English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلم اقلیت پر دراندازی کی تلوار

share with us


عارف عزیز(بھوپال)

ہندواکثریت کی متعصب جماعتیں اس ملک کو کہاں لے جانا اور اقلیتوں کا کیا حال کرنا چاہتی ہے یہ اب واضح ہونے لگا ہے وہ کبھی اکثریت کی تانا شاہی کی وکالت کرتی ہیں تو کبھی ملک کی تمام اقلیتوں کے ئے مشترکہ قوانین بنانے پر زور دیتی ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ سکھوں سے لیکر مسلمانوں تک اور بدھوں سے عیسائیوں تک سبھی میں بے چینی کا ماحول پیداہورہا ہے خاص طور پر جب اقلیتیں جارحانہ ہندو قوم پرستی کے حامیوں کی یہ لن ترانی سنتی ہیں کہ ’’ہندوستان میں صرف ایک تہذیب یعنی ’’ہندوسنسکرتی‘‘ اور واحد قوم یعنی ہندوقومیت آباد ہے ‘‘یا ان کے کانوں میں یہ الفاظ گونجتے ہیں کہ ’’کسی بھی گروہ کا طریقۂ عبادت الگ ہوسکتا ہے لیکن بنیادی طور پر سب ہندو ہیں‘‘ تو انہیں وحشت ہونے گتی ہے کیونکہ اقلیتوں کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’ہم سب ایک قوم ضرور ہیں مگر یہ قوم ہندونہیں ہندوستانی ہے ‘‘ جو فرقہ پرست عناصر کو منظور نہیں، ان کے خیال میں جو اقلیت خود کو ہندو نہ سمجھے اسے اس ملک سے نکال باہر کیا جائے اور ہندوستان کو ہندو اسٹیٹ بنایاجائے کیونکہ یہاں صرف ایک قوم ہندو آباد ہے، اس تھیوری کے مطابق جس دن ہندوستان کی اقلیتیں اپنے آپ کو ہندو گرداننے لگیں گی ا ن کے ساتھ فرقہ پرستوں کا جھگڑا ختم ہوجائے گا ، اردو زبان کے ساتھ تنازعہ مٹانے کے لئے بھی یہی شرط رکھی جاتی ہے کہ فارسی رسم الخط چھوڑ کر دیوناگری لِپی قبول کرلو تو اردو بھاشا کے لئے جگہ نکل سکتی ہے ورنہ نہیں۔
مگر ہمارا کہنا یہ ہے کہ اقلیتوں سے مذکورہ خواہشات یا مطالبات کا کرنا اکثریت کے ہاتھوں اقلیتوں کے استحصال سے کسی طرح کم نہیں بلکہ اس سے بھی آگے فاشزم کا ایک نمونہ ہے جس کا مظاہرہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ممکن نہیں جہاں بآسانی اسپین، اسرائیل، برما، جنوبی افریقہ اور فجی کی تاریخ نہیں دہرائی جاسکتی کہ وہاں اول اقلیتوں کو بزور شمشیر ملک سے بے دخل کردیاگیا دوسرے جو باقی رہ گئیں ان کو اپنی زبان اور تہذیب سے محروم کرکے رکھ دیا گیا۔ اس کا ایک آسان طریقہ فرقہ پرستوں نے یہ تلاش کرلیا ہے کہ وقت بے وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے دراندازوں کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا جائے اور قوم کو یہ تاثر دیا جائے کہ یہ کام نہیں ہوا تو مادرِ وطن کی سا لمیت اور استحکام کو خطرہ لاحق ہوجائے گا، اس کی ایک مثال سنگھ پریوار کا یہ دعویٰ ہے کہ ۲ کروڑ سے زیادہ درانداز ہندوستان میں موجود ہیں جنہیں حکومت جلد سے جلد نکال کر ملک سے باہر کردے، پہلے یہی الزام بعض سرحدی ریاستوں مثلاً آسام ، مغربی بنگال اور بہار کے بارے میں لگایاجاتا تھا لیکن اب اس کو پورے ہندوستان پر منطبق کیاجارہا ہے تاکہ ہر ریاست کی اقلیتیں خاص طور پر مسلمانوں کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھاجانے لگے۔ان دنوں مسلم اقلیت کو ملک کے دوسرے گروہوں کی نظر میں مشکوک بنانے اور انہیں جمہوری وانسانی حقوق سے محروم نیز برادران وطن کے دل میں ان کی ہمدردی کو ختم کرنے کے لئے منصوبہ بند طریقے سے یہ کام ہورہا ہے۔
لیکن اکثریت اور اس کی جارح تنظیموں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اقلیتیں اکثریت کی یلغار سے کبھی ختم نہیں ہوتیں بلکہ زندہ وپائندہ رہتی ہیں کیونکہ عموماً وہی حق پر ہوتی ہیں، تاریخ کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ظالم خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اس کی عمر کوتاہ ہوتی ہے۔
سنگھ پریوار اپنے تربیتی کیمپوں میں نازی جرمنی کی جس مثا ل کو اکثر وبیشتر اپنے سویم سیوکوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور مذہب ونسل کی بنیاد پر وہاں ہٹلر نے یہودیوں کا جو حال کیا اس سے ہندو اکثریت کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف صف آرا کرنے کا کام انجام دے رہا ہے اسی میں یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ اس کی جملہ کارروائی یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں ناکام رہی ہے اس کے برعکس خود ہٹلر اپنے سارے فاشسٹ فلسفہ کے ساتھ ماضی کی تاریخ کا ایک حصہ بن گیا ہے، یہی حال یقیناًان لوگوں کا بھی ہونے والا ہے جو آج مذہب ونسل کے نام پر اقلیتوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
20؍ مارچ 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا