English   /   Kannada   /   Nawayathi

اخلاق کا گاؤں: آپ لوگ جائیے، ہم اپنے جہنم میں خوش ہیں

share with us

دادری:11اپریل2019(فکروخبر/ذرائع)‘ڈر تو لگتا ہے، لیکن یہاں سے کہاں جائیں‌گے۔ مرنا تو اب بھی ہے، تب بھی۔ لیکن اس کی رضا کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ ‘گریٹر نوئیڈا کے دادری علاقے کے بساہڑا گاؤں کی حسینہ بی(تبدیل شدہ نام)دھیرے سے یہ کہتی ہیں مانو اب ان کو اپنی قسمت سے کوئی امید باقی نہیں رہ گئی ہے۔

بساہڑا گاؤں کا نام 2015 میں اس وقت  سرخیوں میں آیا تھا، جب 55 سال کے محمد اخلاق کو گائے کا گوشت رکھنے کے شک کی وجہ سے بھیڑ نے پیٹ پیٹ‌کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعہ کو تقریباً چار سال بیت چکے ہیں، لیکن اس گاؤں میں پھیلی کشیدگی، ڈر اور عدم اعتماد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

قومی راجدھانی سے تقریباً 60 کلومیٹر دور ٹھاکر اکثریتی یہ گاؤں ترقی یافتہ اور ثروت مند لگتا ہے۔ 16ویں صدی کے راجپوت راجا مہارانا پرتاپ کا مجسمہ والا ایک گیٹ گاؤں کی طرف لے جاتا ہے، جہاں سیمنٹ کی صاف سڑکیں ہیں، پکے گھر اور چپس وغیرہ جیسے مصنوعات کی کئی دوکانیں ہیں۔

گاؤں کی واحد مسجد کے اکلوتے امام بتاتے ہیں کہ اخلاق والے واقعہ کے بعد کوئی بھی یہاں امامت کرنے کو راضی نہیں ہوتا، اس لئے ‘خدا کی راہ میں’ انہوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی ہے۔

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد خوفی کی وجہ سے کئی مسلمانوں نے گاؤں چھوڑ دیا۔ ان کے پاس صحیح صحیح اعداد وشمار  تو نہیں ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ کبھی نہیں لوٹے۔

وہ کہتے ہیں،’کوئی کسی سے بات نہیں کرتا، کوئی کسی پر بھروسہ نہیں کرتا۔ جتنا کم کہیں اتنا ہی اچھا۔ اتنا ماحول گندا کر دیا، گاؤں برباد کر دیا۔ ‘

کیمرے کے سامنے بولنے سے ڈر

جب ہم وہاں پہنچے تو دوپہر نہیں ہوئی تھی اور مسلم کمیونٹی کے مرد، جو بنا زمین والے یومیہ مزدور ہیں، اپنے کام پر نکلے ہوئے تھے۔

50 سے زائد عمر کی لگ رہی حسینہ بی اپنی بکریاں چرا رہی تھیں، ساتھ ہی آس پاس بھاگتے بچوں کو ڈانٹ رہی تھیں۔ وہ کیمرے کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتیں۔ ان کو ڈر ہے کہ ان کے بیانات کو توڑا-مروڑا جائے‌گا اور ان کا غلط مطلب نکالا جائے‌گا۔

وہ کہتی ہیں کہ ایسا پہلے ہو چکا ہے۔ کیمرا ہٹانے پر وہ کھل‌کر بات کرتی ہیں۔ اپنی ناامیدی اور تشویش کو چھپاتے ہوئے وہ پھر بھی کہتی ہیں،’ڈرنے سے کیا ہوگا۔ یہ ہمارا ملک ہے، ہمارا گاؤں ہے۔ ہمیں یہاں سے کون نکال سکتا ہے۔ ‘

تقریباً چار دہائی پہلے وہ یہاں ایک دلہن کے  طورپر پہنچی تھیں۔ آج ان کے تین بیٹے ہیں، جن میں سے ایک درزی ہیں، ایک یومیہ مزدور ہے، جو پاس ہی کام کرتے ہیں اور ایک لیب میں کام کرتے ہیں۔

انہوں نے اس مسلم  نظریے کہ مسلمانوں کو ان کی تعلیم کے مطابق کام نہیں ملتا، پر یقین کرتے ہوئے اپنے بچوں کو نہیں پڑھایا۔ وہ پھیکی ہنسی کے ساتھ کہتی ہیں،’ہمیں کون نوکری دے‌گا بہن؟ ‘

آس پاس سے گزر رہے دوسرے مسلمان تجسس کے ساتھ ہمارے پاس آتے ہیں اور ان کو اکیلا چھوڑ دینے کو کہتے ہیں،’آپ لوگ جائیے، ہم اپنے جہنم میں خوش ہیں۔ ‘

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا