English   /   Kannada   /   Nawayathi

طلاقیں اتنی زیادہ کیوں؟

share with us

 

 صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمٰن قاسمی 
 

آجکل طلاق کے واقعات بہت زیادہ پیش آرہے ہیں،جسکی وجہ سے نفرت نااتفاقیاں بڑھتی جا رہی ہے،حالاںکہ نکاح ایک ایسا پائدارمعاہدہ ہے کہ جسمیں انسانیت کی بقااور فطری نظامِ زندگی کاراز مضمر ہے، اسلیےکہ انسانی زندگی کو خوشگوار بنانے میں میاں بیوی کا رشتہ انتہائ اہمیت کاحامل ہے، جس کے بغیر زندگی ہی ادھوری اور نامکمل ہے،اوریہ جتنا اہم ہےاتنا ہی نازک اور لچکدار ہے، اسے سنبھال کر رکھنا نہایت ہی مشکل ہے، البتہ ناممکن تو نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس رشتہ کی لچک کا ہر ایک شخص لحاظ کرکے اسکے تمام پہلوپر نظر رکھتے ہوئےاسے تمام تر پیش آنے والی آفتوں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھنے میں اکثر ناکام دکھائ دیتے ہیں، شریعت نے نکاح کے رشتے کو اتنا پاکیزہ اور مضبوط رشتہ قرار دیا ہے کہ ہر لمحہ اسکے خم وپیچ کا بھر پور لحاظ رکھا، اور قرآن کریم میں جا بجا اسکے تحسین کی تاکید فرمائ کہ اپنی بیویوں کی ساتھ اچھا سلوک کرو اور انکے حقوق کا پورا پورا خیال رکھو،
ورنہ یہ رشتہ جتنا مضبوط مرغوب اور محبوب ہے اتنا ہی کمزور اور جلد ٹوٹ جانے والا ہے، چنانچہ شریعت نے افراط وتفریط غلو اور مبالغہ آرائ سے نکل کر ہر ایک کو اپنے اپنے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا،چنانچہ مرد کے ذمے مہر، نان ونفقہ اور دیگر ضروریات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ حسن معاشرت بھی لازم ہے،اور عورت کےلیے عفّت وپاکدامنی کے ساتھ شوہر کی اطاعت بھی ازحد ضروری ہے،اب ہر ایک اپنی اپنی ذمہ داری کو ادا کرے تو اتنے زیادہ جو آئے دن طلاق کے واقعات پیش آتے ہیں انکا خیال تو کیا وہم وگمان بھی نہیں ہوگا،
لیکن افسوس !صدافسوس ! معاملہ اسکے بر عکس نظر آرہا ہے، ہر ایک یہی سوچنے میں اپنے اوقات کو ضائع کردیتا ہے کہ میرا فریق میرے حقوق کو ادا نہیں کرتا، وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں اپنے حقوق کوکتنا ادا کررہاہوں؟اور مجھ سےکتنی کوتاہی ہو رہی ہے؟
یہ معاملہ آگے بڑھتارہتاہےیہاں تک کہ طلاق کی نوبت آجاتی ہے،بالآخر اس پاکیزہ رشتے کو ایک ہی لفظ میں بلا سوچے سمجھےختم کردیاجاتاہے،
حالانکہ شریعت نےسخت ضرورت کے وقت جبکہ میاں بیوی میں ایسی نا اتفاقی ہوجائے کہ گزارا مشکل ہو تب جا کر اس معاہدہ کو طلاق کے ذریعے ختم کرکے ایک نئی زندگی گزارنے کی اجازت دی ہے،تاکہ میاں بیوی خوشی خوشی زندگی گزار سکے، انکی زندگی اجیرن ہونے سے بچ جائے،لیکن اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس کا بے جا استعمال کیا جائے،
یاد رکھیے اسکا بے جا استعمال کرنے پر بھی آخرت میں پوچھ ہوسکتی ہے،
اب اسکے اسباب پر نظر ڈالتے ہیں،

کثرت طلاق کے اسباب ایک نظر میں:

۱)اسلامی تعلیمات سے نا واقف ہونا،
۲)اچھی تربیت کانہ ملنا،
۳)بات بات پر غصہ ہوجانا،
۴)قوّت برداشت کا نہ پایاجانا،
۵)شکّی ہونا،
۶)رشتہ کی ناپسندیدگی،
۷)حریص اور لالچی ہونا،
۸)ناشکری ناقدری کرنا،
۹)حد سے زیادہ مارپیٹ کرنا،
۱۰)اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا،
۱۱)گھر کے خرچے کو کفایت سے نہ چلانابلکہ فضول خرچی کرنا،
۱۲)ساس کے ساتھ ناروا سلوک کرنا،
۱۳)ماں باپ کا لڑکیوں کو چڑھانا،
۱۴)خاندانی عصبیّت ،
۱۵)طبعی سکون واطمینان کا حاصل نہ ہونا،
۱۶)اپنے سے مالدار لوگوں کو دیکھ کر انکی طرح زندگی گزارنے کی سوچنا،
۱۷)معاشرت کا دینی بگاڑ،
۱۸)غلط فہمی کا شکار ہونا،
۱۹)شوہر کی اطاعت نہ کرنا،
۲۰)میاں بیوی کا ایک دوسرے کو نوکر اورنوکرانی سمجھنا،
۲۱)نشہ آور اشیاء کی لت،
۲۲)آزادی کاخواہاں ہونا،
۲۳)بیوی کے اچھے کام پر تعریف اور غلط کام پر تنبیہ نہ کرنا،
۲۴)زبان درازی کرنا،
۲۵) دوسروں سےغلط تعلقات رکھنا،

خلاصئہ کلام یہ ھیکہ نکاح ایک ایساپائدار معاھدہ ہے، جسے توڑنے کی سخت ضرورت کے وقت ہی اجازت ہے، اور اسکو جہاں تک ممکن ہو باقی رکھنے کی کوشش کرنا بہت ضروری ہے،عام طور سے کثرت طلاق کے واقعات ان ہی مذکورہ اسباب کی وجہ سے درپیش ہوتے ہیں، لہٰذا اگر ان تمام اسباب کا علاج کرلیاجائے، ان سےبچا جائے،اور اپنے آپ کواپنی اہلیہ کو ان تمام اسباب سے کوسوں دور رکھاجائے تو ان شاءاللہ یہ رشتہ اخیر دم تک قائم ودائم رہے گا،اوراگر خدا نخواستہ اسمیں ذرّہ برابر بھی کوتاہی پائ گئ تو یہ رشتہ خطرے میں پڑسکتا ہے،
امید ھیکہ قارئین ان اسباب سے اپنے معاشرے اور گھرانےکو بچاکر اپنی ازدواجی  زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں گے،نیزمیاں بیوی میں سے ہر ایک اپنے اپنےحقوق کوپوراپورا اداکریں گے،اوران تمام کوتاہیوں کو دور کرنےاور انکا علاج کرنے کے لیے فکرمند ہونگے،ان شاء اللہ یہ عمل کثرتِ طلاق کےواقعات کو روکنے میں معین ومددگارہوگا،
یہ تحریر ان شاء اللہ قارئین کے لیے مشعلِ راہ بنے گی،

(مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

09مئی 2019(فکروخبر

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا