English   /   Kannada   /   Nawayathi

تعلیم کو ملی انتخابی منشور میں جگہ

share with us


ڈاکٹرمظفرحسین غزالی
ملک کی دونوں قومی سیاسی جماعتوں یعنی کانگریس اور بی جے پی کے انتخابی منشور سامنے آچکے ہیں۔ ریاستی پارٹیاں بھی یکے بعد دیگرے چناوی وعدوں کی فہرستیں اپنے اپنے اندازمیں مرتب یا جاری کر رہی ہیں۔ میڈیا کی معرفت جو ایشوز سامنے آ رہے ہیں، وہ ملک کی حفاظت، بدعنوانی، بے روزگاری، زراعتی بحران اور غریبی سے جڑے ہوئے ہیں۔ تعلیم، صحت، صنفی مساوات، خواتین کو بہ اختیار بنانے اور عام لوگوں کی ترقی سے جڑے مدے سیاسی بحث سے غائب ہیں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی انتخابی وعدوں میں تعلیم، صحت اور عام آدمی کی ترقی سے جڑے سوالوں کو بنیادی ایشوز کے بجائے حاشیہ کے مدوں کی شکل میں محدود رکھا گیا ہے۔ صرف کانگریس نے اپنے منشور میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 6 فیصد اور صحت پر تین فیصد خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت تعلیم پر تین فیصد سے کم اور صحت پر 1.4 فیصد ہی خرچ ہو رہا ہے۔ اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ تعلیم اور صحت کو ملک کی موجودہ حکومت کی ترجیحات میں کیا مقام حاصل ہے۔ 
بھارت کا تعلیمی نظام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا نظام ہے۔ صرف چین سے ہمارے تعلیمی نظام کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ بھارت میں پہلی جماعت سے 12 ویں جماعت تک کے پندرہ لاکھ سے زیادہ اسکولوں میں قریب 25 کروڑ طلبہ و طالبات پڑھتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم میں بھی ہم دوسرے نمبر پر ہیں۔ 903 یونیورسٹیوں اور کالجوں میں قریب 3.6 کروڑ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اس طرح تقریباً 29 کروڑ بچے اور نوجوان سیدھے طور پر تعلیم سے جڑے ہیں۔ جو ہر روز نئی امید، خواب اور حوصلہ کے ساتھ اسکول، کالج اور یونیورسٹی جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے والدین کی امیدیں اورتوقعات پوری کر سکیں۔ بڑے ہو کر انہیں ہی اپنے ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا بننا ہے۔ مگر اس وقت سب سے خراب حال اسی شعبہ کا ہے۔ 
آزادی کے بعد ملک میں تعلیم کو لے کر جو امید، جوش، جزبہ پایا جاتا تھا وقت کے ساتھ وہ ٹھنڈا پڑنے لگا۔ پونجی وادی طاقتوں کے سیاست پر حاوی ہونے سے اسے اور دھکا لگا۔ منتخب حکومتوں نے ہی عوامی بھلائی کے ان دو بڑے شعبوں سے دھیرے دھیرے اپنا ہاتھ کھینچنا شروع کر دیا۔ 1991 کے بعد اس میں اور تیزی آئی۔حالت یہاں تک آ پہنچی کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں کل وقتی اساتذہ کی تقرری پر پوری طرح روک لگا دی گئی۔ تعلیم اور صحت کے نام پر عمارتیں تو تعمیر ہوئیں لیکن ٹیچر، ڈاکٹر اور معاون اسٹاف کی تقرری نہیں کی گئی۔ عارضی، جز وقتی اور ٹھیکہ کے اساتذہ سے کام لیا جانے لگا۔ دوسری طرف دولت مندوں نے اپنے بچوں کیلئے تمام سہولیات سے لیس معیاری تعلیمی ادارے قائم کر لئے۔ نتیجہ کے طور پر غریبوں کے بچے سرکاری اسکولوں میں اورامیروں کے فرزند اعلیٰ ترین نجی اسکولوں میں داخل ہونے لگے۔اِس طرح عام لوگوں یعنی کم آمدنی والے لوگوں کے بچوں کو برابری کے حق سے محروم ہوناپڑگیا۔ دوسرے یہ بھی کہ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی عام طور پر کمی ہے۔ جو موجود ہیں وہ پڑھانے میں دلچسپی نہیں لیتے، اوپر سے ان کی نگرانی پر مامور افسران لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں،جبکہ امراء کے بچوں کیلئے نجی اسکولوں میں جملہ سہلولیات موجود ہیں۔ 
اس صورتحال نے پرائمری، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کو بری طرح متاثر کیا ۔ اتنا ہی نہیں، اس سے غریب اور کمزور طبقہ کی ہمت بھی ٹوٹی ہے۔ گھروں میں برتن صاف کرنے والی خواتین، رکشہ چلانے والے لوگ، قلی اور کھیتی مزدور ی کرنے والے محنت کش لوگ جواپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو پڑھانے لکھانے کی جدوجہدمیں اس امید سے لگے ہیں کہ ان کے بچے پڑھ کر غربت کی لعنت سے نجات حاصل کر سکیں، ان کے ارمانوں پر پانی پھر گیا ۔ اسر (ASAR) کی رپورٹ بتاتی ہے کہ آٹھویں جماعت کا بچہ تیسری کلاس کی اپنی ہی زبان کی کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ ضرب، تقسیم کے آسان سوال حل کرنے میں اسے دشواری ہوتی ہے۔ اس طرح کی تعلیم کے دم پر یہ بچے دولت مندوں کے بچوں سے کیسے مقابلہ کر سکیں گے۔ ایسے میں سیاسی رہنماؤں کی غفلت تشویشناک ہے۔ 
بر سر اقتدار بی جے پی نے اپنے سنکلپ پتر میں 75 میڈیکل کالج اور یونیورسٹیز قائم کرنے، میڈیکل، انجینئرنگ کالج، یونیورسٹی میں سیٹیں بڑھانے کا اعلان کیا ہے لیکن طلبہ نہ ملنے کی وجہ سے بند ہو رہے انجینئرنگ، منیجمنٹ کالجوں کو بچانے کے بارے میں سنکلپ پتر خاموش ہے۔ اس میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اساتذہ کی لاکھوں خالی آسامیوں کو بھرنے کا کیا منصوبہ ہے۔ عارضی، جز وقتی، ٹھیکہ پر، لیکچر کی بنیاد پر کام کر رہے اور سکچھا متر کے طور پر کام کر رہے اساتذہ کو مستقل کرنے کے بارے میں بی جے پی کا کیا خیال ہے۔ اسی طرح آنگن واڑی و سہیا کے طور پر کام کر رہے صحت کارکنوں کی مانگوں کے بارے میں وہ کیا سوچتی ہے۔ آج پورا تعلیمی نظام وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنا معیار اور اہمیت کھو چکا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ہر سطح پر طبقاتی تقسیم دیکھنے کو ملتی ہے۔ مالدار و متوسط طبقہ کے بچوں کیلئے اچھے اسکول، کالج اور یونیورسٹیز موجود ہیں، جو نجی شعبہ کے ذریعہ چلائے جاتے ہیں۔ غریبوں اور پسماندہ طبقہ کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے کیلئے مجبور ہیں۔ نجی و سرکاری اداروں کے درمیان پائے جانے والے تعلیمی فرق کو کم کرنے کے بارے میں بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔
غور کرنے والی بات ہے کہ آخر کیوں سیاسی رہنما بنیادی ایشوز کے بجائے لوک لبھاون، جزباتی نعروں کا سہارا لیتے ہیں۔ یا پھر چھوٹے موٹے لالچ دے کر گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دھیان دینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم عوام کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں ہے۔ تعلیم کے نتائج دور رس اور پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اس کا فائدہ تعلیم کی ہر سطح پر یکساں نہیں ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں فائدہ کی شرح سب سے زیادہ اور ابتدائی تعلیم میں سب سے کم ہے مگر ابتدائی تعلیم اچھی ہوگی تبھی اعلیٰ تعلیم کا فائدہ ممکن ہے۔ تعلیم کا فوری فائدہ نظر نہ آنے کی وجہ سے عام آدمی وہ توجہ نہیں دے پاتا جس کی درکار ہے۔ غریب کنبوں کے بچے پیسے، معلومات اور فوکس کی کمی کی وجہ سے 12ویں جماعت تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔ بہت کم غریب بچوں کا کالج، یونیورسٹی میں پڑھنے کا خواب پورا ہو پاتا ہے۔ پھر تعلیم اور صحت ایسا موضوع ہے جو ووٹ نہیں دلا سکتا۔ اس لئے سیاسی لیڈران اس کو فوقیت نہیں دیتے۔ 
بھاجپا نے 2014 میں نئی تعلیمی پالیسی وضع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دو کمیٹیاں بھی تشکیل پائی تھیں لیکن پانچ سال گزرنے کے بعد بھی یہ نئی تعلیمی پالیسی سامنے نہیں آسکی۔ راہل گاندھی کے تعلیم کا بجٹ بڑھانے کے اعلان سے یہ امید بندھی ہے کہ اگر ان کی پارٹی حکومت بناتی ہے تو وہ ضرور 21 ویں صدی کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر ایسی تعلیمی پالیسی تیار کرائیں گے۔ جس میں سب کیلئے یکساں معیاری تعلیم کا حصول ممکن ہو اور جو اقتصادی و سماجی ترقی کا راستہ ہموار کرے۔ تعلیم سب کی زندگی کو سنوارنے کا ذریعہ ہوگی نہ کہ کسی خاص نظریہ کا پروپیگنڈہ۔ ایسا ہوتا ہے تو اسے ملک کیلئے راہل گاندھی کا تاریخی قدم کہا جائے گا۔ 

 

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 
11اپریل2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا