یا دو سے زیادہ تو اپنے میں کسی ایک کو امیر مقرر کرلو۔ اسلام میں جس قدر اجتماعی یا جماعتی زندگی کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے کسی بھی مذہب میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اجتماعیت کے بجائے انتشار اور افتراق کو پسند کرلیا ہے۔مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اپنے ایک خطبہ میں کہا تھا کہ ”دو چیزیں شاید ہی ہندستان سے ختم ہوں۔ ایک ہندوؤں کی تنگ نظری اور مسلمانوں کی اپنے لیڈروں پر بدگمانی“۔ مولانا کی بات آج تک صحیح ثابت ہورہی ہے۔  بنگال میں وقت آگیا ہے کہ مسلم تنظیمیں اور چیدہ افراد سرجوڑ کر بیٹھیں اور مختصر المیعاد اور طویل المیعاد کیلئے ایک کارگر اور قابل عمل منصوبہ بنائیں تاکہ فرقہ پرستی اور فسطائیت کو روکنے میں اپنا رول ادا کریں اور سیاسی کشمکش سے پرہیز کریں۔

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا