English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلم ووٹرس کے شعور کا امتحان

share with us


ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز


الیکشن 2019ء آزاد ہندوستان کی تاریخ کے سب سے اہم اور یادگار رہیں گے۔
11؍اپریل کو پہلا مرحلہ ہے جس میں 20ریاستوں کے 91پارلیمانی حلقوں کے علاوہ آندھرا، سکم، اروناچل پردیش، اڑیسہ میں اسمبلی انتخابات بھی ہوں گے۔ 543 پارلیمانی نشستوں میں سے 91نشستوں کے لئے ہونے والے انتخابات تلنگانہ(17)، آندھرا(25)، آسام (5)، بہار(4)، چھتیس گڑھ (1) جموں و کشمیر (2)، مہاراشٹرا (7) منی پور (1) میگھالیہ (2)، میزورام (1)، ناگالینڈ (1)، اڑیسہ (4)، سکم(1)، تریپورہ (1)، اترپردیش (8)، اترکھنڈ (5)، مغربی بنگال (2)، انڈمان (1)، لکشادیپ (1)، پارلیمانی نشستوں کے لئے ہورہے ہیں۔ بی جے پی دوبارہ اقتدار کے لئے اپنی تمام تر توانائیوں کو استعمال کررہی ہے‘ ہر ایک حربہ اختیار کررہی ہے۔ مذہبی منافرت کا کھیل بھی کھیل رہی ہے۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش کے علاوہ آسام میں بی جے پی کو خاطر خواہ کامیابی ملنے کا امکان نہیں۔ 2014ء میں بی جے پی نے 543 میں سے 282 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ان میں سے آٹھ نشستوں پر مقابلہ 11؍اپریل کو ہورہا ہے۔ مایاوتی اور اکھیلیش یادو کی مشترکہ قیادت میں بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی کا مہا گٹھ بندھن سیاسی حالات کو بدل سکتا ہے۔ اگر مہاگٹھ بندھن واقعی بہتر مظاہرہ کرتا ہے تو بی جے پی متاثر ہوگی۔
بی جے پی نے رائے دہی کے پہلے مرحلے سے قبل انتخابی منشور جاری کیا جس میں رام مندر کی جلد سے جلد تعمیر کا وعدہ کیا گیا۔ ہندوتوا جذبات کو اُکسایا گیا۔ کشمیر کے مسئلہ کو مزید سنگین بناتے ہوئے دفعہ 35A اور 370 کو برخواست کرنے کا وعدہ کیا گیا‘ کشمیری پنڈتوں کو واپس کشمیر لانے کا دعویٰ کیا گیا۔ دستور ہند میں ترمیم کا اشارہ دیا گیا۔ اس سے کشمیر کے حالات اور بگڑسکتے ہیں۔ ویسے بی جے پی پارلیمنٹ میں قطعی اکثریت کے ساتھ پانچ سال تک اقتدار میں رہی نہ تو مندر تعمیر ہوسکا‘ نہ ہی کشمیر پنڈت اپنے وطن واپس جاسکے۔ بی جے پی منشور میں یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ نکسلزم کو پانچ سال کے اندر ختم کردیا جائے گا اور اس اعلان کے بعد ا ندرون 24گھنٹے۔ چھتیس گڑھ کے دنتے واڑہ میں نکسلائٹ نے حملہ کیا جس میں بی جے پی ایم ایل اے بھیما مانڈوی کے علاوہ پانچ جوان ہلاک ہوگئے۔ یہ بی جے پی کو نکسلائٹس کا جواب ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران نکسلائٹس نے دنتے واڑہ میں کئی حملے کئے ہیں جس میں سی آر پی ایف کے جوان مارے گئے۔ دوسری طرف نریندر مودی نے 9؍اپریل کو ایک انتخابی ریالی سے خطاب کرتے ہوئے الیکشن 2019 میں اپنی زندگی کا پہلا ووٹ کا استعما ل کرنے والوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا پہلا ووٹ پلوامہ کے شہیدوں کے نام خراج عقیدت کے طور پر استعمال کریں۔ ا لیکشن کمیشن نے حال ہی میں تمام سیاسی جماعتوں کو تاکید کی تھی کہ وہ ہندوستانی فوج اور پلوامہ شہیدوں کو انتخابی مہم کے لئے استعمال نہ کریں۔ اس کے باوجود اس کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ایک نیشنل ٹی وی چیانل نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ سے وزیر اعظم کی اپیل پر ردعمل جاننا چاہا تو طلبہ نے کہا کہ وزیر اعظم اگر بالاکوٹ حملہ‘ پلوامہ کی بجائے نوجوانوں کو روزگار‘ نئی پالیسیوں سے متعلق بات کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
کانگریس اگرچہ کہ بہت زیادہ طاقتور تو نہیں ہے مگر پہلے جیسی کمزور بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ اگر سماج وادی پارٹی، بی ایس پی نے مفاہمت کی ہوتی تو زیادہ بہتر نتائج نکلتے مگر بی ایس پی کی ضد کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ اگر مابعد انتخابات بھی ہے مفاہمت ہوسکتی ہے تو مرکز میں اقتدار کی تبدیلی ناممکن نہیں ہے۔
پرینکا گاندھی کے عملی سیاست میں حصہ لینے سے کانگریس کو آکسیجن ملی ہے۔ عوام میں جوش اور خروش ہے‘ ریالیوں میں ہجوم ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہجوم پولنگ بوتھ تک پہنچ پاتا ہے یا نہیں۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش کے لئے یہ الیکشن زبردست اہمیت کے حامل ہیں۔ ٹی آر ایس کو امید ہے کہ 17نشستوں پر اسے کامیابی حاصل ہوگی یعنی 16پر ٹی آر ایس اور حیدرآباد کی نشست پر مجلس کی کامیابی یقینی ہے۔ ویسے تین چار نشستو ں پر کانگریس کی کامیابی ممکن نہیں۔
مسٹر کے سی آر جو ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں‘ اور دھن کے پکے ہیں مرکزی اقتدار کی ساجھے داری چاہتے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ وہ مرکز میں اہم رول ادا کریں گے۔ دوسری طرف ان کے دیرینہ سیاسی حریف چندرا بابو نائیڈو بھی بی جے پی کے مخالف ہیں۔ 2014ء میں وہ بی جے پی کے حلیف تھے تاہم اے پی کو خصوصی موقف نہ دےئے جانے پر وہ ناراض ہیں۔
آندھرا پردیش پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات ساتھ ساتھ ہیں۔ تلگودیشم‘ وائی ایس آر کانگریس اور پون کلیان کی جن سینا میں سہ رخی مقابلہ ہے۔ پون کلیان اگر خاطر خاوہ ووٹ لے سکیں تو اے پی کی سیاسی تاریخ بدل سکتی ہے۔
صدر مجلس بیرسٹر اسدالدین اویسی‘ وائی ایس آر کانگریس کی حمایت کررہے ہیں‘ بلکہ انہوں نے پیشن گوئی کی ہے کہ بابو کا اقتدار ختم ہوگا۔ جگن حکومت تشکیل دیں گے۔ کے سی آر نے بھی جگن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تاہم آندھرا میں کے سی آر زیادہ اثر انداز نہیں ہونگے۔ انکی منفی شبیہ ہے کیوں کہ ان کی تحریک سے آندھرا پردیش کی تقسیم ہوئی ہے۔ ان کی جگن کو تائید سے جگن ہی کو نقصان ہوسکتا ہے۔ آندھرا میں 25لوک سبھا اور 175اسمبلی نشستیں ہیں۔ تلگودیشم 99نشستوں کے ساتھ اقتدار پر ہے۔ وائی ایس آر کانگریس کا 66پر قبضہ ہے۔ تین پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ الیکشن 2019ء میں کون بازی لے جائے گا وقت ہی بتائے گا۔
الیکشن 2019ء ہندوستان کے سیکولر کردار کی برقراری کے لئے تو اہم ہے ہی سب سے زیادہ اہمیت اس ملک کے مسلمانوں کے لئے ہے کیوں کہ اب یہاں ان کی مذہبی، تہذیبی، لسانی شناخت کے تحفظ کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران جو واقعات مختلف بہانوں سے پیش آئے ہیں‘ اور جس طرح سے بی جے پی نے علی الاعلان اپنے فرقہ پرست ایجنڈہ کا اعلان کیا ہے‘ جس طرح سے ایک منظم اور منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کے بعض علاقوں میں سماجی بائیکاٹ کا آغاز ہوا ہے اور جس طرح سے ان کے لئے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے گویا مسلمانوں کے ساتھ اسپین کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو 2014ء کے الیکشن کے دوران سیاسی طور پر بے وزن ثابت کیا گیا تھا۔ اور پہلی مرتبہ مسلم ووٹ بینک محض ایک مفروضہ ثابت ہوا تھا جو فرقہ پرست جماعتوں کی منظم سازش کا نتیجہ تھا۔ تاہم گذشتہ پانچ سال کے دوران مسلمانوں میں شعور بڑی حد تک بیدار ہوا ہے۔ اگرچہ کہ ہر طبقہ میں ضمیر فروش مسلمان موجود ہیں۔ جو اپنے مفادات کے لئے قوم کا سودا کرتے ہیں‘ اس کے باوجود نئی نسل میں جو پہلی مرتبہ اپنے ووٹ کا استعمال کرنے و الی ہے‘ یہ شعور بیدار ہوا ہے کہ انہیں اس ملک کی حالت کو بدلنے کیلئے اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا۔ قابل مبارکباد ہیں وہ ادارے اور تنظیمیں جنہوں نے بڑی عرق ریزی سے تحقیق کرکے یہ انکشاف کیا کہ اس ملک میں مسلمانوں کے ووٹوں کی تعداد بی جے پی ووٹرس سے کہیں زیاد ہے۔ indianmuslimvoter.com کے مطابق مسلم ووٹر 15.42 کروڑ ہے اور بی جے پی کے ووٹرس کی تعداد 15.02کروڑ ہے۔ اگر ہندوستان کے تمام مسلمان متحد ہوکر سیکولر جماعتوں کی تائید کریں‘ اپنے ووٹ کا استعمال کریں تو فرقہ پرستی کو جڑ سے اکھاڑا جاسکتا ہے۔ سیکولر ہونے کا دعویٰ کرنے و الی جماعتیں بھی نہیں چاہتیں کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں مسلم ارکان کی تعداد میں اضافہ ہو۔ چنانچہ جہاں سے مسلم ووٹ تقسیم ہونے کا اندیشہ ہو‘ جہاں یہ آپس میں لڑجھگڑ کر ہار سکتے ہیں وہاں سے تمام نام نہاد سیکولر جماعتیں مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارتی ہیں اب یہ مسلم رائے دہندوں کے شعور کا امتحان ہے کہ وہ ووٹ دیتے وقت فیصلہ کرے کہ کس طرح اِن دھوکہ باز جماعتوں کی شاطرانہ چال کا شکار نہ ہو اور وہ ووٹ انہیں امیدواروں کے حق میں استعمال کریں جو کامیاب ہوسکتے ہیں۔ چاہے وہ مسلم امیدواروں ہو یا مسلم دوست‘ غیر مسلم امیدوار اکثر ضمیر فروش مسلم امیدواروں کو طاقتور مسلم امیدواروں کے ووٹ تقسیم کرنے کے لئے میدان میں اُتارا جاتا ہے انہیں اس کا معاوضہ تو مل جاتا ہے مگر اس حقیر سے معاوضہ کے اہم ایک اہم حلقہ مسلمانوں کے ہاتھ سے چلا جاتا ہے۔ 11اپریل سے مسلمانوں کے شعور کی آزمائش کا آغاز ہے۔ جذباتی تقاریر اپنی جگہ ‘ مسلم ووٹرس کو اپنے تشخص کے تحفظ کے لئے اور اپنے سے زیادہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کے تحفظ کے لئے اپنے دستوری حق کا استعمال کرنا ہے۔
انشاء اللہ 2019ء کے الیکشن مسلمانوں کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کریں گے۔

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 
11اپریل2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا