English   /   Kannada   /   Nawayathi

رمضان کے روزے کے تین مقاصد 

share with us


lتقویٰ l اللہ کی کبریائی کا اظہار lشکر الٰہی 


عبدالعزیز 


    سورہ البقرہ میں 183سے 185 تک روزہ کی فرضیت، مسائل اور مقاصد بیان کئے گئے ہیں۔ 
    پہلی آیت میں لعلکم تتقون کہا گیا ہے اور آخر کی آیت یعنی آیت نمبر 85 میں ولتکبراللہ علی ما ہدکم و لعلکم تشکرون بیان کیا گیا ہے۔پہلے روزہ کا مقصد تقویٰ کی افزائش اور آخری آیت میں اللہ کی بزرگی اور کبریائی کے ذکر کے ساتھ شکر الٰہی کی ہدایت کی گئی ہے۔ 
    اس طرح تین آیتوں میں مسائل کے ساتھ تین بڑے مقاصد پیش کئے گئے ہیں جن کے حصول سے روزہ کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ 
(1)   تقویٰ      (2)    اللہ کی کبریائی کا اظہار     (3)    اللہ کا شکر 
    تقویٰ: عربی زبان میں اس کے لغوی معنی بچنے، پرہیز کرنے اور لحاظ کرنے کے ہیں، لیکن اصطلاح شریعت میں یہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ حاظر و ناظر ہونے کا یقین پیدا کرکے دل میں خیر کی طرف رغبت اور شر سے نفرت پیدا کر دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ضمیر کے اس احساس کا نام ہے جس کی بنا پر ہر کام میں اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرنے کی شدید رغبت اور اس کی مخالفت سے شدید نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ بات کہ تقویٰ اصل میں دل کی اس کیفیت کا نام ہے۔ قرآن پاک کی اس آیت سے ظاہر ہے۔ ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب ”اور جو شعائر الٰہی کی تعظیم کرتا ہے تو وہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ تقویٰ کا اصل تعلق دل سے ہے یعنی ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو دلوں میں امور خیر کی تحریک پیدا کرتی اور شعائر الٰہی کی تعظیم سے ان کو معمور کرتی ہے۔ 
    تقویٰ کی یہ حقیقت کہ وہ دل کی خاص کیفیت کا نام ہے۔ ایک صحیح حدیث سے تصریحاً ثابت ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: التقویٰ ہٰھنا اور یہ کہہ کر دل کی طرف اشارہ فر مایا۔ اس سے یقینا یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ دل کی پاکیزہ ترین اور اعلیٰ ترین کیفیت کا نام ہے جو تمام نیکیوں کی محرک ہے۔ اس کی بہترین تفسیر وہ ہے جو حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: امیر المومنین! آپ کو کبھی ایسے راستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں اور راستہ تنگ ہو؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: بارہا۔ انھوں نے پوچھا تو ایسے موقع پر آپ کیا کرتے ہیں؟ حضرت عمر نے جواب دیا۔ میں دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بچتا ہوا چلتا ہوں کہ کانٹے دامن میں الجھ کر اسے تار تار نہ کردیں۔ حضرت ابی نے کہا ”بس اسی کا نام تقویٰ ہے“۔ زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے دونوں طرف افراط و تفریط خواہشات اور میلاناتِ نفس، وساوس اور ترغیبات گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خاردار جھاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس راستہ پر کانٹوں سے دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعت حق کی راہ سے ہٹ کر بد اندیشی و بدکرداری کی جھاڑیوں میں نہ الجھنا۔ یہی تقویٰ ہے اور یہی تقویٰ پیدا کرنے کیلئے روزہ فرض کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی عبادات بھی تو قرآن کریم کی تصریح کے مطابق تقویٰ پیدا کرنے کیلئے ہی فرض کی گئی ہیں پھر روزہ کی اس حوالے سے کیا خصوصیت ہے؟ اس سلسلے میں دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہئیں۔
     پہلی یہ کہ ابھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ انسان زندگی کی جس شاہراہ پر سفر کر رہا ہے وہ قدم قدم پر خواہشات و ترغیبات اور افراط و تفریط کے وساوس کے کانٹوں سے اٹا پڑا ہے۔ اپنے دل و دماغ اور دامن اطاعت کو ان کانٹوں سے بچاکر نکلنا کس قدر مشکل کام ہے اس لئے ضروری ہے کہ دل یعنی ضمیر کی بیداری کیلئے تمام ممکن عوامل سے کام لیا جائے، اس لئے تمام عبادات سمیت روزے کو بھی اسی قلبی بیداری یعنی تقویٰ پیدا کرنے کیلئے لگا دیا ہے۔ دوسری بات یہ سامنے رہنیچاہئے کہ اگر چہ دوسری عبادات کا منتہائے مقصود بھی یہی تقویٰ ہے بلکہ پورے دین و شریعت کی روح بھی یہی ہے مگر روزہ اپنی اثر اندازی اور نتیجہ خیزی میں ان سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اسی لئے شاید پروردگار نے روزہ کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے۔ فرمایا: الصوم لی و انا اجزی بہ ”اور روزہ خاص میرے لئے ہے“ حالانکہ نماز، زکوٰۃ، حج، قربانی بلکہ ہر نیکی جس کا پروردگار نے حکم دیا ہے سب اسی کیلئے ہے۔ اسی کی اطاعت میں اور اسی کی رضا و خوشنودی کیلئے اسے رو بعمل لایا جاتا ہے، لیکن کسی نیکی کی نسبت پروردگار نے اس طرح اپنی طرف نہیں فرمائی۔ وجہ ظاہر ہے کہ باقی تمام عبادات اور تمام نیک اعمال یقینا تقویٰ ہی پیدا کرتے ہیں مگر روزہ اس معاملے میں ان سے بدرجہا فائق ہے کیونکہ تمام عبادات اپنے اندر ایک اجتماعی صورت رکھتی ہیں۔ نماز جماعت کی پابندی کا تقاضا کرتی ہے۔ اموال ظاہرہ میں زکوٰۃ کی مسنون صورت بیت المال کی پابندی کے ساتھ اجتماعی ہے اور اموال باطنہ میں بھی زکوٰۃ وصول کرنے والا تو بہر حال جانتا ہے۔ حج تو ایک شہرت عام اور ابتلائے عام والی عبادت ہے، اس لئے ان تمام عبادات میں بندے کی اپنے رب سے خصوصی تعلق کی حالت میں شکست و ریخت کے پیدا ہوجانے کا ہر وقت اندیشہ ہے اور اس بات کا ہر وقت امکان ہے کہ دکھاوے اور ریاکاری کے چھینٹے صفائے قلب کو گدلا کر دیں۔ ایک عابد و زاہد اپنی قلبی حالت پر مطمئن ہوتا ہے مگر اچانک خبر ہوتی ہے کہ اندر ہی اندر نیکی کی شہرت کی حرص اور حصول منفعت کی ہوس اپنا کام دکھا چکی ہے، کیونکہ  ؎
براہیمی نظر پیدا بڑی مشکل سے ہوتی ہے 
ہوس سینے میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں 
    مگر روزہ اس لحاظ سے ایک منفرد عبادت ہے اس میں دکھاوے، ریا کاری اور ظاہر داری کا امکان بہت کم ہے۔ ایک آدمی کے روزے دار ہونے یا نہ ہونے کی بظاہر کوئی علامت نہیں ہوتی۔ اس کے ایسے کوئی ظاہری اعمال نہیں جس سے دیکھنے والے کو ایک روزے دار کے روزے کا احساس ہو۔ یہ خالصتاً بندے اور اس کے رب کا معاملہ ہے۔ روزہ دار اپنے مالک کی رضا کیلئے بھوکا پیاسا رہتا ہے اور دل ہی دل میں اس سے لو لگائے کاروبارِ زندگی میں مصروف رہتا ہے اور صرف اس کا مالک اس کے دل کی کیفیت سے واقف اور اس کے روزے سے آگاہ ہے۔ اس لئے جس قدر صفائے دل، بیداریِ قلب اور تعلق باللہ کے امکانات یہاں ہیں، وہ دوسری عبادات میں نہیں ہوسکتے۔ اسی لئے روزے کی نسبت پروردگار نے بطورِ خاص اپنی طرف فرمائی اور خصوصی اجر و ثواب کی امید بھی دلائی۔ فرمایا:اَلصَّوْمُ لِیْ وَ اَنَا اُجْزِیْ بِہٖ ”روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا“ حالانکہ ہر نیکی کا بدلہ اللہ تعالیٰ خود ہی دیتے ہیں لیکن یہاں بطور خاص اپنی طرف نسبت فرماکر اجر و ثواب میں افزونی اور اظہارِ خوشنودی کا سامان بھی کر دیا۔ 
    اس حدیث کو اگر ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو روزے کی اہمیت اور عظمت اور اس کی صفت تقویٰ میں ہزار در ہزار چند اضافہ ہوجاتا ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ متذکرہ حدیث کو اس طرح پڑھا جائے (اور الفاظ میں اس کی گنجائش بھی ہے) اَلصَّوْمُ لِیْ وَ اَنَا اُجْزِیْ بِہٖ”روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا ہوں“ یعنی ایک روزہ دار روزہ اجر و ثواب کیلئے نہیں بلکہ اللہ کیلئے رکھتا ہے یعنی اس کا مطلوب و مقصود اس کا رب ہے جبکہ باقی تمام اعمال اجر و ثواب کی امید میں کئے جاتے ہیں اور حصول جنت کو منتہائے مقصودسمجھا جاتا ہے۔ اور وہ صحیح بھی ہے کیونکہ خود پروردگار کا ارشاد ہے: وَ سَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ”اور تیزی سے بڑھو اپنے رب کی مغفرت اور بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کا عرض آسمان اور زمین ہیں“ اور یہ بھی صحیح ہے کہ جنت اسی کو ملے گی جس سے اللہ راضی ہوگا، لیکن یہاں سوال ہدف کی بلندی اور منتہائے مقصود کے ارفع و اعلیٰ ہونے کا ہے۔ روزہ اپنے رکھنے والے کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ تمہارا دل اپنے آقا و مالک کی محبت سے اس طرح لبریز ہوجانا چاہئے کہ کسی اور کیلئے اس میں گنجائش نہ رہے، حتیٰ کہ جنت کیلئے بھی نہیں۔ یا یہ کہ تمہارا دل اپنے رب کیلئے ہر چیز بلکہ ہر تمنا سے بھی خالی ہوجائے اور اس کا دروازہ خواہش کیلئے بند ہوجائے اور پھر تم کہہ سکو ؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہوگئی
    اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ایسی صورت میں خود میں اس کی جزا ہوں یعنی جو میری طلب میں دو عالم سے بے گانہ ہوکر میرے آستانے پر آپڑا ہے میں اسے اپنا لیتا ہوں اور اسے اس حد تک نوازتا ہوں کہ اس کی محبت کا صلہ محبت سے دیتا ہوں: اللہ یحب المتقین ”جو صرف مجھ ہی سے محبت کرتا ہے تو میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں“۔ اس کے بعد اور کیا رہ جاتا ہے جس کی ایک آدمی تمنا کرے؟  ؎
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر 
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
    روزے کا ایک اور پہلو بھی نہایت توجہ کے قابل ہے وہ یہ کہ روزے سے اگر چہ مقصود جیسا کہ عرض کیا گیا قلب اور ضمیر کے احساس کو ایسی زندگی دینا ہےچاہئے کہ اگر چہ دوسری عبادات کا منتہائے مقصود بھی یہی تقویٰ ہے بلکہ پورے دین و شریعت کی روح بھی یہی ہے مگر روزہ اپنی اثر اندازی اور نتیجہ خیزی میں ان سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اسی لئے شاید پروردگار نے روزہ کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے۔ فرمایا: الصوم لی و انا اجزی بہ ”اور روزہ خاص میرے لئے ہے“ حالانکہ نماز، زکوٰۃ، حج، قربانی بلکہ ہر نیکی جس کا پروردگار نے حکم دیا ہے سب اسی کیلئے ہے۔ اسی کی اطاعت میں اور اسی کی رضا و خوشنودی کیلئے اسے رو بعمل لایا جاتا ہے، لیکن کسی نیکی کی نسبت پروردگار نے اس طرح اپنی طرف نہیں فرمائی۔ وجہ ظاہر ہے کہ باقی تمام عبادات اور تمام نیک اعمال یقینا تقویٰ ہی پیدا کرتے ہیں مگر روزہ اس معاملے میں ان سے بدرجہا فائق ہے کیونکہ تمام عبادات اپنے اندر ایک اجتماعی صورت رکھتی ہیں۔ نماز جماعت کی پابندی کا تقاضا کرتی ہے۔ اموال ظاہرہ میں زکوٰۃ کی مسنون صورت بیت المال کی پابندی کے ساتھ اجتماعی ہے اور اموال باطنہ میں بھی زکوٰۃ وصول کرنے والا تو بہر حال جانتا ہے۔ حج تو ایک شہرت عام اور ابتلائے عام والی عبادت ہے، اس لئے ان تمام عبادات میں بندے کی اپنے رب سے خصوصی تعلق کی حالت میں شکست و ریخت کے پیدا ہوجانے کا ہر وقت اندیشہ ہے اور اس بات کا ہر وقت امکان ہے کہ دکھاوے اور ریاکاری کے چھینٹے صفائے قلب کو گدلا کر دیں۔ ایک عابد و زاہد اپنی قلبی حالت پر مطمئن ہوتا ہے مگر اچانک خبر ہوتی ہے کہ اندر ہی اندر نیکی کی شہرت کی حرص اور حصول منفعت کی ہوس اپنا کام دکھا چکی ہے، کیونکہ  ؎
براہیمی نظر پیدا بڑی مشکل سے ہوتی ہے 
ہوس سینے میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں 
    مگر روزہ اس لحاظ سے ایک منفرد عبادت ہے اس میں دکھاوے، ریا کاری اور ظاہر داری کا امکان بہت کم ہے۔ ایک آدمی کے روزے دار ہونے یا نہ ہونے کی بظاہر کوئی علامت نہیں ہوتی۔ اس کے ایسے کوئی ظاہری اعمال نہیں جس سے دیکھنے والے کو ایک روزے دار کے روزے کا احساس ہو۔ یہ خالصتاً بندے اور اس کے رب کا معاملہ ہے۔ روزہ دار اپنے مالک کی رضا کیلئے بھوکا پیاسا رہتا ہے اور دل ہی دل میں اس سے لو لگائے کاروبارِ زندگی میں مصروف رہتا ہے اور صرف اس کا مالک اس کے دل کی کیفیت سے واقف اور اس کے روزے سے آگاہ ہے۔ اس لئے جس قدر صفائے دل، بیداریِ قلب اور تعلق باللہ کے امکانات یہاں ہیں، وہ دوسری عبادات میں نہیں ہوسکتے۔ اسی لئے روزے کی نسبت پروردگار نے بطورِ خاص اپنی طرف فرمائی اور خصوصی اجر و ثواب کی امید بھی دلائی۔ فرمایا:اَلصَّوْمُ لِیْ وَ اَنَا اُجْزِیْ بِہٖ ”روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا“ حالانکہ ہر نیکی کا بدلہ اللہ تعالیٰ خود ہی دیتے ہیں لیکن یہاں بطور خاص اپنی طرف نسبت فرماکر اجر و ثواب میں افزونی اور اظہارِ خوشنودی کا سامان بھی کر دیا۔ 
    اس حدیث کو اگر ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو روزے کی اہمیت اور عظمت اور اس کی صفت تقویٰ میں ہزار در ہزار چند اضافہ ہوجاتا ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ متذکرہ حدیث کو اس طرح پڑھا جائے (اور الفاظ میں اس کی گنجائش بھی ہے) اَلصَّوْمُ لِیْ وَ اَنَا اُجْزِیْ بِہٖ”روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا ہوں“ یعنی ایک روزہ دار روزہ اجر و ثواب کیلئے نہیں بلکہ اللہ کیلئے رکھتا ہے یعنی اس کا مطلوب و مقصود اس کا رب ہے جبکہ باقی تمام اعمال اجر و ثواب کی امید میں کئے جاتے ہیں اور حصول جنت کو منتہائے مقصودسمجھا جاتا ہے۔ اور وہ صحیح بھی ہے کیونکہ خود پروردگار کا ارشاد ہے: وَ سَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ”اور تیزی سے بڑھو اپنے رب کی مغفرت اور بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کا عرض آسمان اور زمین ہیں“ اور یہ بھی صحیح ہے کہ جنت اسی کو ملے گی جس سے اللہ راضی ہوگا، لیکن یہاں سوال ہدف کی بلندی اور منتہائے مقصود کے ارفع و اعلیٰ ہونے کا ہے۔ روزہ اپنے رکھنے والے کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ تمہارا دل اپنے آقا و مالک کی محبت سے اس طرح لبریز ہوجانا چاہئے کہ کسی اور کیلئے اس میں گنجائش نہ رہے، حتیٰ کہ جنت کیلئے بھی نہیں۔ یا یہ کہ تمہارا دل اپنے رب کیلئے ہر چیز بلکہ ہر تمنا سے بھی خالی ہوجائے اور اس کا دروازہ خواہش کیلئے بند ہوجائے اور پھر تم کہہ سکو ؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہوگئی
    اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ایسی صورت میں خود میں اس کی جزا ہوں یعنی جو میری طلب میں دو عالم سے بے گانہ ہوکر میرے آستانے پر آپڑا ہے میں اسے اپنا لیتا ہوں اور اسے اس حد تک نوازتا ہوں کہ اس کی محبت کا صلہ محبت سے دیتا ہوں: اللہ یحب المتقین ”جو صرف مجھ ہی سے محبت کرتا ہے تو میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں“۔ اس کے بعد اور کیا رہ جاتا ہے جس کی ایک آدمی تمنا کرے؟  ؎
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر 
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
    روزے کا ایک اور پہلو بھی نہایت توجہ کے قابل ہے وہ یہ کہ روزے سے اگر چہ مقصود جیسا کہ عرض کیا گیا قلب اور ضمیر کے احساس کو ایسی زندگی دینا ہے

جس سے نہ صرف وہ خیر و شر میں تمیز کرنے کے قابل ہوجائے بلکہ خیر اس کی چاہت بن جائے اور شر سے اسے شدید نفرت پیدا ہوجائے لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے پروردگار عالم نے روزے کے جو اعمال مخصوص فرمائے ہیں اور جو اس کو ہیئت عطا کی ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگر آدمی روزے کیلئے تمام اعمال احساس ذمہ داری اور کامل شعور کے ساتھ ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ روزہ حقیقی تبدیلی کا ضامن نہ بنے۔ 
    غور کیجئے! اللہ تعالیٰ نے چند دنوں کے نہیں بلکہ پورے ایک مہینے کے روزے فرض فرمائے اور ان روزوں کے ذریعے اپنے بندے سے مسلسل 720 گھنٹے تک ایک ایکسر سائز اور قواعد کرائی تاکہ اس طریقے سے اللہ کی بندگی کا اور اس کی اطاعت کا تصور پوری طرح اس کے دل و دماغ میں راسخ ہوجائے۔ اندازہ فرمائیے! وہ اشیائے خورد و نوش اور میاں بیوی کا جائز تعلق جو سال کے گیارہ مہینوں میں ہر طرح اس کے حلال اور مباح ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں آکر اس کیلئے حرام ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی فجر طلوع ہوتی ہے اس وقت سے لے کر غروبِ آفتاب تک اس کے سامنے نعمتوں کے ڈھیر لگے رہتے ہیں، مگر کبھی اس کا ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتا، پیاس سے حلق میں کانٹے پڑجاتے ہیں مگر وہ پانی کا ایک گھونٹ گلے سے نیچے نہیں اتارتا اور پھر کوئی اسے دیکھنے والا نہیں ہوتا وہ تنہائی میں ممنوعہ چیزوں میں سے جس چیز سے چاہے تمتع کرسکتا ہے۔ کوئی نگاہ اسے دیکھنے والی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود وہ کوئی ایسا کام کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتا جس سے اس کا روزہ ٹوٹ سکتا ہو۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ اگر ایک آدمی نے محض عادت کے تحت بلا سوچے سمجھے روزہ نہیں رکھا ہے اور وہ اس طرح پورا ایک مہینہ اس اطاعت کی مشق جاری رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کے دل و دماغ بلکہ اس کے ہر رگ و ریشہ میں اللہ کی اطاعت سما نہ جائے۔ وہ باقی گیارہ مہینوں میں بھی جب کسی غلط کام کی طرف ہاتھ بڑھائے گا یا قدم اٹھائے گا یا دل میں خیال بھی لائے گا تو اللہ کی اطاعت کا یہ تصور اور خدا کی برتری اور کبریائی کا یہ عقیدہ اسے بار بار روکے گا کہ دیکھو تم غلط کام کر رہے ہو اور پھر صرف یہی نہیں کہ ایک روزہ دار کو کھانے پینے اور مباشرت سے روکا گیا ہے اور اسی کی پورا مہینہ مشق کرائی ہے بلکہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے واضح طور پر پوری زندگی کو اللہ کی معصیت سے پاک کر دینا روزے کا مقصد ٹھہرایا ہے اور جو آدمی صرف کھانے پینے اور مباشرت سے پرہیز کرتا ہے لیکن باقی زندگی کے معاملات میں خلاف شریعت امور سے اجتناب نہیں کرتا تو حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اس نے ناحق بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کی اللہ کو ایسے روزے دار کے روزے کی ضرورت نہیں۔ فرمایا: من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ و شرابہ (جس آدمی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے)۔ 
    یہاں جھوٹ پر عمل کرنا قابل توجہ ہے۔ اس سے مراد زندگی کے کسی مرحلے میں بھی خلاف شریعت امور پر عمل کرنا ہے۔ چاہے وہ مرحلہ ملازمت سے تعلق رکھتا ہو یا تجارت سے، وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اس کا تعلق سیاست سے ہو یا عدالت سے، محکومیت سے ہو یا حاکمیت سے، جہاں بھی وہ خلاف شریعت امور کو اختیار کرے گا، اس نے گویا جھوٹی زندگی کو اختیار کرلیا، اس سے اجتناب کرنا روزے کا اصل مقصد ہے۔ آنحضرت ﷺ نے مزید فرمایا: کم من صائم فلیس لہ من صیامہ الا الظمام و کم من قائم فلیس لہ من قیامہ الا السھر (کتنے ایسے روزے دار ہیں جن کو روزے سے سوائے بھوک پیاس کے اور کچھ نہیں ملتا اور کتنے ایسے شب زندہ دار ہیں جن کو رتجگے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 

13مئی 2019۰فکروخبر

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا