English   /   Kannada   /   Nawayathi

اورنگ زیبؒ کے دیس میں

share with us

عبدالحمید اسید بن محمد اسمعیل عیدروسہ 
 

 

سال ۲۰۱۶ء اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا، درجہ چہارم کے طلبا امتحان ششماہی سے فارغ ہوکر اطمینان کی سانس لے رہے تھے، اور مسلسل اپنے ہر سال کے مطابق سیر و تفریح (ثقافتی سفر) کی درخواست کررہے تھے کہ اچانک سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی وفات کا الم ناک واقعہ پیش آیا، جس کے تاثر سے طلبا کے ذھن ودماغ سے سیر وتفریح کی باتیں بالکل نکل گئی، اور اس صدمۂ جان کاہ پر افسوس کرتے ہوئے رواں سال اپنے اختتام کو پہونچ گیا۔ بہرحال فرمائشوں پر فرمائش کرتے اگلے دو سال بھی گزر گئے۔ پھر عالیہ ثالثہ میں پہنچنے کے بعد اساتذہ کے ذریعہ پتہ چلا کہ مشورے سے عالیہ ثالثہ کا درجہ سیر وتفریح کے لیے مختص کردیا گیا ہے، یہ جواب ملنے پر بے انتہا خوشی ہوئی۔ پھر پتہ چلا کہ سہ ماہی کے نتیجہ کے متعلق ایک میٹنگ میں اورنگ آباد ٹور لے جانا قطعی فیصلہ ہوچکا ہے، پھر کارروائی کی ابتداء اس طرح سے ہوئی کہ اساتذہ نے درجہ میں آکر طلبا کے سامنے پوری تفصیلات پیش کی اور پوچھاکہ اب چلنے کے لیے کون کون تیار ہیں؟ بعض طلبا نے ہاتھ اٹھائے اور بعض نے اپنی مشغولیت کی وجہ سے ٹور میں ساتھ آنے سے انکار کردیا۔
سفر کی تیاریاں: 
جب سفر کا وقت قریب ہونے لگتا ہے تو طلبہ کے اندر خوشی کی لہریں دوڑرہی ہوتی ہیں، سفر سے ایک دن قبل مہتمم صاحب کا اعلان ہوتا ہے کہ عالیہ ثالثہ کے طلبا کو اپنے سفر کی تیاری کے لیے کل آدھے دن کی چھٹی دی جائے گی، طلبا کی خوشی میں اور اضافہ ہوتا ہے، آپس میں ایک دوسرے سے مل کر باتیں کرنے لگتے ہیں، اور درجہ میں پہونچ کر مشورے شروع کرتے ہیں کہ کون طالب علم سفر میں توشے کے لیے کیا ساتھ میں لے کر آئے گا اور یہ اور اس طرح کی باتیں ہوتی رہتی ہے، اساتذہ بھی پڑھانے آتے تو ان کو بھی ماحول کا حوالہ دے کر تعلیم وتدریس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آخر کار یہ دن بھی گزر گیا، صبح کو طلبا خوشی خوشی مدرسہ وقت سے پہلے ہی پہونچ جاتے ہیں، حالاں کہ ان میں وہ طلبا بھی شامل ہیں جو کبھی وقت پر درجہ میں حاضر ہونے کی کوشش بھی کرتے نہیں، خوشی کے جذبات کے آگے ہر چیز قربان ہوجاتی ہے، درجہ کی گھنٹی شروع ہوتے ہی طلبا گھر جانے کے متعلق سوچتے رہتے ہیں، کچھ دیر بعد گھر جاکر تیاری کر نے کے لیے مہتمم صاحب کی طرف سے اعلان کیا جاتاہے، اور یہ بھی حکم دیا جاتا ہے کہ تین بجے سے پہلے پہلے تمام طلبا اپنا سامان لے کر مدرسہ میں پہونچ جائیں، اس لیے کہ عصر کی نماز مدرسہ میں پڑھ کر آپ کو چار بج کر دس منٹ کی ٹرین سے روانہ کیا جائے گا، اسی کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ موبائیل نہ لانے کی بھی حتی الامکان تاکید کی جاتی ہے، ان باتوں کو سن کر طلبا فوراً گھر پہونچ جاتے ہیں ۔ 
مدرسہ واپسی: 
گھر پہونچ کر طلبا اپنی اپنی تیاریوں میں مشغول ہوتے ہیں، نماز ظہر ادا کرکے کھانے سے فارغ ہوکر مقررہ وقت کے مطابق طلبا مدرسہ پہنچ جاتے ہیں، تین بج کر بیس منٹ پر جب میں پہنچا تو طلبا کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے، ایک دوسرے سے خوشی خوشی مل رہے تھے، تمام اساتذہ بھی موجود تھے، اور اسٹیشن تک چھوڑنے کے لیے جامعہ کی سواری کا انتظام کیا گیا تھا، فوراً طلبا کو مسجد کے اندر بھیج دیا گیا، وہاں مولانا رحمت اللہ صاحب طلبا کے درمیان ٹکٹ تقسیم کرہے تھے، ساتھ مولانا عاصم صاحب بھی موجود تھے جو طلبا کو سفر کی سہولت کے لیے بنائے گئے آئی ڈی کارڈ تقسیم کررہے تھے، تمام طلبا جلدی جلدی تمام کاروائیوں سے فارغ ہوگئے۔ 
مہتمم صاحب کی نصیحتیں: 
عصر کی نماز کا وقت قریب تھا، نماز عصر ادا کرنے سے پہلے مہتمم صاحب نے مسجد کے صحن میں تمام طلبا کو جمع کیا اور چند مفید نصائح سے نوازا جو دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف تھی، اور نہ صرف سننے سے تعلق رکھتی تھی بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے اور زندگی میں برتنے کے بھی لائق تھی، فرمایا: الحمدللہ آپ تمام لوگوں کو جامعہ کی طرف سے وقتاً فوقتاً تاریخی اور سبق آموز مقامات کا مشاھدہ کروایا جاتا ہے تاکہ اس کا مشاھدہ کرکے اور اللہ کی نعمتوں پر غور کرکے سبق حاصل کریں، اس سلسلہ میں ایک بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ جہاں بھی جائیں اپنی پہچان کو باقی رکھیں، لباس سلیقہ کا ہو، بہتر یہی ہے کہ جامعہ کا لباس پہنا جائے، غرض اسلامی شعار اور شناخت کے ساتھ رہیں، دوسری بات اپنے اخلاق کو درست رکھیں اور اپنی طرف سے کسی کو زبان سے یا ہاتھ سے تکلیف نہ دیں، آدمی اپنے قول و عمل سے پہچانا جاتا ہے، لہذا اپنے اخلاق کی طرف خصوصی توجہ دیں، اسی طرح ہر جگہ دعاؤں کا بھی اہتمام کریں اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اپنے ذمہ دار اساتذہ کے حکم کی تعمیل کریں اور مکمل تعاون کریں اور موبائیل کے استعمال سے حتی الامکان پرہیز کریں۔ 
مدرسہ سے اسٹیشن تک: 
اذان ہوتے ہی نماز کے لیے اقامت کہی گئی، نماز سے فارغ ہوتے ہی فوراً سواری پر طلبہ چڑھنے لگے، جب سواری چلنے لگی تو ہمارے درجہ کے ایک ساتھی نیاز احمد سڑلگی نے بلند آواز سے سفر کی دعا پڑھائی، دعا پڑھ کر طلبا آپس میں خوشی خوشی باتیں کرنے لگے، راستہ میں گاڑی اچانک رک گئی، دیکھا تو مولانا عبدالخالق صاحب دامدا گاڑی پر سوار ہورہے تھے، مجھے ان کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اس لیے کہ وہ ہمارے محلہ میں رہتے تھے، لیکن طلبا ان سے ابھی تک واقف نہیں تھے، اس لیے ان کے آنے پر طلبا کو خوشی محسوس نہیں ہوئی، البتہ سفر کے دوران جب وہ طلبا سے مل جل گئے تو طلبا کسی بھی موقع پر ان کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہورہے تھے، گاڑی پھر سے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوگئی، اطمینان کے ساتھ گاڑی اسٹیشن کی طرف بڑھ رہی تھی، تھوڑی دیر بعد اسٹیشن پہونچ گئے، وہاں پہونچنے کے بعد معلوم ہوا کہ ٹرین کچھ دیر تاخیر سے پہونچے گی، تمام طلبا اپنے ساز وسامان کے ساتھ اترے اور اسٹیشن میں بیٹھ کر ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔ 
روانگی: 
نومبر کا ۲۹ واں اور ربیع الاول کا ۲۱ واں دن تھا، شام ساڑھے چار بجے کی ٹرین سے ممبئی روانگی تھی، اسٹیشن پر عزیزوں، دوستوں، مخلصوں اوررخصت کرنے والوں کا ایک ہجوم نظر آرہا تھا،ا س لیے کہ سفر تنہا تو کرنا نہیں تھا بلکہ تقریباً نوے (۹۰) طلبا اور اساتذہ پر مشتمل ایک جماعت تھی، یوں معلوم ہورہا تھا کہ سفر اورنگ آباد نہیں بلکہ حج بیت اللہ کی طرف روانہ ہورہے ہوں، بہرکیف رخصتی کا منطر بھی ایک دل دوز منظر ہوتا ہے، اگر حسّاس قلب ہو تو پُرحسرت اور دردناک بھی معلوم ہوتا ہے، بہرحال ابھی ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے کہ اچانک ٹرین نے کوچ کا نقارہ بجایا تو فوراً ٹرین پر چڑھ گئے۔
ٹرین کا سفر: 
ایسے بھی ٹرین پر سفر لوگوں کے لیے خوش کن ہوتا ہے، خاص طور پر ہمارے وطن عزیز میں سفر کرنے کا مزہ میرے خیال سے کسی دوسرے ملک کی ٹرینوں پر نہیں مل سکتا، کیونکہ اول اس میں مختلف مذاہب کے افراد کا سامنا پڑتا ہے، اسی طرح لوگوں کو دوسروں کی تہذیب اور ثقافت کے قریب سے دیکھنے کا ایک بہترین موقع بھی ملتا ہے، اور اس سفر پر تھوڑی سی مصیبت بھی ہے لیکن اگر مثبت پہلو کو مدنظر رکھا جائے تو مثبت پہلو منفی پہلو پر غالب آسکتا ہے، دوسری طرف اسی طرح سفر کے دوران ہم کو بہترین آبشارے، خوبصورت کھیت، گھنے جنگلات کے دلکش اور د ل ربا مناظر کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ طلبا ٹرین پر چڑھ کر اپنی اپنی سیٹوں کو تلاش کرنے لگے، پھر اپنے اپنے سامان کو کنارے رکھ کر اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھنے لگے، ابھی میں اطمینان اور راحت کی سانس لے ہی رہا تھا کہ فوراً دل و دماغ کے تصور خانے میں ا ورنگ آباد کے نقشے گردش کرنے لگے، اس لیے کہ میں جانے سے کئی دن پہلے ہی اورنگ آباد کے متعلق اور وہاں کے جو خوبصورت اور تاریخی مقامات ہیں ان کو میں اپنے موبائیل پر انٹرنیٹ کے ذریعہ دیکھ چکا تھا، خوشی کی انتہا تھی، یقین نہیںآرہا تھا کہ موبائیل پر دیکھی ہوئی چیزوں کو اگلے دنوں میں اپنی آنکھوں سے دیکھنے والا ہوں۔ 
ایک نظر ٹرین کے مختلف ڈبوں پر: 
تھوڑی دیر بعد اپنے درجہ کے طلبا کے ساتھ لطف اٹھاکر ٹرین کے اگلے ڈبوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے نکلا، تو جب میں ایک ڈبہ میں پہونچا تو اس وقت میری آنکھوں نے جو منظر دیکھے اور جن تصویروں کا مشاہدہ ہوا اس منظر کے بیان کرنے سے قلم عاجز ہے اور میری زبان بھی اس منظر کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے، میں صرف تھوڑی ہی دیر وہاں رکا تو میرا دل خون کے آنسو رونے لگا، ہاتھ پیر کانپنے لگے، ذہن اس منظر کو دیکھنے ہی میں کھو گیا، کہیں معصوم بچے اپنی ماؤں کے قدموں تلے لیٹے رو رہے ہیں تو کہیں چھوٹا بھائی بڑے بھائی کے سایہ میں بیٹھے ملامت کررہا ہے، کہیں بوڑھا باپ اپنی خدمت کے لیے اولاد کو پکار رہا ہے تو کہیں شوہر اپنی بیوی کو اس کی حرکت سے باز آنے کے لیے کہہ رہا ہے، نہ مائیں معصوم اولاد کی آہ و بکا سننے کو تیار ہیں نہ بڑے بھائی کو ملامت کرنے کی وجہ معلوم، اولاد کو باپ کی پکار پر لبیک کہنے کا وقت ہے نہ بیوی کو شوہر کے حکم کی تعمیل کرنے کی فرصت، (یوم یفرّ المرء من أخیہ، وأمہ وأبیہ، وصاحبتہ وبنیہ) (ترجمہ: اس دن آدمی اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے والد سے اور اپنے دوست اور اپنی اولاد سے بھاگے گا) کی ایک جھلک مجھے محسوس ہورہی تھی، اس طرح ان کو دیکھا کہ وہ اپنی آنکھوں کو موبائیل پر جمائے ہوئے تھے، معلوم ہورہا تھا کہ وہ اگر ذرا سا بھی اپنی آنکھوں کو ہٹائیں گے تو ان کو بہت بڑا خسارہ ہونے والا ہے، ایک وقت تھا کہ موبائیل نامی دنیا میں کوئی چیز نہیں تھی، تب لوگ انتہائی سکون کی زندگی بسر کرتے تھے، نہ ذہنی طور پر کسی بیماری کے شکار تھے اور نہ ہی درد سر اور نہ ہی کسی دوسری بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا، اس موبائیل نے آکر ایک دوسرے کے درمیان اتنی دوری پیدا کردی کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے باوجود اپنے آپ کو ایک دوسرے سے دور محسوس کرنے لگتا ہے، ایک گھر میں باپ بیٹے ایک دوسرے سے پیار ومحبت کی باتیں کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، آخر یہ کیا چیز ہے کہ اس سے اتنا لگاؤ اور حد سے زیادہ محبت ہے؟ کاش یہ لوگ کسی کتاب کے مطالعہ میں اپنا یہ وقت گزارتے، اخباروں کو پڑھتے تو علم کا ایک ذخیرہ جمع ہوتا جس کی وجہ سے اپنی اگلی زندگی کو سنوارنے میں مدد ملتی، ہم تو لذت علم سے ناآشنا اور شوقِ علم سے بیگانہ ہیں، دنیا میں قومیں قلم اور کتاب کے ذریعہ کیسے ترقی کرتی ہے اس کی ایک مثال جاپان ہے، اٹھارہ سو اٹھاون عیسوی(۱۸۵۸ء) سے پہلے جاپان دنیا کا ایک گمنام ملک تھا، تاریخ کے اسٹیج پر بے نام اور گمنام تھا، جاپانیون نے صرف ایک صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلسل مطالعہ اور محنت سے یورپ سے امامت چھین لی اور ان کا ہم مرتبہ بن گیا، اب مغربی ممالک کے بازار جاپان کے مصنوعات سے بھر گئے ہیں، جاپان کی آبادی پندرہ کروڑ سے کچھ زیادہ ہے لیکن سال میں نو کروڑ کتابیں شائع ہوتی ہیں اور ہر جاپانی کم از کم دس کتابیں ضرور پڑھتا ہے۔ 
عشائیہ: 
نماز سے فراغت کے بعد طلبا اپنا پنا توشہ نکال کر آپس میں تقسیم کرکے کھانے لگتے ہیں، کئی کئی قسم کے کھانے موجود تھے، بعض طلبا اپنے کھانے کے ساتھ جامعہ میں قیام کرنے والے جو ساتھی ہیں ان کا حصہ بھی اپنے ساتھ خاص طور پر لے آئے تھے، بس طلبا سیر ہوکر عمدہ اور لذیذ کھانوں کو نوش فرماکر فارغ ہوگئے، جب کہ چاروں طرف رات کی تاریکی چھا گئی تھی تو سونے کے علاوہ کوئی اور کام باقی نہ رہا تو طلبا اپنی اپنی جگہوں پر جاکر سونے کی تیاری کرنے لگتے ہیں چونکہ رات کا ایک حصہ گزر رہا تھا، میں نے کچھ دیر کے لیے کھڑکی کھول کر آسمان کی طرف دیکھا تو پورا کا پورا آسمان ستاروں سے جگمگارہا تھا، آسمان پر چمکتے ستارے اپنے پرکیف منظر سے پورے آسمان پر اپنا راج دکھا رہے تھے، چاند کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی ساری کائنات کو اپنی نرم آغوش میں لیے ہوئے تھی، اس وقت کا منظر دلنشین معلوم ہورہا تھا، صانع حقیقی (اللہ تعالیٰ نے) پوری کائنات کو نورانی کرنوں سے آراستہ کردیا تھا بس اسی نظارے کو دیکھتے ہوئے مجھ پر نیند غالب آگئی۔ 
ممبئی اسٹیشن سے مسجد صفہ تک: 
دس گھنٹہ کا ایک مسلسل لمبا سفر اگلے روز دو بج کر پینتیس منٹ (۳۵:۲)پر پورا ہوتا ہے، طلبا ٹرین سے اپنے سامان کے ساتھ اترتے ہیں، جب کہ نیند کا غلبہ رہنے کی وجہ سے طلبا کے نشاط کے اندر ہلکی سی خفت معلوم ہوتی ہے، دھیرے دھیرے چل کر اسٹیشن کے باہر پہونچ جاتے ہیں، سخت اندھیرا ہونے کی وجہ سے بعض طلبا اسٹیشن پر ہی اپنی حاجت سے فارغ ہوتے ہیں، اسی طرح یہاں سے تمام طلبا کو دو بسوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کا پہلے ہی سے ہمارے لیے انتظام کیا گیا تھا، تین بج کر دس منٹ (۱۰:۳) پر اسٹیشن سے مسجدِ صفہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں، جو اسٹیشن کے بالکل قریب ہی واقع تھی، وہاں جاکر بہت سارے طلبا نے آرام کیا اور بعض طلبا فجر سے پہلے ہی نہا دھوکر فارغ ہوجاتے ہیں ا ور تہجد کی نماز بھی ادا کرتے ہیں، فجر کی نماز کے بعد ناشتہ کا انتظام تھا جو پہلے سے ہی ہم طلبا کے لیے تیار کیا گیا تھا، بہرحال تمام ضرورتوں سے فارغ ہوکر یہاں سے ساڑھے آٹھ بجے (۳۰:۸) اورنگ آباد کے لیے رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔ 
مسجد صفہ سے ناسک تک: 
جمعہ کا دن ہونے کی وجہ سے تقریباً چار گھنٹہ سفر کرکے ناسک جمعہ کی نماز کے لیے رکنا تھا، اس دوران راستہ میں ایک خوبصورت مجلس سجائی جاتی ہے، عالیہ ثالثہ الف کے ایک طالب علم احمد رکن الدین اپنی خوبصورت آواز سے قرآن کی آیت تلاوت کرکے اس مجلس کا آغاز کرتے ہیں، اس کے بعد سید نبیغ برماور نعتِ پاک کے چند اشعار اپنی سریلی آواز میں پیش کرتے ہیں، ان دونوں کو مولانا عبدالحمید اطہر صاحب ندوی اور مولانا رحمت اللہ صاحب ندوی کی طرف سے انعام سے نوازا جاتا ہے، اسی دوران ہمیں مائک اور اسپیکر کی بڑی شدت سے کمی محسوس ہوئی، طلبا نے آپس میں مشورہ کرکے مائک لانے کے لیے اپنا اپنا پیسہ جمع کیا اور مولانا عبدالحمید اطہر صاحب ندوی سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو انھوں نے ناسک کے رہنے والے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا، لیکن سفر کے ذمہ داروں کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے منصوبہ آگے بڑھ نہیں سکا، بہرحال سفر برابر جاری تھا، جمعہ کا وقت بھی کافی ہوچکا تھا، چلتے چلتے ایک مسجد پہنچ گئے جہاں پہونچنے پر معلوم ہوا کہ صرف ہمارے واسطے جمعہ کی نماز بیس منٹ مؤخر کردی گئی ہے، وہاں کے لوگ بھی بیٹھے انتظار میں تھے، بہرحال طلبا نے جلدی سے وضو سے فارغ ہوکر جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔ نماز کے بعد مسجد میں اعلان کیا گیا کہ بھٹکل سے اساتذہ اور طلبا تشریف لائے ہیں ان کی خدمت کرنے کا اگر کوئی جذبہ رکھتا ہے تو مسجد کے صحن میں پہونچ جائے، اس طرح نماز کے فوراً بعد ہمارے لیے مسجد میں دسترخوان بچھایا گیا، کھانے میں بڑی عمدہ اور لذیذ قسم کی بریانی موجود تھی جس کی خوشبو ہی اس کی عمدگی کو ظاہر کررہی تھی، لیکن انتہائی تیز تھی، اس کے باوجود بھی طلبا نے کوئی نرمی کا معاملہ نہیں کیا، بریانی کے ساتھ دہی اور میٹھا (شیرہ) بھی موجود تھا، پھر سیب، کیلے اور سنترے بھی پیش کیے گیے تھے، کھانے کے بعد طلبا نے اللہ کا شکر ادا کیا، تھوڑی دیر ہی بعد ہمیں اورنگ آباد روانہ ہونا تھااور یہاں سے تقریباً چھ گھنٹے کا سفر باقی تھا اس لیے طلبا اپنی حاجت سے فارغ ہوکر جلدی بس پر چڑھنے لگے، چلتے وقت وہاں کے لوگوں نے ہمارے لیے پھل اور فروٹ بطور زادِ راہ تحفہ میں دیا، وہاں کے لوگ ہماری آمد پر بہت خوش ہوئے، اور دعائیں دیں اور ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کو کہا، اس کے بعد ان کو الوداع کہہ کر بس پر چڑھ گئے،ا سی طرح پورے چار بج کر پندرہ منٹ (۱۵:۴) پر اورنگ آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ 
شہر ناسک کے متعلق چند معلومات:
اصل میں ہم کو ضلع ناسک سے پہلے ایک خوبصورت علاقے جو قدرتی حسن سے مالا مال ہے جسے ایگتھ پوری کہا جاتا ہے، اور گوداوری ندی یہاں سے ہوکر نکلتی ہے، اسی علاقے میں ہم کو رکنا تھا، وہاں پر کچھ دیر رک کر قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونا تھا لیکن وہ جمعہ کا دن تھا، اگر ہم وہاں رکتے تو فریضۂ جمعہ ادا کرنے سے قاصر رہتے، اس لیے کہ ممبئی کی ٹرافک میں ہمیں بہت دیر ہوگئی تھی، مشورے سے یہ طے ہوا کہ ایگتھ پوری کو چھوڑ کر آگے ناسک کو چلا جائے۔ ضلع ناسک مہارشٹرا کا چوتھا سب سے بڑا شہر ہے، یہ ممبئی سے تقریباً دو سو کلومیٹر پر ہے، اور یہ شہر گوداوری ندی کے کنارے بسا ہوا ہے، ضلع ناسک کی زمین بہت زرخیز ہے، یہاں پر کئی قسم کی سبزیاں اور مختلف قسم کے پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے، یہاں کی پیاز، سنترہ اور انگور بہت ہی مشہور ہیں، صنعتی اعتبار سے ناسک شہر میں سوئی سے لے کر لڑاکو جہاز تک بھی تیار ہوتے ہیں، ہندوستان کی مشہور (مہیندرا) اسکارپیو بھی یہیں بنتی ہے اور یہ علاقہ ھندؤں کے لیے بڑا مقدس ہے اور ان کا مذھبی گڑھ بھی ہے، یہاں پر ہر بارہ سال میں ایک مرتبہ کمبھ کا میلہ منعقد ہوتا ہے۔ 
سرزمین اورنگ آباد پر پہلا قدم: 
ضلع ناسک سے چھ گھنٹے اور بھٹکل سے پورے تیس گھنٹے کا لمبا سفر طے کرکے رات کے دس بج کر پینتیس منٹ(۳۵:۱۰) پر سرزمین اورنگ آباد میں داخل ہوئے، ندوہ کی ایک بڑی شاخ جو سرزمین اورنگ آباد کو ساٹھ سال سے اپنے زیور علم سے آراستہ کررہی ہے اور ایک عظیم الشان ادارہ کی صورت میں مدرسہ کاشف العلوم اورنگ آباد کے نام سے وہاں پر موجود ہے میں ہم طلبا و اساتذۂ کرام کا پرتپاک استقبال کیا جاتا ہے، رات کی تاریکی پھیل جانے کی وجہ سے مدرسہ کی پوری عمارتوں کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں، مغرب اور عشاء کی نماز مولانا رحمت اللہ صاحب کی امامت میں جمع تاخیر کی نیت سے ادا کی جاتی ہے، کھانے کا نظم پہلے سے ہی کیا جا چکا تھا، اس لیے نماز سے فارغ ہوتے ہی مدرسہ ھذا کے مطبخ کی طرف روانہ ہوئے۔
اساتذہ کاشف العلوم کی مہمان نوازی: 
کھا نے کے لیے مطبخ پہنچے، بہترین قسم کا کھانا پکایا گیا تھا، سفر کی تھکان اور بھوک کی شدت کی وجہ سے طلبا بڑے مزے سے کھا رہے تھے اور کوئی اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا، پھر اوپر سے مولانا اطہر صاحب اور مولانا بشیر صاحب کی ترغیب تھی جو طلبا کے سامنے سے گزرتے تو طلبا کو تفریحاً یہ بتاتے کہ اچھی طرح سے کھاؤ، بہرحال کھانا بہت عمدہ اور لذیذ تھا، کھانے کے دوران وہاں کے لوگوں نے پوری دلجوئی کے ساتھ ہماری مہمان نوازی کی، ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ہم کوئی مہمان نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہمیشہ اٹھتے بیٹھتے رہنے والے ساتھی ہیں، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب میں نے ان میں سے اکثر لوگوں سے ملاقات کی تو پتہ چلا کہ جتنے افراد ہماری خدمت کررہے تھے وہ تمام کے تما م اساتذہ ہی تھے، ان کے اس طرح سے خدمت کرنے کی وجہ سے معلوم نہیں ہورہا تھا کہ وہ اساتذہ ہیں۔ 
کھانے سے فراغت کے بعد طلبا اپنی اپنی حاجت سے فارغ ہوئے، رات کا ایک حصہ گزر چکا تھا، طلبا اپنا اپنا سامان لے کر اپنے اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے گئے، ہمارے لیے کئی کمروں کو بستر وغیرہ بچھا کر تیار کیا گیا تھا، جب طلبا کمروں میں پہنچے تو بے انتہا خوش ہوئے اس لیے کہ پورے نظم کے ساتھ ہمارے لیے بستر بچھائے گئے تھے، پورے کمرے میں گدیاں بچھائی گئی تھی، تکیہ بھی ترتیب سے ہر ایک کے لیے موجود تھا، تیس گھنٹہ سفر کرنے کی تھکاوٹ تھی اس لیے طلبا اطمینان سے سو گئے۔ اطمینان کی نیند سونے کے بعد طلبا چار بجے سے پہلے نہانے کے لیے اٹھنے لگے، فجر کی نماز سے پہلے ہی انتہائی ٹھنڈی رہنے کے باوجود تقریباً پچاس فیصد طلبا غسل سے فارغ ہوگئے ، غسل کے لیے بھی وہاں کے لوگوں نے صبح سویرے گرم پانی کا نظم کیا تھا، دو دن کے اندر ان لوگوں نے ہمیں کسی چیز کی کمی کا احساس ہونے نہیں دیا۔ بہرحال تمام طلبا فجر کی نماز سے فارغ ہوگئے، نماز کے بعد تھوڑی دیر مدرسہ کے صحن میں ٹہلنے لگے، پھر ہمیں ناشتہ کے لیے بلایا گیا، ناشتے میں صبح سویرے میکسچر، کیلے اور چائے تھی، طلبا نے ناشتہ سے فارغ ہوکر اللہ کا شکر بجالایا۔ 
استقبالیہ پروگرام: 
کھانے کے بعد ہمارے لیے صبح پاونے دس بجے استقبالیہ پروگرام رکھا گیا تھا تو فوراً طلبا جلسہ گاہ پہونچ گئے، جلسہ کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا، اسی مدرسہ کے ایک طالب علم ابوالحسن نے اپنی خوبصورت آواز میں تلاوت کی، پھر اس کے بعد ایک طالب علم مدثر سبحانی کو مدعو کیا گیا تو انھوں نے خوبصورت انداز میں نعتِ پاک کے چند اشعار گنگنائے، اس کے بعد وہاں کے استاد مولانا مشتاق صاحب نے تعارف پیش کیا، پھر اسی طرح استقبالیہ کلمات بھی پیش کیے گئے، اس کے بعد مدرسہ کاشف العلوم کے صدر مدرس مولانا نسیم الدین صاحب نے ہم سے مخاطب ہوکر بڑی خوشی اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں اپنا شفیق قرار دیا اور مختصراً اورنگ آباد اور کاشف العلوم کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بات بیان فرمائی کہ گزشتہ سال ہمارے یہاں ایک عجیب بات پیش آئی کہ ہمارے مدرسہ کے قیام پر پورے اٹھاون سال مکمل ہوئے اور پہلی مرتبہ یہاں سے اٹھاون طلبا اسی سال فارغ ہوئے، اور ان میں ایک اٹھاون سال کا طالب علم بھی تھا، اسی پر انھوں نے اپنی بات ختم کی۔ اس کے بعد ہمارے استاد مولانا رحمت اللہ صاحب کو مدعو کیا گیا، مولانا نے بتایا کہ آپ نے جس انداز سے ہماری مہمان نوازی کی ہم اس کو بھلا نہیں سکتے، حالاں کہ ہم آپ کے سامنے آپ کے شاگردوں کی طرح ہیں، مزید طلبا کو مخاطب کرکے یہ بات بیان فرمائی کہ آج یہ جو ہماری مہمان نوازی ہے یہ صرف دین اور دعوت کی بنیاد پر ہے، اسی طرح اپنے میزبانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی گفتگو کو ختم کیا، اس کے بعد مدرسہ کاشف العلوم کے ناظم جناب مولانا معز الدین ندوی کو مدعو کیا گیا، انھوں نے ہماری تشریف آوری پر محبت کا اظہار کرتے ہوئے نصیحت کے طور پر یہ بات بیان فرمائی کہ آج ھندوستان کے حالات بدتر ہیں، اس کو درست کرنے کا کام علماء کا ہے، حضرت محمد ﷺ نے بھی بدترین حالات میں کام کیا، مزید یہ بات بیان فرمائی کہ حالات ماضی میں بھی تھے اور حال میں بھی ہیں اور شاید مستقبل میں بھی ہوسکتے ہیں اور ہمیں آپ ﷺ نے بدترین حالات میں جینے کا طریقہ بھی بتلایا ہے، پھر بڑے درد سے یہ بھی فرمایا کہ آپ لوگوں کو روزی کے پیچھے پڑنا نہیں چاہیے بلکہ اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے، ہمارے علماء نے اپنی کشتیاں جلاکر تعلیم کے سفر کو مکمل کیا، آگے فرمایا کہ آپ اچھے سے اچھے طریقہ سے محنت کریں اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو اپنے ماضی کی باتوں کا مطالعہ کرکے مستقبل کے رہنما بننا ہے، کیونکہ عوام کو آپ کی تلاش ہے، اس لیے آپ کو تیار ہونا ہے، اخیر میں انھوں نے فرمایا کہ ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں کہ آپ کی جس انداز سے مہمان نوازی کرنی تھی ہم نہ کرسکے، اسی پر اپنی بات کو مکمل فرمایا۔ اخیر میں کاشف العلوم کے مفتی محمد نعیم صاحب کی درد بھری دعا کے ساتھ جلسہ گیارہ بج کر دس منٹ (۱۰:۱۱) پر اختتام پذیر ہوا۔ 
ظہرانہ: 
جلسہ کے ختم ہوتے ہی سوا گیارہ (۱۵:۱۱) بجے ظہرانہ کا انتظام کیا گیا تھا، وہاں پہونچے تو ہمارے ایک ساتھی عبدالحمید گوائی ہمارے سفر کے ذمہ دار مولوی عبدالخالق صاحب سے ملاقات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم اگر اتنی جلدی کھا کر بیٹھ جائیں گے تو پھر اگر دو بجے بھوک لگ جائے تو کیا کریں گے، اس پر مولانا عبدالخالق صاحب نے کہا کہ بھائی ہمارایہ سفر دعوتی ہے، اللہ انتظام کرے گا، یہ کہہ کر قرآن کی آیت پڑھی (ومام من دابۃ في الأرض إلا علی اللہ رزقھا) اس کے بعد ہم مطبخ میں چلے گئے، کھانے میں ہمارے لیے چپاتی اور دو طرح کے گوشت کا سالن بنایا گیا تھا جو بہت عمدہ اور لذیذ تھا، کھانے کے فوراً بعد گیارہ بج کر پچاس منٹ (11:50) پر خدا خدا کرکے پورے دو دن کے بعد سیر و تفریح کے لیے روانہ ہوئے۔  (جاری) 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا