English   /   Kannada   /   Nawayathi

غذا کی کمی کے باعث اموات میں اضافہ

share with us


عارف عزیز(بھوپال)
آزادی کی سات دہائی بعد بھی اگر ہندوستان میں تغذیہ کی کمی سے بچے مر رہے ہوں تو یہ شرم کی بات ہے۔ کیونکہ خراب تغذیہ کی وجہ سے ملک میں تقریباً تین ہزار بچے روزانہ موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یعنی ہر سال دس لاکھ سے زائد بچوں کی موت ہوجاتی ہے۔ یہ ہندسہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پانچ سال سے زیادہ عمر والے غریب بچے یا لڑکے کوئی بہت اچھی حالت میں ہیں۔ ہندوستان میں غریب آبادی کا بڑا حصہ مضر تغذیہ کا شکار ہے۔ قومی خاندانی صحت سروے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ مضر تغذیہ کی وجہ سے چالیس فیصد بچوں کی نشو نما ہی نہیں ہوپاتی جبکہ ساٹھ فیصد بچے اوسطاً وزن سے بھی کم کے ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں ناکارہ تغذیہ پر اقوام متحدہ کی ایجنسیوں سمیت تمام ملکی و غیر ملکی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ان کے نتائج کا لب لباب یہی ہے کہ غربت مضر غذا سے نمٹنے میں ہندوستان کوئی قابل ذکر ترقی نہیں کر پایا ہے۔ جنوبی ایشیا کے ملکوں میں ہندوستان کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ اس لئے مضر تغذیہ گمبھیر فکر کا موضوع بن گیا ہے۔
تغذیہ کے مسئلہ کا ایک نہیں کئی پہلو ہیں۔ اِس کا راست تعلق غذا، علاج اور بیداری سے ہے۔ ہندوستان میں مضر تغذیہ کی شکار آبادی تقریباً بیس کروڑ ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ پندرہ سے پچاس سال کے درمیان کی پچاس فیصد سے زیادہ خواتین خون کی کمی کی شکار ہیں۔ ایسے میں یہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ خواتین صحت مند بچوں کو جنم دے پائیں گی؟ دیہی علاقوں میں یہ صورت حال زیادہ خراب ہے۔ اس لئے بچے پیدائشی طور پر غذا کی کمی کے شکار ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں زچہ اور بچہ کی شرح اموات زیادہ ہونے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کے لئے سب سے زیادہ زور بیداری اور تغذیہ بخش غذا کی فراہمی پر دینا ہوگا۔ یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نے خود اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ تغذیہ کی کمی سے ہم ابھی تک آزاد نہیں ہوسکے ہیں، جبکہ کئی ممالک اس مسئلہ سے نجات پاچکے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کو یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے طویل راستہ طے کرنا ہے۔ جب تک ہر شہری کو علاج کی سہولت نہیں ملے گی تب تک ہم بیماریوں سے نجات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ ملک بھی ترقی کے راستے پر اسی وقت بڑھ سکے گا جب ہماری آنے والی نسلیں صحت مند ہوں گی۔
مضر تغذیہ کے مسئلہ کی جڑ بنیادی طور پر غربت ہے۔ غربت کی مار جھیل رہے کروڑوں خاندان کن حالات میں ہیں اس کی تصویر چونکانے والی ہے۔ کروڑوں بچے اسکول نہیں جاپاتے۔ بے گھر بچوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چھوٹی عمر سے ہی کام میں لگ جانے والے بچوں کی حالت قابل رحم ہے۔ انہیں اتنی مزدوری بھی نہیں مل پاتی کہ پیٹ بھر سکیں اور پھر ہر طرح کے استحصال کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے میں مسئلہ کا حل زیادہ مشکل نظر آتا ہے۔ ایسے مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لئے صرف منصوبے بنانا کافی نہیں ہوتا بلکہ ان منصوبوں کو نافذ کرنے میں سنجیدہ کوششوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم ابھی تک غربت، سوئے تغذیہ، صحت ، تعلیم جیسے شعبوں میں اگر کچھ حاصل نہیں کر پائے ہیں تو ظاہر ہے یہ ہمارے نظام کی ناکامی کی علامت ہے۔ اس لئے پہلے اس نظام کو درست بنانا ہوگا جس پر ایسے طویل مدتی اہداف کو حاصل کرنے کی ذمہ داری ہے اور جسکے تعلق سے ابتک دعوے ہوئے ہیں کام نہیں ہوسکا ہے۔

16مارچ2019

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا