English   /   Kannada   /   Nawayathi

پرینکا کے ہاتھوں کانگریس کا قتل

share with us

حفیظ نعمانی

آج صبح جب اخباروں کا بنڈل کھولا تو اتفاق سے اوپر سہارا رکھا تھا جس کی سرخی دیکھ کر منھ سے بے ساختہ نکلا کہ اللہ خیر کرے۔ خبر ایک نہیں بلکہ تین تھیں پہلے مس مایاوتی کا بیان تھا کہ کانگریس 80  سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے لئے آزاد ہے۔ دوسرا بیان اس اکھلیش یادو کا تھا جو اس پورے عرصہ میں بہت بردبار اور سمجھدار ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی کہہ دیا کہ کانگریس گمراہ کرنے کی کوشش نہ کرے اور تیسرا بیان عام آدمی پارٹی کے ترجمان کا تھا کہ کانگریس نے بہت دیر کردی۔ ان سب کو پڑھ کر ایسا لگا کہ یہ الیکشن پورے ملک کا نہیں صرف اُترپردیش اور دہلی کا الیکشن ہورہاہے۔ اور کانگریس کے سامنے بی جے پی نہیں ہے بلکہ بی ایس پی اور ایس پی ہیں۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ مس مایاوتی نے انتہائی سخت لہجہ میں کہہ دیا ہے کہ بی جے پی کو شکست دینے کے لئے بی ایس پی کافی ہے۔ تقریباً یہی بات اکھلیش یادو نے بھی کہی کہ ایس پی، بی ایس پی اور لوک دل کا اتحاد بی جے پی کو شکست دینے کیلئے کافی ہے۔ اور کانگریس سے کہا ہے کہ وہ کسی طرح کا خلفشار پیدا نہ کرے۔

یہ بات صرف ہم نہیں ہر وہ قلمکار جو اُترپردیش سے بی جے پی کو محروم کرنا چاہتا ہے ایک سال سے کہہ رہا ہے اور ہر ایک نے یہی کہا ہے کہ کانگریس اگر واقعی بی جے پی کو ہرانا چاہتی ہے تو اترپردیش میں اپنی طاقت ضائع نہ کرے یہاں سے اسے کچھ کئے بغیر خوشخبری مل جائے گی۔ لیکن نہ جانے کس بابا نے کانگریس کو یہ مشورہ دیا ہے کہ صرف اترپردیش کی فکر کرو اور یہ ان کے مشورہ کا ہی نتیجہ ہے کہ جب نامزدگی کا عمل شروع ہوگیا تب جانِ مدر پرینکا گاندھی پانی کے راستے الہ آباد گئیں اور پانی کے راستے ہی کاشی جائیں گی اور انہوں نے وہ انتخابی مہم جس کا فائدہ صرف بی جے پی کو ہوگا وہ پریاگ سے شروع کی ہے۔

یہ بات پرینکا بی بی کو معلوم تھی کہ دلت نوجوان لیڈر چندرشیکھر آزاد کو مایاوتی اپنا حریف سمجھتی ہیں اس کے باوجود وہ ان کی عیادت کے لئے اسپتال گئیں اور اس کی عزت بڑھائی اور یہ بات مایاوتی کو اتنی ناگوار گذری کہ انہوں نے وہ لہجہ اپنالیا جو اب تک نہیں اپنایا تھا۔ یہ بات بی ایس پی کے وہ تمام کارکن جو بہن جی کہتے ہیں بار بار کہہ چکے ہیں کہ بابا صاحب امبیڈکر کی خواہش تھی کہ کوئی دلت وزیراعظم بنے۔ اور بہن جی سے زیادہ کوئی حقدار نہیں ہے۔ اور مایاوتی بھی نریندر مودی کو ہی نہیں راہل گاندھی کو بھی اپنے راستے کا پتھر سمجھتی ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتیں کہ لوک سبھا میں ان کا ایک ممبر بھی نہیں ہے اور یوپی اسمبلی میں ان کے اتنے ممبر بھی نہیں ہیں جو انہیں راجیہ سبھا میں بھیج دیں اس کے باوجود وہ چاہتی ہیں کہ سب ان کو وزیراعظم بنادیں۔

ملک کی آزادی کے بعد جب پہلی حکومت پنڈت نہرو نے بنائی تو اس میں دھوتی کرُتے والے کم تھے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک وزیر کا اور اضافہ کیا تو گاندھی جی نے وزیراعظم سے کہا کہ تم ہندوستان کی وزارت بنا رہے ہو اس میں کوٹ پتلون والے زیادہ نہ بھرو جس کے جواب میں پنڈت جی نے کہا کہ جس آدمی نے آکسفورڈ یا کیمبرج میں نہ پڑھا ہو وہ وزارت کیا کرے گا؟ پنڈت نہرو کے نزدیک یہ معیار تھا وزیر کا۔ پھر ایک وقت ملک پر ایسا آیا کہ جنتادل کو سب سے زیادہ سیٹیں مل گئیں دیوی لال جنتادل کے صدر تھے ان کو وزیراعظم بننا تھا اور وہ ہریانہ کے جاٹ تھے جو اُردو اور معمولی ہندی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ ان سے جب کہا گیا کہ وزیراعظم کو کتنی انگریزی آنا چاہئے اور کیوں آنا چاہئے تو وہ اس پر تیار ہوگئے کہ نام کے لئے راجہ وی پی سنگھ وزیراعظم بن جائیں اور دیوی لال ڈپٹی پرائم منسٹر بن کر حکومت کریں پھر جو کچھ ہوا وہ سب کو یاد ہوگا۔

موجودہ وزیراعظم نریندر مودی صاحب کے بارے میں زیادہ اچھی انگریزی جاننے والوں سے سنا ہے کہ ان کی انگریزی ہندی کا ترجمہ ہوتی ہے اور بعض جملے یا باتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے مفہوم تو سمجھ میں آجاتا ہے مگر یہ اچھا نہیں لگتا کہ وزیراعظم ایسی انگریزی وہاں بولیں جہاں دنیا کے سربراہ اور کئی کئی زبانوں کے وہ ماہر بیٹھے ہوں جن پر زبان فخر کرتی ہو۔ ہم نے کبھی مایاوتی کو انگریزی میں تقریر کرتے نہیں سنا ہوسکتا ہے کہ وہ پرینکا گاندھی سے بھی زیادہ اچھی انگریزی جانتی ہوں لیکن ان کی تقریر کا یہ انداز جو تقریر سے زیادہ ہندی کے آٹھویں درجہ کی لڑکی کا پڑھایا ہوا سبق سنانے کا انداز زیادہ لگتا ہے اشارہ دیتا ہے کہ وہ وزیراعظم بننے کا فیصلہ نہ کریں۔

اب تک ماحول بہت اچھا تھا نہ متحدہ محاذ کانگریس کو کچھ کہہ رہا تھا اور نہ کانگریس ان پارٹیوں کو کچھ کہہ رہی تھی پھر نہ جانے شیطان نے کب انگلی دکھادی کہ بی جے پی تو محاذ سے ہٹ گئی اور جو چپ تھے وہ تلواریں سونت کر نکل آئے۔ پہلے خبر آئی کہ مرادآباد سے راج ببر کو کھڑا کردیا پھر خبر آئی کہ پرینکا سسرال ووٹ مانگنے جائیں گی اور آج کی خبر ہے کہ م۔ افضل، راشد علوی اور نسیم الدین صدیقی کے فرزند لڑنا چاہتے تھے جبکہ ہم جیسوں نے بار بار لکھا تھا کہ اگر کانگریس اپنی زندگی کے لئے چند سیٹوں پر لڑنا ہی چاہتی ہے تو مسلم سیٹوں پر مسلمان کو کھڑا نہ کرے۔ اب یہ دیکھ کر کہ کانگریس کے مسلمان ہی مسلم سیٹوں پر کھڑے ہوکر مسلم سیٹ بی جے پی کو دینے کی ریس میں کھڑے ہیں اور ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض ہیں تو یہ بدگمانی بھی ہوتی ہے کہ کیا یہ بھی بی جے پی سے پیسے لینے کیلئے ٹکٹ لے رہے تھے۔ اور مسلمان ہوتے ہوئے مسلم سیٹوں کا سودا کررہے تھے؟ جب کبھی مایاوتی کانگریس اور بی جے پی کو ایک ہی سکہ کا رُخ کہتی تھیں تو ہمیں بہت برا لگتا تھا۔ لیکن آج جب سے مراد آباد کے لئے کانگریسی مسلمانوں کے درمیان ٹکٹ کی جنگ کی خبر پڑھی ہے یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا مایاوتی ہم سے زیادہ جانتی ہیں؟

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
20؍ مارچ 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا