English   /   Kannada   /   Nawayathi

بیچارہ شاعر استاد

share with us

ایک شاندار ملازمت ڈھونڈھی پانچ ہزار روپے ماہوار تنخواہ، کھانا نواب صاحب کے ساتھ، ان ہی کے دستر خوان پر، رہنے کو مکان سواری میں موٹر، خدمت کے لیے نواب صاحب کے بے شمار خدمت گار موجود اور کام صرف یہ کہ نواب صاحب کے کلام پر اصلاح دے دیا کریں۔ گویا استادِ شہ جس سے غالب کی بھی یہ تاب، یہ مجال اور یہ طاقت نہ تھی کہ پرخاش کا خیال کرتے۔دیر تک تو یہ یقین ہی نہ آیا کہ سبحانی صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ سچ ہے اور جب یقین آیا اور ان کا شکریہ ادا کرنا چاہا تو وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار نظر آئے۔

یعنی عجیب منحوس ہو۔ میں نواب صاحب سے کہہ کر آیا ہوں کہ ابھی لا رہا ہوں تم کو اور تم ہو کہ منہ اٹھائے بیٹھے ہو چُغد کی طرح۔ کپڑے پہن کر چلو میرے ساتھ پھر ان کے حرم سرا میں جانے کا وقت آ جائے گا۔
جلدی جلدی کپڑے بدلے اور ہرچند کہ سو پشت سے آباء کا پیشہ کچھ سپہ گری ہی کی قسم کا تھا مگر آج چونکہ شاعری ذریعہ عزت بن رہی تھی لہٰذا اپنے کو اپنے نزدیک بڑا استاد السلطان بنا کر سبحانی کے ساتھ ہو لیے۔

راستہ بھر سبحانی آداب دربار سمجھاتے رہے اور بار بار یہ اصرار کہ ذرا لیے دئیے رہنا، اپنے کو گرا پڑا ثابت نہ کرنا۔ کلام کی فرمائش ہو تو ذرا کوئی ٹھاٹھ دار چیز سنانا اور پڑھنے کا انداز ایسا ہو کہ جھوم ہی تو جائیں سب۔ ہم ایک ایک بات گِرہ میں باندھے ہوئے آخر نواب صاحب کی کوٹھی کے دروازے پر جا پہنچے۔ یہاں سبحانی نے آخری مرتبہ ہم کو سر سے پیر تک دیکھا اور ہر طرح کا اطمینان کرنے کے بعد آخری بات سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگر اتفاق سے خود نواب صاحب بہادر اپنا کلام سنانے بیٹھ جائیں تو خواہ وہ کتنا ہی مہمل ہو، مگر تم داد دینے میں زمین آسمان کے قلابے ملا دینا اور اس آخری ہدایت کے بعد وہ ہم کو لے کر کوٹھی میں داخل ہو گئے۔

کوٹھی کے سبزہ زار پر اس وقت دربار لگا ہوا تھا۔ کرسیوں پر حاضرین بیٹھے ہوئے تھے اور صدر میں ایک تخت پر ایک بزرگ گائو تکیہ کا سہارا لیے اپنے شفاف سر پر خدمت گار سے تیل کی مالش کرا رہے تھے کہ سبحانی نے پہنچ کر فرشی سلام کرتے ہوئے کہا: حضور والا! دیکھیے آخر میں لے ہی آیا چاقو صاحب کو۔ شاگردوں کا ایک جم غفیر تھا اور اصلاح دینے کا سلسلہ جاری تھا مگر حضور کا نام لیا تو بیچارے سب کچھ چھوڑ کر چلے آئے۔

ہم نے بھی فرشی سلام کیا۔ نواب صاحب نے بمشکل تمام اپنا بوجھ خود اٹھا کر ذرا سا اُبھرتے ہوئے فرمایا: تشریف رکھیے۔ آپ کی بڑی تعریف سنی ہے، آپ کس قسم کے شعر بناتے ہیں؟ ایک دم چکر سا آگیا کہ یا اللہ! یہ شعر بنانا کیا ہوتا ہے؟ مگر شکر ہے کہ سبحانی صاحب ہماری طرف سے بول رہے تھے۔ حضور مانے ہوئے اُستاد ہیں، ہر قسم کے شعر لاکھوں کی تعداد میں کہہ کہہ کر شاگردوں کو بانٹ چکے ہیں اور خود بھی تین، چار تو دیوان اپنے ہی ہیں۔
نواب نے یکمشت چار، پانچ پان اپنے تنور نما منہ میں ٹھونستے ہوئے فرمایا، بھئی خود ان کو بھی تو بولنے دو کیا بتایا تھا تم نے لقب آپ کا؟

سبحانی نے کہا، حضور لقب نہیں تخلص۔ حاضرین دربار میں سے ایک صاحب بولے: وہ بھی ایک قسم کا لقب ہی ہوا نا۔ ہم نے جلدی سے عرض کیا۔ اس خاکسار کو چندن خان عرف چاقوکہتے ہیں۔نواب صاحب نے اُگالدان میں منہ ڈالتے ہوئے فرمایا، چاقو! ٹھیک، مطلب یہ کہ قتل کرتے ہوں گے۔ آپ اپنی چیزیں سُنا سُنا کر لوگوں کو۔ اچھا تو پھر ہو جائے کوئی پھڑکتی ہوئی چیز۔ کیوں بھئی خاور خاں کیا صلاح ہے؟

خاور خاں نے کہا: کوئی حقانی چیز رہے اُستاد۔ نواب صاحب نے کہا کہ اماں تم تو ہو نرے گھامڑ۔ حقانی چیز کا بھلا کونسا موقع ہے نا ہفتہ نا اتوار۔ اُستاد آپ تو کوئی عاشقانہ چیز سنائیں کہ طبیعت لوٹ پوٹ ہو کر رہ جائے۔
ایک اور صاحب بولے: ہاں یہ بات کہی ہے سرکار نے تو پھر اُستاد شروع ہو جائیے۔ ہم ابھی پس و پیش ہی کر رہے تھے کہ محبوب سبحانی نے قہر آلود نگاہوں سے گھورا اور دانت پیس کر اشارہ کیا کہ سنائو اور یہاں یہ عالم کہ کوئی ایسی چیز سمجھ میں نہ آ رہی تھی جو اس محفل میں سنائی جا سکے آخر سبحانی نے خود ہی کہا، استاد صاحب! اپنی وہ غزل سنائیے جس پر مشاعرے میں آپ کو تمغہ ملا تھا۔ وہ کیا ہے غزل گریباں نہ ہوا، بیاباں نہ ہوا۔

جان پر کھیل کر یہی غزل شروع کر دی۔ اب یہ عالم کہ ہم غزل پڑھ رہے ہیں اور ہر شعر پر نواب صاحب ’’ہے ہے ہے‘‘ کر کے نہایت بدتمیزی سے ہنس رہے ہیں یا کبھی کبھی گھٹنے پر طبلہ بجانے لگتے ہیں۔ خدا خدا کر کے بمشکل تمام غزل ختم ہوئی۔

نواب صاحب نے داد دیتے ہوئے فرمایا: یار مزا آ گیا۔ کیا مزے کی چیز سنائی ہے۔ اچھا تو اس پر تمغہ ملا تھا؟
سبحانی نے کہا کہ ایک تمغہ کیا۔ ان کا تو یہ حال ہے کہ جس مشاعرے میں پہنچ گئے بس اپنے سامنے کسی کا چراغ جلنے نہیں دیتے۔ وہ صاحب جن کا نام خاور خاں تھا، جھوم کر بولے: اور آواز بھی اپنی قسم سے بڑی پاٹ دار ہے۔
نواب صاحب نے کہا، تو بھئی سبحانی صاحب تم وہ بات کر لو نا ان سے، بس ذرا یہ سمجھا دینا کہ اپنا ہی گھر سمجھ کر رہیں۔ ایمانداری اصل چیز ہے۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ اس ڈیوڑھی پر جو ایک مرتبہ ملازم ہو گیا۔ پھر مر کر ہی نکلتا ہے۔

سبحانی صاحب نے کہا: ویسے تو میں بات کر چکا ہوں مگر ان کو لے جا کر پھر فیصلہ کیے لیتا ہوں۔ نواب صاحب نے کہا: ہاں ساری بات صاف ہو جائے اور ہاں یہ طے کر لینا کہ پھر کسی اورکو یہ شاگردی میں نہیں لے سکتے۔
سبحانی صاحب نے ہم کو اٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: میں ابھی سب کچھ سمجھائے دیتا ہوں۔ ہم دونوں اٹھ کر جب کوٹھی کے ایک علیحدہ کمرے میں پہنچ گئے تو ہم نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا: بھئی سبحانی صاحب مجھ کو تو سخت وحشت ہو رہی ہے۔ یہاں کس طرح میں نباہ کر سکوں گا ان لوگوں سے۔

سبحانی صاحب نے کھا جانے کے اندازے سے کہا۔ کیا مطلب، کونسی بات ایسی ہوئی جس سے وحشت ہوئی آپ کو؟
ہم نے حیرت سے کہا: یعنی کمال کرتے ہیں آپ، جہاں تخلص کو لقب کہا جائے۔ جہاں شعر کہنے کو شعر بنانا کہا جائے۔ جہاں ایک شاعر سے حقانی اور عاشقانہ چیزیں سننے کی فرمائش ہو، جہاں بدتمیزی سے ہنس ہنس کر شعر سنے جائیں اور سن سن کر گھٹنے پر طبلہ بجایا جائے اور جہاں بجائے کلام کے آواز کے پاٹ دار ہونے کی داد دی جائے وہاں آپ کے نزدیک وحشت بھی نہ ہوکسی کو۔

سبحانی صاحب نے بگڑ کر کہا: بس تو پھر جانے دو، بڑے شاعر بنے پھرتے ہیں۔ وہی مثل کہ گھر میں نہیں دانے اور اماں چلیں بھنانے۔ دو روٹیوں کا سہارا جو نظر آیا تو دماغ میں لگا کیڑا رینگنے۔ تم تو اسی قابل ہو کہ جوتیاں گھسیٹتے پھرو مگر کان کھول کر سن لو کہ اب مجھ سے کبھی اپنی بے روزگاری کا رونا رونے نہ بیٹھنا۔ ہم نے خوشامد سے سبحانی کو مناتے ہوئے کہا: بھئی خفا نہ ہو۔

تم کو کیا معلوم کہ تمھاری اس ہمدردی کا میرے دل پر کتنا اثر ہے۔ مگر میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ آخر ان نواب صاحب کے کہیں آس پاس بھی شاعری ہے یا میںاصلاح ہی دوں گا۔ جو شخص تخلص اور لقب تک کی تمیز نہ رکھتا ہو وہ کیوں کرشاعر بن سکتا ہے۔ جس کو شعر سننا نہ آتا ہو وہ شعر کیونکر کہہ سکے گا۔ سبحانی نے ڈانٹا پھر وہی! میں پوچھتا ہوں تم کو آم کھانے سے مطلب ہے یا تم پیڑ گننے آئے ہو؟

تمھاری بلا سے وہ شاعر بنیں یا نہیں بنیں۔کھیل تو تمھارا یہی ہے کہ تم ان کو اسی مغالطہ میں رکھو کہ وہ شاعر بن گئے۔ بھائی تم نوکری کرنے آئے ہو، کچھ نہ کچھ تو قیمت دینا ہی پڑتی ہے آخر۔ اب اگر اس نازک مزاجی سے کام لو گے تو کر چکے تم نوکری۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ عیش کرو گے عیش یہاں۔ اور اگر ذرا عقل مندی سے کام لیا تو یہ سب بے وقوف تمھاری مٹھی میں رہیں گے۔

طبیعت کسی طرح گوارا نہ کرتی تھی مگر یہ بھی واقعہ تھا کہ روزگار کی اور کوئی صورت بھی نہ تھی۔ ایک طرف اگر یہ صحبت ناجنس تھی تو دوسری طرف بے فیض ہم جنس جن میں سے ہر ایک قحط زدہ فاقہ مست۔ آخر ہم نے سبحانی سے کہلایا کہ اچھا بھئی مقدر آزمائیں گے یہاں بھی، جائو کہہ دو نواب صاحب سے کہ ہم راضی ہیں۔

سبحانی نے پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا! یہ پس و پیش نہایت احمقانہ تھا۔ ظاہر ہے کہ بے وقوف تو ہوتے ہی ہیںیہ لوگ، اور خوش نصیب ہے وہ جس کو بنے بنائے چُغد مل جائیں۔ تم کو تو چاہیے کہ نواب کو ایسا اپنے شیشہ میں اتارو کہ پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں۔ آئو بس یہ ٹھیک ہے اور میں نے بھی کچھ سمجھ کر ہی یہ صورت پیدا کی ہے۔

سبحانی صاحب نے اسی وقت نواب صاحب سے جا کر کہلایا کہ تمام معاملات طے پا گئے اور چاقو صاحب اسی وقت سے اب آپ کے یہاں رہیں گے۔ یہ سنتے ہی نواب صاحب نے خدمت گار کو مٹھائی اور پھول پان لانے کا حکم دیا تا کہ شاگردی استادی کی رسم ادا ہو جائے اور ہم سے کہا: استاد اب کوئی اچھا سا۔ وہی کیا نام اُس کا تلفظ۔ سبحانی صاحب نے بات کاٹ کر کہا: آپ کا مطلب ہے تخلص، استاد صاحب بھی کہہ رہے تھے کہ نواب صاحب کے لیے تخلص سلیم اچھا رہے گا۔ نواب صاحب نے چونک کر کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہماری چھوٹے بھائی کے بیٹے کا نام ہے۔

ہم نے کہا: دیوان حافظ سے تخلص نکالا جائے آپ کے لیے؟
نواب صاحب نے تعجب سے پوچھا، کون سے دیوانے حافظ؟ حافظ عبدالشکور تو نہیں۔ وہ تو آج کل باہر ہیں۔

سبحانی صاحب نے کہا: کیوں استاد صاحب، جام کیسا رہے گا؟
نواب صاحب نے اچھل کر کہا: بھئی یہ ٹھیک ہے۔ کیوں استاد یہ بڑا بانکا تخلص ہے: جام
ہم نے عرض کیا: بالکل ٹھیک نہایت اچھا تخلص ہے اور بڑا مبارک ہے۔ نواب صاحب نے خوش ہوکر کہا کہ تو اب ہمارا پورا نام ہوا نواب زادہ جہانگیر خاں جام، مزا آ گیا یار۔ اس عرصہ میں ملازم مٹھائی اور پھولوں کے ہار لے کر آ گیا۔ نواب صاحب نے اپنے ہاتھ سے ہمارے گلے میں ہار ڈالا اور ہم نے اپنے ہاتھ سے نواب صاحب کو مٹھائی اور قند دیتے ہوئے کہا: خدا آپ کو شیریں کلام بنائے۔

حاضرین نے ’’آمین‘‘ کا نعرہ کورس میں بلند کیا اور سب نے نواب صاحب کو مبارک باد دی۔ نواب صاحب نے اسی وقت اپنے گلے سے سونے کا ہار اتار کر ہماری خدمت میں پیش کر دیا ساتھ میں ایک قلمدان بھی مرحمت فرمایا اور کہا: لو اُستاد یہ استادی کا قلمدان۔ اب ہم شاگرد اور تم استاد۔ اب لگے ہاتھ ایک مشاعرہ تو کرا ڈالو جلدی سے جیسا نواب صادق خاں عباسی کے یہاں ہوا کرتا ہے۔

اب سمجھ میں آئی اس شاعری کے شوق کی وجہ کہ یہ سب کچھ نواب صاحب صادق خاں عباسی کی چوٹ پر ہو رہا ہے۔ وہ ایک پڑھا لکھا صاحب ذوق رئیس دن رات اس کے یہاں یہی علمی ادبی چرچے۔ اچھا خاصا شعر وہ خود کہتا ہے آپ چلے ہیں، اس کی نقل اتارنے۔ مگر اب تو کرنا ہی تھا مشاعرہ۔ اخراجات کی منظوری لی جو نہایت دریا دلی سے دی گئی۔ طرح مقرر کی۔

دعوت نامے چھپوائے۔ شعرائے کرام سے وعدے لیے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے نواب صاحب کے لیے بھرپور غزل کہی۔ مگر خدا جانتا ہے کہ غزل کہنے میں اتنی محنت نہیں پڑی جتنی محنت نواب صاحب کو پڑھنے کی مشق کرانے میں کی۔ ضد یہ تھی کہ گا کر پڑھو ں گا اور عالم یہ کہ ایسے بے سُرے سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا۔

بمشکل تمام ایک ہفتہ تک شب و روز محنت کر کے موزونیت، تلفظ اور لے کی طرف سے تو تھوڑا بہت اطمینان ہو گیا مگر آواز تو ظاہر ہے کہ جیسی تھی ویسی ہی رہی۔ اس ایک ہفتہ میں معلوم یہ ہوتا تھا کہ اچھے خاصے بینڈ ماسٹر ہو کر رہ گئے ہیں۔ نواب صاحب غزل پڑھ رہے ہیں اور ہم ان کے سامنے کھڑے ہوئے اتار چڑھا ئو سمجھا رہے ہیں۔ خدا خدا کر کے مشاعرے کی رات آئی۔ نواب صاحب کی کوٹھی پر جشن کا سماں تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ نواب صاحب دولھا بنے بیٹھے ہیں۔

شہر کے تمام اعلیٰ حکام، رئوسا اور شعراء میں سے تمام نامی گرامی شاعر محفل میں موجود تھے۔ مشاعرہ شروع ہو گیا اور بڑی کامیابی کے ساتھ اُس وقت تک جاری رہا جب تک شمع محفل نواب صاحب کے سامنے نہیں آئی۔ اب جو ہمارے خداوند نعمت کی باری آئی تو ایک تو جناب کی قطع اُس پر سے گھبراہٹ پھر مصیبت بالائے مصیبت یہ کہ طرز بھول گئے جو صاحب پہلے پڑھ رہے تھے،

اُن ہی کی دھن میں شروع ہو گئے اور وہ بھیانک آواز نکالی ہے کہ لاکھ ضبط سے کام لیا پھر بھی لوگوں کی ہنسی نہ رُکی۔ بمشکل تمام اس طوفان کو رکوایا تو کسی بدتمیز سخن فہم نے داد دیتے ہوئے کہہ دیا کہ کیا کہنا ہے چاقوصاحب، رنگ چھپائے نہیں چھپتا۔ لاکھ عقل کے نیلام کنندہ سہی مگر یہ چوٹ سمجھ گئے اور بگڑ گئے۔

سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ بحیثیت استاد کے آخر میں جو غزل ہم نے پڑھی تو وہ اتفاق سے خوب چلی چھتیں اڑ گئیں۔ دھویں پار ہو گئے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ مشاعرہ تو خیر ختم ہو گیا مگر شامت آئی ہماری۔ فوراً طلبی ہوئی اور اب جو دیکھتے ہیں تو نواب صاحب پھولے سوجے بیٹھے ہیں۔ ہم کو دیکھتے ہی برس پڑے، کیوں صاحب یہی ہے آپ کی وفاداری کہ آپ نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا۔

آپ کا قصور نہیں یہ خطاہے میرے نمک کی، میرا مذاق اُڑوایا۔ لوگوں سے کہتے پھرے کہ میں نے غزل لکھ کر دی ہے۔ عرض کیا: توبہ توبہ! بھلا یہ کیونکر ممکن تھا مجھ سے یہ آپ سے کس نے کہا۔نواب صاحب نے آنکھیں نکال کر کہا: کہتا کون! میں نے خود سنا کہ لوگ آپ سے پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ رنگ چھپائے نہیں چھپتا۔ اس کا کیا مطلب تھا، آخر پھر یہ کہ اپنی غزل ایسی تگڑی بنائی اور میری ایسی پھسپھسی۔

عرض کیا: یہ بھی حضور والا کا خیال ہے کسی سخن فہم کے سامنے دونوں غزلیں رکھ دیجیے کہ کون سی غزل اچھی ہے۔ میں نے تو خود غزل کے اچھے اچھے شعر آپ کے لیے نکال دیے تھے اور کمزور شعر اپنے لیے رکھ لیے تھے۔ نواب صاحب نے کہا: یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، یہ بات ہوتی تو آپ کی غزل کیوں اُچھلتی اس قدر اور میری غزل کا کیوں مذاق اُڑتا اتنا؟

اب یہ بات نواب صاحب کو کیونکر سمجھائی جا سکتی تھی کہ مذاق غزل کا نہیں بلکہ خود آپ کا اُڑا ہے۔ آخر عاجز آ کر عرض کیا، بہرحال آئندہ سے میں خود مشاعرے میں غزل نہ پڑھوں گا۔ غالباً نواب صاحب یہی چاہتے تھے، سمجھاتے ہوئے بولے: اب دیکھیے نا آپ کو تنخواہ اسی بات کی تو ملتی ہے کہ ہم نے آپ کی شاعری کو گویا خرید لیا ہے۔ آپ نے کسی درزی کا کام کرنے والے کو یہ نہ دیکھا ہو گا کہ وہ خود درزی کا لباس پہنے۔

آپ نے کسی دھوبی کو نہ دیکھا ہو گا کہ وہ اپنے کپڑوں پر استری کر کے پہنے اور گاہکوں کے کپڑے رہنے دے۔ آپ نے کسی بڑھئی کو نہ دیکھا ہو گا کہ وہ اپنے لیے میز کرسیاں بنائے۔ یہ سب کچھ وہ بناتے ضرور ہیں مگر بیچنے کے لیے، اسی طرح کے آپ بھی کاریگر ہیں۔ آپ بھی شعر بنائیے مگر اپنے لیے نہیں۔ اب خود اپنا شاعر ہونا بھول جائیے۔ نتیجہ یہ کہ اب ہم کو شعر گوئی کی قطعاً اجازت نہیں جو کچھ کہیں وہ سب نواب صاحب کا۔گویا ہم استاد کی اداکاری کرتے کرتے اپنی شاعری سے ہی گئے۔

ہمیں خود نہ کسی مشاعرے میں شرکت کی اجازت ہے نہ کسی رسالے میں کلام بھیجنے کا اختیار۔ البتہ شعر ہم کہتے رہتے ہیںدن رات اور خدا کے فضل سے نواب صاحب کا چوتھا دیوان آج کل پریس میں ہے۔ اس دیوان کے ہر مصرعہ کے اعداد نکالنے سے ہماری تاریخ وفات نکلتی ہے، ویسے خدا نے ہمیں یہیں جنت نصیب کر رکھی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا