English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلمان کے کندھے پر سیاسی پارٹیوں کی سواری

share with us


غوث سیوانی، نئی دہلی


کانگریس کو پورے ملک میں مسلمان کا ووٹ چاہئے۔ اترپردیش میں ایس پی، بی ایس پی اتحاد کو مسلمان کے ووٹ کی ضرورت ہے ۔ بہار میں مہاگٹھبندھن کا پورا انحصار مسلم ووٹ پر ہے۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کو یقین ہے کہ مسلمان ووٹراس کے ساتھ ہیں اور مستقبل قریب میں اس کا ساتھ چھوڑنے والے نہیں۔ جھارکھنڈ میں کانگریس وجھارکھنڈمکتی مورچہ اتحاد، تلنگانہ میں ٹی آرایس، مہاراشٹر میں کانگریس، این سی پی اتحاد، کرناٹک میں کانگریس، جنتادل سیکولر اتحاد کو مسلم ووٹ کی ضرورت ہے تو کیرل میں کانگریس اور کمیونسٹ دونوں ہی مسلم ووٹ چاہتے ہیں۔ دلی میں اروند کجریوال اور اوڈیشا میں نوین پٹنائک کو بھی مسلم ووٹ چاہئے، وہیں آسام میں یوڈی ایف اور کانگریس کی نظریں اس ووٹ پر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تمام پارٹیوں کا مسلم دوست ثابت ہونا باقی ہے اور یہ بھی کہ بھاجپا مخالفت کے نام پر مسلم ووٹ لینے کے بعد یہ مرکز میں بھگواپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت تو نہیں بنائیں گی؟ان میں سے کوئی پارٹی ایسی نہیں ہے جس نے اب تک مسلم ووٹ لینے کے بعد مسلمانوں کے حق میں کام کیا ہو۔ان میں تقریباً سبھی پارٹیاں کبھی اعلانیہ تو کبھی خفیہ طور پر بی جے پی سے ہاتھ ملاتی رہی ہیں۔ کانگریس نے مسلم دشمنی کے جتنے کام کئے ہیں شاید اسرائیل نے بھی نہ کئے ہوں۔لالو پرساد یادو نے ایک مدت تک بہار میں حکومت کی اور مرکز میں بھی ریلوے کے وزیر رہے مگر آپ جانتے ہیں کہ کسی مسلمان کو نوکری بھی دی ہو، ملائم سنگھ یادو وزیر دفاع رہے مگر کبھی مسلمانوں کو فوج میں بھرتی نہیں کرایا۔ دیوی گوڑا خود وزیراعظم رہے اور ان کی پارٹی کرناٹک سے دہلی تک حکومت میں رہی ، شردپوار کی این سی پی بھی مہاراشٹر اور مرکز میں اقتدار میں حصہ دار رہی مگر آپ کو ایک مثال ایسی نہیں ملے گی کہ جن مسلمانوں کے ووٹ سے وہ اس مقام تک پہنچے ان کے لئے کوئی کام بھی کیا ہو۔حد تو یہ ہے کہ یہ پارٹیاں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے مطابق ٹکٹ دینے کوبھی تیار نہیں ہیں چہ جائیکہ حکومت میں حصہ داری دیں۔اگر کچھ مسلمانوں کو ٹکٹ مل جاتا ہے تو اس لئے نہیں کہ یہ پارٹیاں مسلمانوں سے ہمدردی رکھتی ہیں بلکہ اس لئے کہ مالدار مسلمان ٹکٹ خریدنے کی قیمت دیتے ہیں۔ یہ کام صرف مایاوتی کی پارٹی ہی نہیں کرتی ہے بلکہ سبھی پارٹیاں کرتی ہیں۔ 
مسلمان دلبرداشتہ ہے
عام انتخابات جاری ہیں اور سبھی پارٹیاں نریندر مودی کو گھیرنے میں لگی ہیں۔ انھیں بھاجپا مخالفت کے نام پر ووٹ چاہئے، کسی کو آپ کے مسائل سے مطلب نہیں ہے۔ خود مسلمان بھی کبھی اس جانب توجہ نہیں دیتے۔ انھیں جذباتی نعرے اور بی جے پی کے خلاف تقریریں پسند آتی ہیں۔ایک فیس بک یوزر اشرف مولانگری کہتے ہیں کہ اس بار کسی پارٹی نے اپنے مینی فسٹو میں لفظ ’مسلمان‘ لکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ساری پارٹیاں مسلم کش ہیں۔سیکولرازم صرف نعرہ بن کر رہ گیا ہے اوربس!جب کہ ایک دوسرے فیس بک یوزرذکی محمد کاماننا ہے کہ کانگریس، بھاجپا ودیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو غلام سمجھ رکھا ہے ہر پارٹی RSS کے اشارہ پر چل رہی ہے ۔مسلمان سیاسی طور پر بے وزن ہوگئے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ اپنی قیادت مضبوط کی جائے۔سرکاری مسلمان، کانگریسی علماء تو ایم ایل سی یا راجیہ سبھا سیٹ کے چکر میں ملت کا سودا کر رہے ہیں۔ ادھر انصار الحق ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ مسلمانوں کی حیثیت سمندر کے جھاگ کی طرح ہوچکی ہے جو دیکھنے میں تو زیادہ نظر آتا ہے مگر اس میں دم نہیں ہوتا۔‘‘بہرحال ان حالات کے باجود مسلمان دلبرداشتہ تو ہیں مگر پوری طرح بددل نہیں ہوئے ہیں اور موجودہ سسٹم سے ان کا بھروسہ نہیں اٹھا ہے، یہی سبب ہے کہ آج بھی ووٹ ڈالنے جاتے ہیں اور ملک کے دوسرے ووٹروں کے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں۔
اتحاد میں شامل مسلمان
ملک کے مسلمان ملک کی الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ نسلی گروہوں کے ساتھ مل کرووٹ کرتے ہیں اور فرقہ پرستوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی کوشش کر تے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اترپردیش اور بہار میں یادو برادری کے ساتھ ووٹ کرتے ہیں۔ اس سے مسلمانوں کا کچھ فائدہ خواہ نہ ہومگرشدت پسند طبقات کے ہاتھوں میں ملک کا اقتدار جانے سے بچ جاتا ہے۔2014میں یہ کوشش زیادہ کامیاب نہیں ہوئی،جس کا انجام ہم آج دیکھ رہے ہیں اور ملک، نتیجہ بھگت رہا ہے۔ اس بار بھی پورے ملک کی نگاہیں اترپردیش اور بہارپر لگی ہوئی ہیں، جہاں سے بڑی تعداد میں سیٹیں جیت کر2014 میں بھاجپا کو اقتدار ملا تھا مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ ایک طرف تو مودی کے تمام وعدے ’’جملہ‘‘ ثابت ہوئے ہیں تو دوسری طرف مسلم ،یادو اوردلت اس بار ایس پی اور بی ایس پی کے بہانے اتحاد کے راستے پر ہیں۔ اگر صرف بہار اور یوپی میں بھاجپا مخالف اتحاد کامیاب ہوگیا تو بی جے پی کو تقریباً سو سیٹوں کا نقصان ہوجائے گا۔ دونوں ریاستوں میں کل ملاکر 120سیٹیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی کو آنے والی سڑک لکھنؤ ہوکر گزرتی ہے۔ اس کا مطلب اقتدار کے مرکز تک پہنچنے کے لئے اتر پردیش کی سیاست میں مضبوط ہونا ضروری ہے۔ اس فارمولے کو اب 2019 لوک سبھا انتخابات میں لاگو کیا جائے گا۔ سروے ایجنسی سی ووٹر نے کہا ہے کہ یو پی کی 80 نشستوں میں سے 47 سیٹیں فیصلہ کرینگی کہ بی جے پی کا مستقبل کیا ہوگا؟ ہم آپ کو بتادیں کہ یہ وہ 47 نشستیں ہیں ،جہاں مسلم ،یادو اور دلت آبادی 50 فیصد سے زائد ہے، اور اسی کو فیصلہ کن سمجھا جاتا ہے۔یوپی کی تمام 80 سیٹوں پر یہ آبادی چالیس فیصد سے کم نہیں،جب کہ تیس فیصد ووٹ پانے والے امیدوار بھی جیت جاتے ہیں۔ اس اتحاد میں جاٹ ووٹ کو بھی جوڑ کر دیکھنا چاہئے جو اجیت سنگھ کے ساتھ اتحاد میں آیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ یوپی کی تمام لوک سبھا سیٹوں پر یہ اتحاد کیارنگ دکھائے گا؟
ذات پات کی بساط پر فیصلہ
یوپی کی ہر پارٹی کی جیت کا منتر ذات پات کے مساوات میں پوشیدہ ہے۔ SP۔BSP کے اتحاد کے پیچھے بھی ذات پات کا مساوات موجود ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، یو پی میں مسلمان کل آبادی کا 19 فی صد ہیں۔ ریاست میں 21 فیصد دلت ہیں۔ کچھ ماہرین کے اعداد و شمار کے مطابق، یوپی کی کل آبادی میںیادو 9۔10 فی صد ہیں۔ اگر آپ مسلم ۔یادو اور دلت کی مجموعی آبادی کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو یہ یوپی کی کل آبادی کا تقریبا نصف ہے۔ گزشتہ تقریباً دو دہائیوں کے دوران، بی ایس پی کو دلتوں کی حمایت ملتی رہی ہے، جبکہ سماجوادی پارٹی نے یادو ا اور مسلم آبادی کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا ہے۔ 2019 کے انتخابات میں، SP۔BSP کے اتحاد کا واحد مقصد، مودی کو شکست دینا ہے۔ سی ووٹر نے جس طرح تمام لوک سبھا نشستوں پر مسلم یادو اور دلت آبادی کاحساب سامنے رکھا ہے، وہ بی جے پی کے لئے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ سی ووٹر کے مطابق، یو پی میں ہر لوک سبھا حلقے میں 40 فی صد سے زیادہ آبادی ،مسلم ، دلت یا یادو ہے۔ یوپی کی مجموعی 80 نشستوں میں سے 10 پر یہ آبادی 60 فیصد ہے۔ان میں اعظم گڑھ، گھوسی، ڈمریا گنج، فیروزآباد ،جونپور، امبیڈکر نگر،بھدوہی، بجنور، موہن لال گنج اور سیتا پور شامل ہیں۔اس کے علاوہ، مسلم ، یادو اور دلت آبادی 37 نشستوں پر 50۔60 فی صد کے درمیان ہے، جس میں ملائم سنگھ کے انتخابی مرکز مین پوری اور کانگریس کے امیٹھی ورائے بریلی شامل ہیں۔ باقی 33 نشستوں میں، مسلم ،دلت ،یادو کی آبادی 40۔50 فی صد ہے، جس میں مودی کی وارانسی نشست بھی شامل ہے۔
بہار بھی یوپی کی راہ پر
اترپردیش کی طرح بہار میں بھی مہاگٹھبندھن بنا ہے جس میں آرجے ڈی، کانگریس، آرایل ایس پی، ہم اور وی آئی پی شامل ہیں۔ اس اتحاد کے سبب بہار کی چالیس لوک سبھا سیٹوں پر این ڈی اے کی راہ مشکل ہوئی ہے۔ صرف مسلم اور یادو اتحاد کے سبب لالو پرساد یادو ایک مدت تک بہار پر راج کرتے رہے ہیں مگر اب اس اتحاد میں کشواہا، مسہر اور ملاح برادریاں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ اتحاد کا بی جے پی پر اس قدر خوف سوار ہے کہ اس نے اپنی جیتی ہوئی سیٹیں جنتادل (یو) کو دے کر اس کے ساتھ الائنس کیا ہے۔ بہار میں بھی اترپردیش کی طرح ہی بھاجپا مخالف اتحاد کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ زمینی سطح پر بھی ووٹروں کے مختلف طبقات ایک دوسرے کے ساتھ آتے دکھائی پڑ رہے ہیں۔
مسلم ووٹ دلائے گا راج
اترپردیش اور بہار کی طرح مہاراشٹر، کرناٹک، جھارکھنڈ میں بھی بی جے پی مخالف اتحاد کو مسلم ووٹ جارہا ہے جب کہ راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور گجرات میں مسلم ووٹ پوری طرح کانگریس کے ساتھ جارہا ہے۔ ان ریاستوں میں مسلمانوں کے سامنے کوئی متبادل ہی نہیں ہے۔ایسے میں تصویرواضح ہوتی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے دم پر دلی پر راج کرنے کا خواب ایک بار پھر شرمندہ تعبیر ہونے جارہا ہے۔ خواہ کسی پارٹی کو اکثریت نہ ملے مگر مرکز سے بی جے پی حکومت کی رخصتی طے نظر آرہی ہے۔حکومت کے بدلنے سے خواہ مسلمانوں کو ان کا جائز حق نہ ملے مگر ملک کے حق میں وہ ووٹ کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

15اپریل2019(فکروخبر/ذرائع)

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا