English   /   Kannada   /   Nawayathi

اپوزیشن کی صفوں میں انتشارو افتراق ’الجھاؤ ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے‘

share with us


عبدالعزیز
اپوزیشن پارٹیوں کے دو بڑے جلسے بنگلوراور کلکتے میں منعقد ہوئے۔ ان میں جو تقریریں ہوئیں اتفاق اور اتحاد کی باتیں ہوئیں۔ پالیسی اور پروگرام کا تذکرہ ہوا۔ تجاویز اور تدابیر کا اظہار ہوا۔ ہر ایک نے ملک کی موجودہ آمرانہ حکومت سے نجات حاصل کرنے کی بڑی بڑی باتیں کیں، بلند و باگ دعوے کئے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے نہایت جامع انداز اور پرزور آواز سے شرکائے جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے 70 سال میں جتنا ہمارے ملک میں انتشار ڈالا اور ہمیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ کردیا، ملک کو تباہ و برباد کیا، مودی اور شاہ کی جوڑی نے پانچ سال میں اس سے کہیں زیادہ تباہ و برباد کیا۔ ملک میں لڑائی اور جھگڑا، انتشار و خلفشار پیدا کردیا۔ اس جوڑی کو اگر نہیں ہٹایا گیا تو ملک تباہ و برباد ہوجائے گا۔ اس سے ملتی جلتی باتیں بہتوں نے کہیں اور سب کی ایک ہی آواز تھی کہ مودی حکومت نے سارے ملک کو خلفشار، بدنظمی اور بدامنی میں مبتلا کردیا ہے اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اتحاد کے مظاہروں سے ایسے لوگوں کی امید بندھ گئی جو مودی حکومت کو ہٹانے کیلئے گزشتہ پانچ سال سے لگاتار کوشش کر رہے تھے۔ جس قدر پرزور تقریریں ہوئیں، فلک شگاف نعرے بلند ہوئے، گھن گرج کا شور دیکھنے اور سننے میں آیا۔جو کچھ ہورہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اپوزیشن نے آپسی اتحاد و اتفاق کیلئے کوئی تیاری نہیں کی تھی اور نہ کوئی لائحہ عمل مرتب کیا تھا اور نہ کوئی رابطہ کمیٹی تشکیل کی تھی۔ اب جو انتشار اترپردیش سے مغربی بنگال تک اپوزیشن پارٹیوں کی صفوں میں نظر آرہا ہے وہ انتہائی افسوسناک اور دلخراش ہے؛ کیونکہ اپوزیشن لیڈروں کے قول اور فعل میں زبردست تضاد دکھائی دے رہا ہے ؂ ’الجھاؤ ہے زمیں سے، جھگڑا ہے آسماں سے‘ ۔
اتر پردیش: اترپردیش ہندستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے، جہاں لوک سبھا کی 80سیٹیں ہیں۔ کہاجاتا ہے اور صحیح کہا جاتا ہے کہ دلی کا راستہ لکھنؤ سے ہوکر گزرتا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو نریندر مودی نے جو گجرات کے رہنے والے ہیں گجرات سے زیادہ اتر پردیش پر نظر جمائے رکھی۔ 2014ء میں جب انھیں بی جے پی والوں نے وزیر اعظم کے امیدوارکا اعلان کیا تو انھوں نے اپنی مہم کا آغاز اتر پردیش سے ہی کیا۔ اپنے سب سے وفادار دست راست امیت شاہ کو اترپردیش کا انچارج بنادیا۔ امیت شاہ نے اپنے آقا کیلئے وہ سب کچھ کیا جو ایک وفادار شخص کرتا ہے۔ مظفر نگر میں زبردست فرقہ وارانہ فساد ہوا اور فرقہ وارانہ تقریروں کی بی جے پی کی طرف سے شروعات ہوئی۔ جو لوگ فساد برپا کرنے کے سرغنہ تھے انھیں انعام و اکرام سے نوازا گیا اور الیکشن سے پہلے پہلے اتر پردیش کو ہندو اور مسلمان میں تقسیم کر دیا گیا، جسے پولرائزیشن کہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بی جے پی جیسی امیروں اور بنیوں کی پارٹی سارے ہندوؤں کی پارٹی کی ہوگئی۔ بی جے پی کو 80 میں سے 71 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ نریندر مودی بنارس سے انتخابی جنگ میں کامیاب ہوئے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیتنے کے بعد یوپی پہ نریندر مودی اور بی جے پی کا کام جاری رہا۔ یوپی میں 2017ء کے اسمبلی الیکشن میں بھی بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی۔ حالانکہ اس وقت ’نوٹ بندی‘ کی وجہ سے پورے ملک میں بے چینی اور ضطراب کی لہر پائی جارہی تھی۔ نریندر مودی نے 2019ء کے جنرل الیکشن کے پیش نظر سب سے بڑے فرقہ پرست شخص یوگی ادتیہ ناتھ کو ملک کی سب سے بڑی ریاست کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا، جس نے ایک ہی کام اتر پردیش میں کیا وہ ہے خلفشار، انتشار اور پولرائزیشن اور یہ سب لوک سبھا کے انتخاب کے پیش نظر کیا۔ اس کے برعکس اگر جائزہ لیا جائے تو اپوزیشن کی کوئی حکمت عملی یوپی کے سلسلے میں نظرنہیں آتی۔ 
یوپی کے ضمنی الیکشن میں کئی جگہوں سے ایس پی (سماجوادی پارٹی) اور بی ایس پی (بہوجن سماج پارٹی) کے اتحاد سے بی جے پی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس موقع پر بھی ایس پی اور بی ایس پی نے کانگریس کو اتحاد سے الگ رکھا۔ جس طرح بنگلور اور کلکتے کے اتحاد کا نظارہ تھا، اس سے امید بندھی تھی کہ یوپی میں عظیم اتحاد ہوگا ، جس میں کانگریس بھی شامل ہوگی لیکن حکمراں جماعت کی حکمت عملی زیادہ کامیاب نظر آتی ہے کہ صرف دو تین پارٹیوں کا انتخابی اتحاد ہوا۔ کانگریس کے ساتھ اس اتحاد نے جو سلوک کیا وہ اپوزیشن کا تھا اور اب جو ایس پی ۔بی ایس پی کے لیڈروں کا بیان آرہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور بی جے پی کیلئے سود مند ہے۔ اتحاد نے کانگریس کیلئے امیٹھی اور بریلی کی سیٹوں کو چھوڑا۔ کانگریس نے ہر طرح کی کوشش کی کہ اتحاد میں وہ بھی شامل رہے لیکن مایا وتی اتحاد سے پہلے اور اتحاد کے بعد کانگریس مخالف بیانات دیتی رہیں۔ کانگریس نے جواب میں مایا وتی کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ اس لئے کہ کانگریس کے پاس بڑا مقصد تھا اور مایا وتی کے پاس اپنی پارٹی، اپنی ڈفلی اور اپنا راگ کے سوا کچھ نہیں۔ بعض لوگوں کے مطابق وہ وزیر اعظم بننے کا بھی خواب دیکھ رہی ہیں۔ دو روز پہلے کانگریس نے یوپی کیلئے اپنے امیدواروں کی لسٹ جاری کرتے ہوئے سات سیٹیں اتحاد کے بڑے لیڈروں کیلئے چھوڑ دیں۔ اس پر اکھلیش یادو اور مایا وتی دونوں کا انتہائی غیر دانشمندانہ بیانات میڈیا میں آئے۔ اکھلیش نے کہاکہ ان کا کوئی اتحاد کانگریس سے نہیں ہے۔ کانگریس کیوں سات سیٹیں چھوڑ کر کنفیوژن پیدا کر رہی ہے۔ اکھلیش کا بیان کانگریس کے سلسلے میں مخالفانہ نہیں ہوتا تھا بلکہ مثبت ہوتا تھا۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کانگریس کیلئے ہم لوگوں نے دو سیٹیں چھوڑی ہیں ایک طرح سے وہ بھی ہمارے اتحاد کا حصہ ہے۔ لیکن اب یہی صاحب فرما رہے ہیں کہ کانگریس سات سیٹیں چھوڑ کر یوپی میں کنفیوژن پیدا کر رہی ہے۔ ان کو سوچنا چاہئے کہ جب دو سیٹیں چھوڑنے کی وجہ سے کوئی کنفیوژن نہیں ہوا تو آخر سات سیٹیں چھوڑنے کی وجہ سے کنفیوژن کہاں سے پیدا ہوگیا؟ مایا وتی کے دباؤ ہی سے ہوسکتا ہے انھوں نے ایسا گمراہ کن بیان دیا ہو۔ کیونکہ اس سے پہلے مایاوتی نے نہایت متکبرانہ انداز میں بیان دیا تھا کہ ان کو کانگریس کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ یوپی کے ووٹروں کو گمراہ نہ کریں۔ 
مایا وتی کی پارٹی اور کانگریس پارٹی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کانگریس یوپی میں جتنی بھی کمزور ہو لیکن وہ ملک گیر پارٹی ہے۔ اور مایاوتی کی پارٹی ادھر ادھر دو ایک سیٹیں حاصل کرنے کے علاوہ یوپی میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ اسے ریاستی پارٹی ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہی حال سماجوادی پارٹی کا بھی ہے۔ کانگریس کا صحیح معنوں میں ملک گیر پیمانے پر بی جے پی سے مقابلہ ہے۔ اگر بی جے پی ہارتی ہے تو دلی میں کانگریس کی مدد کے بغیر کوئی حکومت نہیں بن سکتی۔ جہاں تک مایا وتی کی پارٹی کا معاملہ ہے وہ جیتنے کے بعد بی جے پی کے اتحاد کا بھی حصہ بن سکتی ہے لیکن کانگریس صحیح معنوں میں بی جے پی کے مقابل پارٹی ہے اور جو لوگ بھی بی جے پی کو ہرانا چاہتے ہیں وہ کانگریس کے ساتھ اکھلیش یادو اور مایاوتی جیسا سلوک نہیں کرسکتے۔ جب ان دونوں کا حال انتخاب سے پہلے ایسا ہے تو انتخاب کے بعد کیا ہوگا آثار بتارہے ہیں۔ کانگریس نے بھی یوپی کے سلسلے میں کوئی دوربینی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جب اسے اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا تب اسے ہوش آیا اور پرینکا گاندھی کو سیاسی میدان میں اتارا۔ یہ کام اگر وہ دوتین سال پہلے کرتے تو آج یوپی میں بی جے پی کے بعد سب سے بڑی پارٹی کانگریس کی ہوتی، مگر نہ جانے کس حکمت عملی سے پرینکا گاندھی کو آخری وقت کیلئے ترپ کا پتہ استعمال کرنے کیلئے رکھا تھا۔ یہی کہا جاسکتا ہے کہ ؂ بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے‘۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ’دیر آید درست آید‘۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ پرینکا گاندھی کی کرشماتی شخصیت کس قدر ووٹروں کو متاثر کرسکتی ہے اور کانگریس کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ سروے کے مطابق ابھی صرف 27% لوگ پرینکا گاندھی کو ایک کامیاب لیڈر کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں جبکہ 57% لوگ کامیابی کیلئے کوئی نمبر دینا نہیں چاہتے۔ 15% ایسے لوگ ہیں جو گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ اگر یہ 15% بھی 27% کے ساتھ جڑ جائے تو ان کی تعداد 42% ہوجائے گی۔ ایسی صورت میں کانگریس بی جے پی اور اتحاد دونوں کیلئے چیلنج ثابت ہوگی۔ یہ اتحاد جو مایا، اکھلیش اور اجیت پر مشتمل ہے اسے اپنی بھول کا احساس ہوگا اور اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ امید یہی کرنی چاہئے کہ یہ لوگ آخری وقت میں بھی جب تین چار مرحلے کا انتخاب باقی رہے تو ہوش میں آجائیں اور بی جے پی کا مل جل کر مقابلہ کریں۔ 
بہار: بہار سے جو خبریں آرہی ہیں وہ بھی حوصلہ شکن ہیں۔ آرجے ڈی (راشٹریہ جنتا دل) بھی ایس پی اور بی ایس پی کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ دہلی میں کانگریس اور آرجے ڈی کے درمیان سیٹوں کی حصہ داری طے ہوگئی تھی۔ کانگریس کو گیارہ سیٹیں ملی تھیں۔ اب آر جے ڈی کے لیڈر تیجسوی یادو کانگریس کو 9سیٹیں دینے پر مصر ہیں۔ اسے وعدہ شکنی ہی کہا جائے گا۔ آر جے ڈی کو ایسی بیوقوفی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ کانگریس ہی ہے جو ان کے دکھ سکھ میں ان کے ساتھ کھڑی رہی۔ اب ایسے وقت میں وہ انتشار کی سیاست کریں گے تو شعوری اور غیر شعوری یا واسطہ بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد ہوگی اور اپنے حریف نتیش کمار کا ہاتھ مضبوط کریں گے۔جنھوں نے سب سے پہلے اتحاد کی صفوں میں دراڑ پیدا کی۔ اس لحاظ سے وہ ہندستانی تاریخ میں سب سے بدنما کردار ادا کرنے میں آگے ہیں۔ تیجسوی یادو کو نتیش کمار جیسے کردار کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ 
مغربی بنگال: مغربی بنگال ایک ایسی ریاست تھی جو فرقہ پرستی سے پاک تھی۔ بایاں محاذ کی حکومت میں اور اس سے پہلے کانگریس کی حکومت میں بی جے پی کا سایہ اس ریاست میں پڑنے نہیں دیا۔ محترمہ ممتا بنرجی نے جو کانگریس ہی کی پروڈکٹ تھیں ، اپنی ہی پرانی پارٹی کانگریس اور سی پی ایم کی مخالفت میں بی جے پی کا دامن تھام لیا اور اس کے ساتھ اسمبلی کا الیکشن بھی لڑنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ راقم نے ایک میٹنگ میں محترمہ کو بتایا تھا کہ بی جے پی کے ساتھ رہ کر وہ ریاست کی وزیر اعلیٰ نہیں بن سکیں گی۔ اس وقت مسلمانوں کو وہ بہت کچھ لالچ دے رہی تھیں۔ مسلمانوں میں سے کسی کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے تک کا بھی ارادہ رکھتی تھیں۔ اور یہ بھی ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں میں سے کوئی بڑی جماعت جمعیۃ علماء یا جماعت اسلامی اگر ان کا ساتھ دیتی ہے تو ایسی جماعت کی خواہش پر تیس جگہوں سے ان کی مرضی کے مطابق امیدوار کھڑے کئے جائیں گے۔ میں نے انھیں بتایا تھا کہ بی جے پی کے اتحاد سے وہ خود ہی وزیر اعلیٰ نہیں ہوں گی تو کیسے کسی مسلمان کو نائب وزیر اعلیٰ بنائیں گی؟ لہٰذا انھیں بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دینا چاہئے۔ اس پر انھوں نے کہا تھا کہ ایسے وقت میں وہ بی جے پی کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتیں۔ ناکامی کے سوا انھیں کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔ بالآخر اپنی پرانی پارٹی کا ہاتھ تھاما اور وہ وزیر اعلیٰ بن گئیں۔ کئی مہینوں تک دونوں کا ساتھ رہا ریاست میں بھی اور مرکز میں بھی، لیکن وہ بہت جلد کانگریس سے خفا ہوگئیں۔ مختصراً اگر صاف صاف کہا جائے تو بی جے پی کو بنگال میں لانے میں ممتا بنرجی نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ آج وہ بی جے پی کے آمنے سامنے کھڑی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو مٹانے کے درپے ہیں۔ اس وقت بی جے پی ریاست بھر میں پھیل چکی ہے۔ اس کی جڑیں مضبوط ہوچکی ہیں۔ ترنمول کانگریس کے کئی لیڈر اور ایم پی بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں۔ ان کی پارٹی کا لیڈر نمبر دو مکل رائے جو گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کا کام کر رہے ہیں وہ بی جے پی کے روح رواں بنے ہوئے ہیں۔ یہ تو ہوا ترنمول کانگریس کا حال۔ کانگریس اور بایاں محاذ میں اتحاد کی بات کئی مہینوں سے چل رہی تھی اور قریب قریب بات طے ہوگئی تھی لیکن ایک دو سیٹوں کے تنازع کی وجہ سے بات بگڑ گئی اور کانگریس کے اندر کا وہ عنصر جو بایاں محاذ سے اتحاد کا مخالف تھا اسے کامیابی حاصل ہوگئی۔ کانگریس میں ایک گروپ ہمیشہ ایسا رہا ہے جو بی جے پی کی ڈائرکٹ اور ان ڈائرکٹ مدد کرتا رہا ہے۔ مغربی بنگال میں بایاں محاذ اور کانگریس کے الگ الگ لڑنے سے سب سے زیادہ نقصان ترنمول کانگریس کو ہوگا اور سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ میرے خیال سے اس وقت جو مغربی بنگال میں سیاسی منظر نامہ ہے بی جے پی کے حق میں ہے۔ اس لئے کہ بی جے پی پولرائزیشن میں بھی یہاں ایک حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ اگر کانگریس اور بایاں محاذ میں اتحاد ہوتا تو مسلمانوں کی جو تیس فیصد آبادی ہے وہ سوچ سمجھ کر ترنمول کانگریس کو یا اتحاد کو ووٹ دینے کی کوشش کرتی۔ لیکن اب کانگریس، بایاں محاذ اور ترنمول میں مسلمانوں کا ووٹ بٹ سکتا ہے۔مسلم لیڈروں کی کوشش اس بات پر زیادہ ہونی چاہئے کہ ایسے امیدوار کو ووٹ دیں جس کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہوں اور وہ بی جے پی کو ہراسکتا ہو۔ کردار اور ذہنیت کا بھی اچھا ہو۔ مسلم اقلیت کیلئے بھی کچھ کام کرسکتا ہو اور اس کے حق میں بول سکتا ہو۔ اس کے اندر قابلیت اور صلاحیت بھی ہو۔ لیکن سب سے بڑی خصوصیت یہ ہو کہ وہ بی جے پی کے امیدوار کو ہراسکے۔ 
تین ریاستوں کا یہ سیاسی منظر نامہ ہے ۔ تادم تحریر اپوزیشن کا انتشار برقرار ہے۔ امید یہی کرنی چاہئے کہ انتشار ختم ہو۔ اپوزیشن میں اتحاد ہو تاکہ آمریت کا ملک سے خاتمہ ہو۔ جمہوریت، دستور اور انسانیت کی جیت ہو۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا