English   /   Kannada   /   Nawayathi

ایم آئی ایم کو لوک سبھا انتخابات لڑنا چاہیے یا نہیں

share with us

ذوالقرنین احمد

جب سے الیکشن کمیشن نے لوک سبھا انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا ہے ہندوستان کی سیاست میں کھلبلی مچی ہوئی ہے بی جے پی مخالف سیاسی جماعتیں گٹ بندھن کیلئے کوشاں ہے بی جے پی کے خلاف کانگریس اور دیگر پارٹیوں نے سیکولر پارٹیوں سے اتحاد کیلئے بڑے پیمانے پر محاز کھول رہا ہے ہر کوئی بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اس کی وجوہات ہمارے سامنے موجود ہے کس‌طرح سے ملک کی جمہوریت کو کھوکھلا کردیا گیا اور معیشت کو کمزور کردیا گیا۔ ملک کا  امیر طبقہ امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غیریب غربت کی سطح پر پہنچ چکا ہے، بی جے پی کے دور اقتدار میں ملک کو کافی حد تک مشکلات اور پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا، نوٹ بندی، جی اس ٹی،  ٹرپل طلاق بل ، مسلم پرسنل لاء پر حملے، فرقہ پرستوں نے کھلے عام ماب لنچنگ کی خواتین پر تشدد عصمت دری کی واقیات، اور ملک کی سرکاری جائیداد کا غلط استعمال کیا گیا، جس کی‌ وجہ سے ہر عام و خاص طبقہ متاثر ہوا، لوک سبھا انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد سیاسی حلقوں میں سیٹوں کو لیکر کھینچ تان شروع ہے جو بھی پارٹی نے کسی پارٹی سے اتحاد کیا تو وہ لوک سبھا کی سیٹوں پر مشتمل رہا کے کتنی سیٹیں اتحادی پارٹی کو دی جائے گی۔ اسی طرح آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے بھی پرکاش امبیڈکر سے اتحاد کرکے ونچت اگھاڑی کے زریعے متحد ہوکر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا لوک سبھا سیٹ کیلئے اورنگ آباد سے ایم ایل اے امتیاز جلیل اور بائیکلہ سے وارث پٹھان کو لوک سبھا سیٹ پر انتخابات لڑنے کی خبریں موصول ہورہی ہے، 
کیا ایم آئی ایم کو لوک سبھا انتخابات  میں اپنے کینڈیڈٹ اتارنا چاہیے؟ 
موجودہ حالات میں ملک کا یہ الیکشن بہت ہی اہمیت کا حامل ہے مسلمانوں کو ہمیشہ کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں نے نظر انداز کیا ہے مسلمان کو بی جے پی کا  خوف دیکھا کر ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی آئی ہے اسی لیے آج تک مسلمانوں کو انکی نمائیندگی کرنے والا لیڈر نہیں مل سکا لیکن آج ہمارے پاس اپنی سیاسی جماعت مجلس اتحاد المسلمین کی صورت میں متبادل موجود ہیں اس لیے لوک سبھا انتخابات میں ایم آئی ایم کو اپنے کینڈیڈٹ اتارنے چاہیے اس سے ان سیکولر پارٹیوں کو اور فرقہ پرست پارٹیوں کو مسلم ووٹوں کی قیمت کا احساس ہوگا جنہوں نے مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک سمجھ رکھا تھا آج مہاراشٹر کے مسلمانوں کیلئے بہترین موقع ہے کہ وہ سیاسی حکمت عملی کے تحت متحد ہوکر مجلس اتحاد المسلمین کا ساتھ دیں اور اپنے حقوق کیلے آواز بلند  کرنے والے لیڈر کو لوک سبھا انتخابات میں چن کر لائے ورنہ مسلمانوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والی اور کوئی مضبوط قیادت ہمارے پاس موجود نہیں ہے اس لیے یہ انتخابات مستقبل کیلئے بہت ہی اہمیت رکھتے ہیں، ونچت اگھاڑی کے سربراہ  پرکاش امبیڈکر نے کانگریس اور راشٹروادی کانگریس سے اتحاد کیلئے مہاراشٹر میں لوک سبھا انتخابات کیلئے ۲۲ سیٹوں کا مطالبہ کیا تھا لیکن کانگریس نے صرف ۴ سیٹوں کی بات کی اس لیے پرکاش امبیڈکر نے کانگریس سے اتحاد کرنے سے انکار کردیا اور ونچت اگھاڑی پر مشتمل اتحاد کے زریعے مہاراشٹر کی ۴۸ سیٹوں پر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں وہ خود بھی شولاپور حلقہ سے لوک انتخابات لڑیں گے، اگر ایم آئی ایم کینڈیڈٹ کو دلت ووٹ ملتے ہے اور مسلم ووٹوں کا بٹوارہ نہیں ہوتا ہے تو لوک سبھا میں ایم آئی ایم کے سیٹیں مسلم اکثریتی علاقوں سے جیت حاصل کرسکتی ہے۔

کیا ایم آئی ایم کو اورنگ آباد لوک سبھا حلقہ سے الیکشن لڑنا نہیں چاہیے ؟

گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ایم آئی ایم نے اورنگ آباد سے ایک نئے چہرے امتیاز جلیل کو اسمبلی انتخابات میں اتارا تھا تب مہاراشٹر میں پارٹی پورے ضلعوں میں لانچ بھی نہیں ہوئی تھی لیکن اویسی برادران کی لہر نے کافی حد تک امتیاز جلیل کو کامیاب بنانے میں محنت کی اور وہ کامیاب بھی ہوگئے لیکن اب بات ہورہی کے کیا ایم آئی ایم کو اورنگ آباد سے لوک سبھا انتخابات لڑنا چاہیے یا نہیں اگر لوک سبھا سیٹ پر امتیاز جلیل کو اورنگ آباد حلقے سے اتارا جاتا ہے تو اس بات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہوگا کے دیگر سیاسی جماعتیں مسلم امیدوار کو اس حلقہ سے لوک سبھا انتخابات میں تو نہیں اتار رہی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو وہاں ایم آئی ایم کو اپنے امیدوار نہیں اتارنے چاہیے جس کی وجہ سے مسلم ووٹوں کا بٹوارہ ہونا یقینی ہے حالانکہ ونچت اگھاڑی کے بینر تلے یہ انتخابات لڑا جائے گا لیکن اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ دلتوں کے ووٹ ایم آئی ایم کے امیدوار کو ملنا یقنی ہے اس بھروسہ پر اپنا کینڈیڈٹ نہیں اتارنا چاہیے اسی کے ساتھ ایم آئی ایم کو سب سے پہلے ہندوستانی عوام کے دلوں سے یہ بات نکالنا ہوگی کے ایم آئی ایم صرف مسلمانوں کی پارٹی نہیں ہے اور یہ کام بڑا مشکل تر ہے جب تک دیگر عوام کے ووٹ حاصل‌نہیں ہوگے تب تک صرف مسلم اور دلت ووٹوں پر جیت حال کرنا مشکل کام ہے۔   

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
19؍ مارچ 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا