English   /   Kannada   /   Nawayathi

’نریندر مودی پھر وزیر اعظم بنے تو مسلمانوں کے لئے ہر طرف تاریکی‘

share with us

dw 

حال ہی میں بین الاقوامی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے انتخابات کے سلسلہ سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت مسلمان کس قدر خوف محسوس کر رہے ہیں، انہین خدشہ ہے کہ اگر نریندر مودی دوبارہ سے اقتدار میں آ گئے تو انہیں انتہائی ناخوشگوار حالات کا سامنا کرنا پر سکتا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کی اس دوسری سب سے بڑی اور ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والی ہندو اکثریتی ریاست میں مسلمان سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی سترہ کروڑ کے قریب ہے۔

لیکن بھارت کے یہی مسلمان اس بارے میں ابھی سے خوف کا شکار ہیں کہ اگر ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی سے تعلق رکھنے والے نریندر مودی ایک بار پھر ملکی وزیر اعظم بن گئے، تو انہیں کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

شمالی بھارتی شہر اعظم گڑھ روایتی طور پر مسلمان علماء اور شاعروں ادیبوں کا شہر رہا ہے۔ اسی شہر میں ابھی حال ہی میں جب چھ سرکردہ ریٹائرڈ مسلم ماہرین تعلیم آپس میں ملاقات کے لیے مل بیٹھے تو ان میں سے ہر ایک دوسروں سے بڑھ چڑھ کر ان خدشات کا اظہار کر رہا تھا کہ مودی کا ممکنہ طور پر پھر سربراہ حکومت بن جانا بھارتی مسلمانوں کے لیے اپنے اندر کیا کیا اندیشے اور خطرات لیے ہوئے ہو گا۔

انہی مسلم ماہرین تعلیم میں سے ایک محی الدین آزاد نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم بھارتی معاشرے میں دوسرے درجے کے شہری بنا دیے جانے سے محض ایک قدم کے فاصلے پر ہیں۔‘‘

بھارتی ریاست اتر پردیش ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے۔ اسی صوبے میں عشروں تک تعلیمی شعبے سے وابستہ رہنے والے عربی زبان کے ریٹائرڈ پروفیسر محی الدین آزاد نے م‍زید کیا، ’’اگر نریندر مودی مزید ایک بار وزیر اعظم بن گئے، تو ہمارے لیے ہر طرف تاریکی چھا جائے گی۔‘‘

محی الدین آزاد کے ایک ساتھی اور کیمسٹری کے ریٹائرڈ پروفیسر حسن خالد اعظمی نے کہا، ’’نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کا پہلا دور، جس کے تقریباﹰ اختتام پر موجودہ قومی انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے، ان کی جماعت بی جے پی کے لیے ایک قدرے کم کامیاب عرصہ تھا۔ لیکن اب اگر مودی دوسری مدت کے لیے بھی وزیر اعظم بن گئے، تو ان کی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت اپنے اس ایجنڈے پر عمل کرنا شروع کر دے گی، جو طویل مدت سے التوا کا شکار ہے۔‘‘

مسلم ووٹروں میں پائے جانے والے ان خدشات کی وجہ یہ ہے کہ 2014ء میں جب مودی پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے، تب سے ہی یہ اقلیتی مسلم شہری خود کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں۔

اس امر کی چند مثالیں یہ ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بھارت کے کئی شہروں کے مسلمانوں سے منسوب نام صرف اس لیے بدلے جا چکے ہیں کہ اس ملک کے مغل مسلم حکمرانوں کے دور سے جڑے ماضی پر پردہ ڈالا جا سکے۔

اس کے علاوہ کئی نصابی کتب کو بھی اس لیے تبدیل کر دیا گیا کہ بھارت کی تاریخ میں مسلمانوں کے کردار کو کم کر کے دکھایا جا سکے، جو تاریخی حقائق کو جھٹلانے کی سیاسی کوشش ہے۔

اس کے علاوہ گائے کو ذبح کرنے کے بعد میں غلط ثابت ہونے والے شبہات کے نتیجے میں درجنوں مختلف واقعات میں مشتعل ہندو حملہ آور بہت سے مسلمانوں کو ہلاک بھی کر چکے ہیں۔

ایسے میں مسلمانوں میں مودی کے ممکنہ طور پر دوسرے دور اقتدار سے پہلے پایا جانے والا خوف قابل فہم بھی ہے اور فی الحال مستقبل میں اس سے نکلنے کا کوئی یقینی راستہ نظر بھی نہیں آتا۔

سیاسی اور انتخابی سطح پر نئی دہلی میں آئندہ حکومت سازی سے متعلق حقائق اس وقت واضح ہو جائیں گے جب اسی مہینے کے اواخر میں بھارت میں ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں یا لوک سبھا کے الیکشن کے حتمی نتائج سامنے آ جائیں گے۔

(یہ رپورٹ اس سے پہلے ڈی ڈبلیو میں شائع ہو چکی ہے)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا