English   /   Kannada   /   Nawayathi

مجبور قوم,  مدہوش مالدار  !!!

share with us

احساس نایاب

 

فلک کا چاند زمین پر غربت سے ہے لاچار

فرشتہ تو کہلائے پر ایک وقت کی روٹی کو ترسے

یہ کیسا عالم ہے جہالت کا

کوئی بھوک سے تڑپے تو کوئی پتھروں کو دودھ سے نہلائے

لاچار جسم جاڑے میں تھرتھرائیں تو کوئی مزاروں پہ چادریں چڑھائیں

کہیں جھلملاتی ہیں محفلیں تو کہیں مجبور کی ہیں لاکھوں مجبوریاں

کسی کے اٹھائے جارہے ہیں ناز ونخرے تو کسی کی جانوروں سے بدتر ہیں زندگیاں

افف یہ تماشائی دنیا میرے قلب کو تڑپائے

بےبس ماؤں کے جنازے ہزاروں سوال اٹھائے

آج پشیماں ہوں میں خود کو انسان کہتے ہوئے

کاش کوئی تو مسیحا بن کر آئے اور

ان جاہلوں کو انسانیت کا سبق سکھائے

 

یوں تو ماہ رمضان حرمت والا مہینہ ہے جس میں ہرسو رحمتوں و برکتوں کا نزول ہوتا ہے لیکن جب اسی ماہ مبارک میں غریب مسلمان فاقے کی وجہ سے خودکشی کرنے پہ مجبور ہوجائے , علاج سے محروم معصوم بچے اسپتالوں میں دم توڑدیں, کمزور ناتواں بزرگ چلچلاتی ہوئی دھوپ میں کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے مزدوری کرتے ہوئے غش کھاکر گرجائیں اور جوان پردہ نشین بہن بیٹیاں زکوٰۃ کے لئے اپنے گھر کی دہلیز پار کرنے پہ مجبور ہوجائیں تو یہ اُس قوم کے غیرت مند ذمہ داروں کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے کیونکہ جہاں عزت سستی اور روٹی مہنگی ہوجائے وہاں غیرت کا جنازہ اٹھتے دیر نہیں لگتا اور وہ قوم مردہ کہلاتی ہے جس کا کوئی ولی وارث نہ ہو

 

 

 

اور جب بنت حوا چار دیواری سے نکل کر سرعام سڑکوں پہ مدد کے لئے ہاتھ پھیلاتی ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہمدردی و امداد کے عوض چند شیطانی صفت انسان اُن کے سروں سے چادریں کھینچ کر انہیں رسوا کریں اور اس طرح کے واقعات اُن سبھی تونگروں کے منہ پہ زوردار طمانچہ ہے جنہونے ایکجہتی, نام اتحاد پہ سیاستدانوں, اسلام دشمن جماعتوں کے لئے افطار پارٹیوں کا اہتمام کرنا شیوہ بنالیا ہے . اس پہ شاعر کا وہ شعر یاد آرہا ہے

 

عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں

لگا کے زخم, نمک سے مساج کرتے ہیں

غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو اور

امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں

 

ویسے بھی اس کے ذمہ دار صرف تاجر و سیاستدان ہی نہیں بلکہ اُن تمام مسلم جماعتوں , تنظیموں و اداروں کے لئے بھی یہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات ہے جو حقوق العباد کی دہائیاں دے کر قوم کے تیئس ہمدردی کا دکھاوا کرتے ہوئے زکوٰۃ اکٹھا کر کے مستحقین تک پہنچانے کے دعوے کرتے ہیں یہ اُن کی لاپرواہی ناکامی کا بھی نتیجہ ہے

 

شاید یہی وجہ ہے کہ ہندوستان بھر میں کئی مسلم تنظیمیں جماعتیں ہونے کہ باوجود قوم کی آبرو دہلیز پارکرنے پہ مجبور ہے

 

اور ان حالات میں ناجانے کونسا سانپ سونگھ جاتا ہے قوم کے مفکر رہنماؤں کو جو سال بھر اصلاح معاشرہ کے نام پر جلسے تقاریب کرتے نہیں تھکتے کیا انہیں ان مفلس گھروں کی آہ و وزاری , سسکیاں سنائی نہیں دیتی ؟

جو عزت نفس کے خاطر بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کو چولہے پہ چڑھی خالی ہانڈیاں دکھاکر جھوٹا دلاسہ دیتی ہیں , سگنل چوراہوں پہ پیوند لگے لباس میں روٹی کے بدلے عزت کا سودا کررہی ہوتی ہیں , کیا انہیں وہ خودار لیکن مجبور و لاچار باپ نظر نہیں آتے جو اپنے اہل و عیال کو رزق حلال کھلانے کے لئے دن رات بیل کی طرح مشقت کرنے کہ باوجود دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی بڑی مشکل سے کرپاتے ہیں, کیا وہ یتیم بےسہارا بچے بچیاں نظر نہیں آتے جو اسکول جانے کی عمر میں مزدوری اور بھیگ مانگ رہے ہوتے ہیں جنکا سراپہ خود اُنکا حال بیان کررہا ہوتا ہے

 

 

 

یا اصلاح معاشرہ کا مطلب محض اسٹیجس پہ بیٹھ کر بیان بازیاں کرنے تک محدود ہے ؟

 

یاد رہے جب تک انسان کے پیٹ کا دوزخ نہیں بھرتا, زندگی کی اہم ضروریات پوری نہیں کی جاتی, غریبی دور کرنے کی جدوجہد نہیں کی جاتی اُس وقت تک انسان کو صحیح غلط, گناہ ثواب , حرام و حلال کا فرق سمجھا پانا ناممکن ہے

 

لیکن افسوس ہم اس حقیقت کو جان کر بھی نظرانداز کررہے ہیں دراصل مسلمان اتنے بےحس ہوچکے ہیں کہ حقوق العباد کو بھلاکر فرقوں کے نام پر یا نام و نمود کی چاہت میں عالیشان مساجد تعمیر کروانے, مزاروں پہ چادریں چڑھاوے چڑھانے کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ یہ جیتے جاگتے انسان اللہ کے بندوں کا حق مار کر اُن کے گھر ویران کرکے اللہ اور غیر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ زکوۃ کے ایک روپیہ پر بھی صاحب نصاب کا حق نہیں ہوتا اور رہی بات مساجد, مزارات, مدارس کی تو یہاں پہ زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے لیکن ہم نادان اللہ کو ناراض کر پیر مرید و مرشدوں کو خوش کرنے میں لگے ہیں

 

آج ہمارا حال اس کہاوت سا ہے “جیتے جی جلائے مرنے کے بعد پلائے”

بیشک ہمارے یہاں زندہ انسانوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی کسی کی مجبوری , تکلیف ہمارے لئے بےمعنی ہے جب تک کے اُن کے ساتھ کوئی خوفناک حادثہ نہ رونما ہوجائے ہماری نظر میں کسی کے نیک ہونے کے لئے بھی شرط ہے کہ وہ کسی حادثہ کا شکار ہو یا اللہ میاں کو پیارے ہوجائیں اس پہ کسی شاعر نے بہت خوب کہا ہے

 

بٹتی ہیں اب نیازیں اُس کے مزار پر

کچھ روز پہلے جو شخص فاقوں سے مرگیا

 

 

 

شاید اسی لئے آج انسان اپنی اچھائی , مجبوری ثابت کرنے کے لئے یا تو اپنی خوداری کا گلا گھونٹ رہا ہے یا خودکشی جیسی حرام موت کو گلے لگارہا ہے

 

جیسے حال ہی میں ماہ مبارک رمضان میں 29 سالہ مسلم خاتون جو چار بچوں کی ماں تھی گھر کی بدحالی , فاقہ کشی میں اپنے معصوم بچوں کو بھوک سے بلکتا ہوا نہ دیکھ سکی اور روزہ کی حالت میں اس روزادار خاتون نے پھانسی لگاکر خودکشی کرلی جس سے مسلمانوں کی مسلمانیت پہ کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں

 

جس مذہب میں صدیوں پہلے ہی زکوٰۃ کا نظام بنایا گیا یہاں تک کے زکوٰۃ کا شمار اسلام کے بنیادی پانچ فرائض میں کیا گیا ہے جس سے ہر صاحب استطاعت پہ زکوۃ کی ادائیگی فرض ہے نہ ادا کرنے پہ سزا کا خوف دلاتے ہوئے جہنم کی آگ اور دوزخ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے,

جیسے اس حدیث مبارکہ میں ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے, آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ نے جسے مال سے نوازا اور پھر اس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں زکوٰۃ لے گا جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے یہ سانپ اس کے گلے کا طوق ہوگا اور اس کے جبڑے پکڑ کر کہے گا کہ میں ہوں تیرا مال اور میں ہوں تیرا خزانہ

 

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فورا بعد زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے والوں کے متعلق فرمایا تھا )

قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰۃ اور نماز میں تفریق کرے گا ( یعنی نماز تو پڑھے گا مگر زکوٰۃ کے لئے انکار کرے ) اللہ کی قسم! اگر انہوں نے زکوٰۃ میں بکری کے بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان کے اس انکار پہ جہاد کرونگا

 

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ کی کیا اہمیت ہے جس کی وجہ سے قرآن پاک میں بار بار ڈرا کر سمجھا کر سختی سے زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے.

تاکہ صاحب نصاب زکوٰۃ کو قائدہ سے ادا کریں جس سے غریبوں مسکینوں کی ضروریات پوری ہوں اور صحیح معنوں میں اس نظام سے آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر بن سکتا ہے بشرط یہ کہ ہر صاحب نصاب ایمانداری سے اپنا زکوۃ ادا کرے

 

لیکن افسوس آج اُسی اسلام کو ماننے والوں میں ایک بڑا طبقہ بھوکا ننگا اور اتنا بدحال ہے کہ تعلیم سے لے کر زندگی کے ہر میدان میں یہ سب سے نیچلی سطح پہ ہے

 

یہاں پہ یہ بات بھی واضح کرنی ضروری ہے کہ دعوت افطار کا مقصد غیر مسلمانوں کو ماہ رمضان کی فضیلت, روزہ اور زکوۃ کی اہمیت بتانا ہے جس کے لئے ہمارے رہنماء و قائدین جابجا اس کا اہتمام کرتے ہیں جس میں غیرمسلمان کثیرتعداد میں شرکت بھی کرتے ہیں

لیکن یہاں پر بھی کہنی اور کرنی کا فرق صاف نظر آتا ہے کیونکہ یہاں پہ اصل حقداروں کا حق مار کر سوٹ بوٹ والوں کو اہمیت دی جاتی ہے اُن کے لئے دسترخوان کھول کر سجائے جاتے ہیں جہاں غریب روزہ دار کو سو قدم دور رکھا جاتا ہے

اس پہ شاعر نے کچھ یوں کہا ہے

 

جب روٹیوں کے بٹنے کا آکر پڑے شمار

مفلس کو دیویں ایک تونگر کو چار چار

گر اور مانگیں وہ تو اسے جھڑکیں بار بار

مفلس کا حال آہ بیاں کیا کروں میں یار

 

بہرحال اس تعصب کے چلتے سمجھ نہیں آتا یہ کونسی دعوت و تبلیغ کا کام کررہے ہیں ؟

 

جبکہ ماہ رمضان کے ہر عمل میں پہلا حق ہمارے اپنے غریب مسلم بھائی بہنوں کا ہے لیکن اُن کا حق مار کر اُن کے منہ کا نوالہ چھین کر ہم غیروں کو آباد کرنے میں لگے ہیں یا یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ایکجہتی کے آڑ میں اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش ہے

 

جس کا جیتا جاگتا ثبوت عید ملن کی تقاریب, مشاعرے و قوالیوں کی محفلیں ہیں جس کے لئے لاکھوں کا پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے مگر کسی

بھوکے کو کھانا کھلانے, یتیم کو تعلیم دلوانے اور بیماروں کا علاج کروانے کے معملے میں ہم اعلی درجہ کے بھکاریوں میں گنے جاتے ہیں

اور ہماری اس تنگ دستی کی وجہ سے آج خودکشی کے واقعات میں تیزی آئی ہے مفلسی کے چلتے چوری, زنا جیسے گناہ عام ہورہے ہیں , ہماری معاشی حالت اتنی خستہ ہوچکی ہے کہ نہ ہمارے پاس بہتر تعلیمی نظام ہے نہ ہی روزگار کے ذرائع موجود ہیں اور نہ ہی ہمارے یہاں مریضوں کو بہتر علاج فراہم ہورہا ہے ایسے میں غیر مسلمانوں کو افطار پارٹیوں میں شریک کرکے رمضان کے متعلق ہم کیا پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ مسلمان خود اُن احکامات کی پیروی ہی نہیں کررہے جس کا اللہ سبحان تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے جس کی نافرمانی کرتے ہوئے ایک پل کے لئے بھی ہمیں خوف خدا کا احساس نہیں ہوتا ایسے میں ہمارے کسی بھی عمل میں وہ تاثیر کیونکر آئیگی جو غیرمسلمانوں کو متاثر کرسکے ؟

 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا