English   /   Kannada   /   Nawayathi

اے مسلماں غفلت سے جاگ ذرا !!!

share with us

احساس نایاب(شیموگہ، کرناٹک)

کلیجہ کٹ کے رہ گیا تھا جب معصوم عظیم کے بےجان جسم کو دیکھا، قلم اٹھانا چاہا لیکن دل و دماغ مفلوج ہوگئے تھے.
آخر اُس ننھی سی جان کا کیا قصور تھا،اُس کی کسی سے کیا رنجش تھی جو اُس بچے کو اُتنی بےرحمی سے قتل کیا گیا تھا، ابھی چھوٹی سی تو عمر تھی جب وہ اپنے ماں باپ سے دور مدرسے میں دینی و عصری تعلیم و تربیت حاصل کررہا تھا تاکہ آگے چل کر وہ ننھا فرشتہ اس قابل بن جائے کہ ملک و ملت کی خدمت کرسکے، مگر افسوس یہاں صرف مسلمان ہونا ہی اتنا بڑا جرم بن چکا ہے جس کی قیمت نوجوانوں کے ساتھ اب معصوم بچوں، بزرگوں و خواتین کی جان اور آبرو دے کر چکانی پڑرہی ہے تو ان حالات میں محض احتجاجی ریلیاں ، کینڈل مارچ، میڈیا میں مذمتی بیان بازیاں اور تحریریں لکھ کر مثبت نتائج کی امید کرنا بےوقوفی ہے، کیونکہ یہ سب کچھ کرکے کسی کو انصاف تو نہیں مل رہا بلکہ خون سے تربتر اور کئی لاشیں انصاف کی امید میں دفن ہوچکی ہیں.
دوسری طرف دہشتگردوں کو مسلم نوجوانوں کا خون بہاکر بھی سکون نہیں مل رہا ہے، اُن آدم خوروں کی پیاس نہیں بجھ رہی ہے، جو ان حیوانوں کی نظریں بےقصور معصوموں کی طرف اُٹھ رہی ہیں، محض لکڑی سے بنی گلّی کو وجہ بناکر اُن شیطانوں نے معصوم عظیم کی جان لے لی تھی اور موقعہ پہ کھڑی ایک بدبخت جاہل عورت چٹکی بجاکر مسلمانوں کو دھمکیاں دیتی نظر آئی،
کیا مسلمانوں کے اتنے برے دن آگئے ہیں جو ہمارے ہی بچے کا قتل کر ہمیں ہی دھمکایا جارہا ہے؟
کیا ہمارا وجود آج کے دور میں اتنا بےمعنی ہوچکا ہے ؟
کیا ہماری جانیں اتنی بےمول ہوچکی ہیں ؟ جو اخلاق، افرازول، نجیب,جنید , آصفہ اور عظیم جیسے ہر دن ناجانے کتنے ہی بےگناہوں کو مار پیٹ کر اغوا کرلیا جاتا ہے یا بےرحمی سے قتل کردیا جاتا ہے اور اس حیوانیت میں قربان ہوئے تمام مسلمانوں کے نام لکھنے لگیں گے تو کیلکولیٹر بھی شرم سے منہ پھیر لے

لیکن ہم مسلمان 80 سے زائد نوجوانوں کو ماب لینچنگ کا شکار ہوتا دیکھ کر بھی خاموش ہیں، جیسے ہمیں سانپ سونگھ چکا ہو، ہماری غفلت کا عالم تو یہ ہے کہ ہمیں مقتول کے اہل خانہ کا درد محسوس کرنا بھی گوارا نہیں رہا، نہ ہی کبھی اپنے بیٹوں سے جدا ہوکر آنسو بہاتی دربدر بھٹکتی ہوئی اُن ماؤں کی فریاد، انکی سسکیان سنائی دیتی ہیں، آخر ہم مسلمان اتنے بےحس کیوں ہوگئے ہیں، اپنے ضمیر کو مار کر ہم کس مردار زندگی کی چاہت کررہے ہیں ؟
کیا ہم نے کبھی ان بد ترین حالات پہ غور و فکر کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ قتل و غارت گری کا کھیل ہم مسلمانوں کے ساتھ ہی کیونکر کئے جارہے ہیں ؟
شاید نہیں ! آخر ہمارے پاس اتنا وقت ہی کہاں ہے؟ خیر
تو سُن لیں وہ ہمیں کیوں مار رہے ہیں. دراصل ہم مفلوج، بےبس بن کر خود کو اُن کے آگے سرینڈر کررہے ہیں اور ہماری قوم کے ذمہ داران تماشبین بنے چپی سادھے ہوئے ہیں اسلئے وہ ہمیں مارے جارہے ہیں ورنہ کسی کی اتنی مجال نہ ہوتی کہ وہ مسلمانوں کو اس قدر ذلت بھری موت دے سکے اور یاد رہے اللہ سبحانہ تعالیٰ بھی اُسی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، کبھی خود سے اُن حملہ وروں پہ پلٹ وار کرکے دیکھیں کہ کیسے وہ دُم دبا کر بھاگینگے.
لیکن افسوس یہاں پہ ہمیں اپنا بچاؤ بھی کرنا نہیں آتا تبھی آج تک جتنے بھی نوجوان مارے گئے ہیں اُن میں سے کسی نے پلٹ کر ایک طمانچہ بھی نہیں مارا، اب تو ایسا لگتا ہے ہندوستانی مسلمانوں میں کوئی مرد مجاہد بچا ہی نہیں جو ان حیوانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مظلوم کی طرف اٹھتی گندی نظروں کو نوچنے کی جراءت دکھائے، بےگناہوں پہ اٹھتے ہوئے ان کے بازوؤں کو کاٹ کر پھینکے.
کبھی اپنی بےمقصد زندگی کی غیر ضروری مصروفیات سے فرصت ملے تو خود کا جائزہ ضرور لیں کہ ہمارے مردانہ جسموں کے اندر آج حقیقی مرد مومن بچا بھی ہے یا نہیں ؟
کیونکہ آج ہمارے اندر کی بہادری کو حکمت و مصلحت کی چادر میں قید کردیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ پہلے قتل پہ ہم مسلمان صبر کرگئے دوسرے قتل پہ خون کے آنسو پی گئے جس کے نتیجے دیکھتے ہی دیکھتے ایک کے بعد ایک مسلم نوجوانوں کے جسم بےجان لاشیں بنتی گئی اور ہر بار ہمارے علماء و قائدین ہمیں صبر کی تلقین دیتے ہوئے حکمت و مصلحت کا راگ آلاپتے ہوئے خود کے ساتھ ساتھ اوروں کو بھی اپنی ذات میں محدود کردیا اور ہم سبھی آج بھی اُسی تلقین کا چولا اوڑھے صبر کے گھونٹ پئیے جارہے ہیں لیکن آج صبر کے تمام پیمانے چھلک پڑے ہیں، اب صبر کرنے کا مطلب خود کو جیتے جی مُردہ تسلیم کرلینا ہے، کیونکہ اس صبر کے نام پہ ہم اپنے نوجوانوں کو بہت قربان کرچکے ہیں لیکن اب معصوم بچوں کی لاش نہیں دیکھ سکتے، سیکولریزم کے نام پہ ڈھکوسلے بازی بہت ہوگئی اگر بزدلوں کی طرح جینا ہی سکیولریزم ہے تو بھاڑ میں جائے ایسی سکیولریزم آگ لگے ایسے اتحاد پہ جو صرف اور صرف مخصوص طبقے کی قربانی مانگتا ہے، حکمت کے نام پہ چاپلوسی کر گیدروں جیسی سوسال زندگی جی کر آخر کونسی انسانیت ثابت کرنی ہے اور کونسے دنیاوی
خداؤں کو راضی کرنا ہے؟زمین پہ رینگنے والے کیڑے مکوڑوں جیسی موت کو کب تک گلے لگائینگے حب مرنا ہی ہے تو دو چار کو صفحہ ہستی سے مٹاکر مریں، جنگلی خنزیروں کے بیچ اپنی مردانگی دکھاکر مریں، زندگی اور موت کسی کی محتاج نہیں ہے اگر موت آنی ہے تو ہرحال میں آئے گی کسی کے روکنے سے نہ موت رکتی ہے نا کسی کے چاہنے سے زندگی ملتی ہے ویسے بھی مسلمان کے لئے تو یہ دنیاوی موت برحق ہے جس کے بعد ہماری حقیقی زندگی شروع ہوگی, جنت کی سنہری وادیوں میں نعمتوں سے لبریز باغات کے درمیان, آب کوثر کی نہروں میں سیراب ہوکر
اسلئے اس فانی دنیا کی چاہت میں اپنی زندگی کو اس قدر ذلیل و خوار نہ بنائیں آپ سبھی کو اُس پاک ذات کا واسطہ پیارے آقا دو جہاں ﷺ کا واسطہ, اس دنیا کے بعد ملنے والی اُس جنت کا واسطہ، خدارا اپنی طاقت کو پہچانیں، بزدلی کی زندگی پہ لعنت بھیجیں، ایک لمحے کی زندگی ہی صحیح شیر کی طرح جی کے دکھائیں، گیدروں کی فطرت ہم مسلمانوں کے خون میں نہیں ہے، اپنی تاریخ کے اوراق ,اپنے آباواجداد بزرگانِ دین کی حیات جاویدہ کا مطالعہ کریں اُنکی غیرت انکی جراءت، ہمت و بیباکی کو خود میں محسوس کریں اور اُس کربلا کے واقعہ پہ غور کریں جہاں صرف 72 ساتھیوں سنگ ہزاروں کی لشکر کے آگے حق کی خاطر سینہ تانے تن تنہا کھڑے امام حُسین علیہ السلام کی شہادت کو یاد کریں،تعداد میں کم ہتھیار میں کم ہونے کے باوجود امام حسین علیہ السلام نے پیچھے ہٹنے کے بجائے کئی دشمنوں کو جہنم نصیب کر شہادت کو اپنا مقدر بنایا، ہم ایسے مرد مجاہدین کے وارث ہیں جو ہر لمحہ سر پہ کفن باندھے مظالم کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے رہے،
آج ہماری خاموشی ہمارے نوجوانوں کے سر پہ موت بن کر منڈرارہی ہے جیسے حال ہی میں ایک بیباک صحافی اور قلم نویس کے اوپر بھی بھگوا دھاری دہشتگردوں نے جان لیوا حملہ کیا وہ تو اللہ سبحان تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ایک خوفناک واقعہ ہوتے ہوتے ٹل گیا مگر یہاں پہ افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ اُن دہشتگردوں کے خلاف کسی اپنے نے آواز نہیں اٹھائی اور جہاں تک ہمارے علم میں ہے سمیع اللہ نامی اس بیباک قلمکار نے ظلم و ستم ناانصافیوں کے خلاف لکھتے ہوئے فرقہ پرستوں کو للکارنا اپنے لئے فرض عین سمجھا ہے لیکن جب اُن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا اُس وقت ہر قلم گونگا ہوگیا جو کہ اہل قلم حضرات کے لئے ڈوب مرنے کی بات ہے جو وہ اپنی برادری کے نوجوان کی خاطر لکھنے سے قاصر رہے اور جس لمحہ پتہ چلا اُس وقت سے اہل قلم ہونے کے ناطے ہم خود پشیماں ہیں دراصل آج کے مسلمانوں کی عجیب و غریب خاصیت ہے وہ کسی کی قدر اُس وقت تک نہیں کرتے جب تک کہ وہ مرحوم نہ کہلائے.
مگر یاد رہے آج جو ان نوجوانوں کے ساتھ ہوا ہے اللہ نہ کریں کل کسی اور کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے.
اسلئے آج ہم سبھی ایک دوسرے کی طاقت بن کر اٹھینگے تو ہی ان فرقہ پرست دہشتگردوں کو اُنکی اوقات دکھا سکتے ہیں جو ہر شہر گلی کوچے اور ہر شعبے میں موجود ہیں خاص کر محافظ نگہبان کہلانے والی پولس بن کر یہی وجہ ہے کہ آج کل جھوٹے انکاؤنٹرس معمول ہوچکے ہیں اور بےقصور نوجوانوں کو جھوٹے کیسس میں گرفتار کر انہیں تھرڈ ڈگری ٹارچر دیا جاتا ہے جیسے چند دن قبل سیتامڑھی میں دو مسلم نوجوانوں کے ساتھ کیا گیا
پولس نے غفرآن اور محمد تسلیم نامی لڑکوں کو گرفتار کر پوچھ تاچھ کے دوران انہیں الیکٹریک شاک دے کر اُن کے پیروں اور جسم کے مخصوص حصے میں کیل ٹھوکی گئی اور اس قدر ظالمانہ طور پہ تشدت کیا گیا کہ کچھ ہی منٹوں میں دونوں نوجوانوں نے دم توڑ دیا اور ان حالات میں سب کچھ دیکھ کر بھی مسلمان گونگے بہرے بنے رہینگے، اپنے حق اور انصاف کے خاطر نہیں لڑینگے تو اللہ نہ کریں وہ وقت دور نہیں جب غفرآن اور محمد تسلیم کی جگہ آپ کے بھائی، بیٹے ہونگے
آج کا مسلمان جن حالات سے جوجھ رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے کسی شاعر نے بہت عمدہ بات کہی ہے

اے مسلماں جاگ اور غفلت کے خوابوں سے نکل
تیری منزل سامنے ہے آگیا وقت عمل

لکھنے کو تقدیر روشن عرش انتظار میں
جان لے کہ تیرا رستہ تیرے اختیار میں

تو جو چاہے ڈال سکتا ہے ستاروں میں کمند
بپھری موجیں روک کر تو ڈالے دریاؤں پہ بند

تیرے واسطے ہیں پھیلے آسماں اور یہ زمیں
تو جو چاہے جنت الفردوس کا بھی تو مکیں

راہ حق پہ چل نکل چل اے مسلماں جاگ جا
منزلیں ہیں سامنے وقت عمل ہے آگیا

اے مسلماں غفلت سے جاگ ذرا

(بصیرت فیچرس)


مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
18؍ مارچ 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا