English   /   Kannada   /   Nawayathi

بابری مسجد مفاہمت فارمولہ، جوش نہیں ہوش کی حکمت عملی درکار

share with us

ظفر آغا

کوئی 70 برس گزر گئے بابری مسجد-رام مندر تنازعہ کو، لیکن مسئلہ آج تک حل نہ ہوا۔ اب سپریم کورٹ نے اس مسئلہ کو مصالحت کے ذریعہ حل کرنے کی تازہ کوشش کی ہے۔ جیسا کہ آپ واقف ہیں کہ سپریم کورٹ نے تین رکنی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو آٹھ ہفتے کے اندر ہندو اور مسلم فریقین اور افراد سے گفتگو کے بعد اس سلسلے میں اپنی رپورٹ کورٹ کے حوالے کر دے گی۔ پھر کورٹ آگے اس رپورٹ کے مدنظر اپنا فیصلہ دے سکتا ہے۔ لیکن ابھی سپریم کورٹ کی تین رکنی کمیٹی کی خاطر خواہ شہرت بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کمیٹی اور سپریم کورٹ کے فیصلے دونوں پر اعتراضات شروع ہو گئے۔ اس سلسلے میں مسلم گروہوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ کمیٹی میں شری شری روی جی کا نام کیوں رکھا گیا۔ سری سری روی کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ وہ آر ایس ایس اور نریندر مودی دونوں کے نزدیکی فرد ہیں۔ اس لیے ان کی کوشش بے لوث نہیں ہوگی۔ پھر سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس کلیف اللہ پر بھی کچھ افراد کو زیادہ اعتماد نہیں ہے۔ ادھر بی جے پی اور وشو ہندو پریشد جن کے لیے مسئلہ ایودھیا سیاسی اور مذہبی ہے، وہ دونوں یہ کہہ رہے ہیں کہ بھگوان رام کی جائے پیدائش کے سلسلے میں کسی قسم کی مفاہمت نہیں ہو سکتی ہے۔ وہ رام جنم بھومی ہے، وہاں صرف رام مندر ہی بن سکتا ہے۔

الغرض ابھی سپریم کورٹ نے اس کا اعلان کیا ہی تھا اور ادھر اس پہل پر نکتہ چینی شروع ہو گئی۔ اس اعتبار سے ابھی کوئی پیشین گوئی کرنا کہ یہ کوشش کیا گل کھلائے گی، ذرا مشکل ہے۔ لیکن یہ سوال بے جا نہیں کہ آیا مفاہمت کے ذریعہ مسئلہ ایودھیا حل ہو سکتا ہے یا نہیں! یہ سوال خود اپنے آپ میں بے حد پیچیدہ ہے۔ کیونکہ اس مسئلہ کے ساتھ ہندوستان کی دو بڑی قوموں کے مذہبی جذبات جڑے ہیں اور کچھ سیاسی تنظیمیں (یعنی بی جے پی و سَنگھ) اس مسئلہ کا سیاسی استعمال بھی کر رہے ہیں۔ جہاں تک ہندو جذبات کا سوال ہے تو کم از کم پچھلے بیس پچیس برس میں ہندوؤں میں یہ عام رائے بن چکی ہے کہ جہاں پہلے بابری مسجد تھی وہ جگہ بھگوان رام کی جائے پیدائش تھی اور پہلے وہاں مندر تھا جس کو بابر نے توڑ کر ایک مسجد بنوا دی تھی۔ گویا یہ بات مستحکم طور سے تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہوئی لیکن اب یہ ہندو عقیدہ اور جذبہ بن چکا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ اب صرف رام مندر بننا چاہیے۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی اسی جذبہ کا سیاسی فائدہ اٹھا کر اس مسئلہ کے ذریعہ چناؤ میں ووٹ بٹورتے ہیں۔

دوسری جانب مسلم رائے یہ ہے کہ بابری مسجد اللہ کا گھر تھا جس کو زبردستی گرا کر وہاں مندر بنایا گیا اس لیے وہاں پھر سے مسجد بننی چاہیے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اس سلسلے مین یہ موقف رہا ہے کہ جہاں ایک بار مسجد بن جاتی ہے وہاں صرف مسجد ہی رہ سکتی ہے۔ پھر مسلمان اس کو ملکیت کا معاملہ کہتے ہیں کیونکہ قانونی طور پر اس زمین کی ملکیت مسلم وقف بورڈ کے پاس ہے۔ لیکن ابھی کم از کم مدرسہ دیوبند اور مسلم علماء میں اہم مقام رکھنے والی شخصیت مولانا ارشد مدنی نے یہ بیان دیا کہ بابری مسجد کے معاملے میں مذہبی نکتہ نگاہ کے ذریعہ نہیں بلکہ ملکیت کے نکتہ نگاہ سے مفاہمت کی گنجائش ہے۔

یہ تو رہی مسئلہ ایودھیا پر ہندو-مسلم گروہوں کی مختلف رائے۔ لیکن اس مسئلہ کا ایک ایسا پہلو بھی ہے جس کی بات کھل کر نہیں ہوتی ہے۔ لیکن غیر شعوری طور پر وہ نکتہ اس معاملے کو بہت الجھا دیتا ہے۔ وہ غیر شعوری پہلو یہ ہے کہ اس ملک پر کس فرقہ اور عقیدے کی بالادستی رہے گی۔ سنگھ کا خیال ہے کہ ہندوستان بنیادی طور پر ایک ہندو راشٹر ہے اس لیے ایودھیا میں اگر ہندو رام مندر چاہتے ہیں تو اس بات میں کسی بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یعنی مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہیں، اس لیے اگر بابری مسجد کی ملکیت ان کے پاس تھی بھی تب بھی اکثریت کے جذبے کے دباؤ میں ان کو اس جگہ کو خالی کر دینا چاہیے۔ سپریم کورٹ کی مفاہمت کی پہل کے بعد وشو ہندو پریشد اور بی جے پی کے جن افراد کا اس سلسلے میں بیان آیا اس کا لب و لباب بھی یہی ہے کہ ایودھیا ہندوؤں کی ہے اور اس میں بحث و مباحثہ ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مسلم اقلیت کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایودھیا دے دی تو پھر ہم دوسرے درجے کے شہری ہو گئے اور کل کو کسی بھی مسجد کا کوئی بھی تنازع اٹھا تو بابری مسجد فیصلے کو نظیر بنا کر مسجد ہٹا دی جائے گی۔ اس معاملے میں وشو ہندو پریشد پہلے سے ہی بنارس اور متھرا کی مساجد سمیت ایک ہزار سے زیادہ مساجد کی لسٹ پہلے سے پیش کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کی وجہ سے مسلم پارٹی اس مسئلہ کو حل کرنے میں کوئی قدم اٹھانے سے گریز کرتی ہے۔

یعنی مذہبی اور سیاسی نکتہ نگاہ سے مسئلہ ایودھیا کی گرہ کو کھولنے کی گنجائش بہت کم نظر آتی ہے۔ اب پس منظر میں خاص طور سے مسلمانوں کے لیے صرف حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا ہے۔ اگر ملک کے سیاسی و سماجی حالات پر نگاہ ڈالیے تو سنہ 1949 میں جس وقت بابری مسجد تنازع عدالت میں گیا تھا تب سے اب تک ملک اور دونوں قوموں کے حالات میں زمین و آسمان کا فرق پڑ چکا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان 1949 کا ویسا سیکولر ملک نہیں رہا جیسا کہ اس وقت تھا۔ کم از کم اس وقت ملک میں ہندوتوا نظریہ اور تنظیموں کی بالادستی ہے۔ اس کے برخلاف مسلمان کافی حد تک بے یار و مددگار ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کی اس وقت سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ وہ بے کار مسائل میں الجھے بغیر تعلیم و ہنر کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ ترقی کر سکیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب سے مسئلہ ایودھیا کھڑا ہوا ہے تب سے مسلمان بابری مسجد کے نام پر کبھی فساد کا شکار ہے تو کبھی اس کو اس ملک میں ہندو دشمن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان تمام مسائل کی وجہ سے قوم اپنے بنیادی مسائل (تعلیم و ترقی) کے بجائے جذباتی مسئلوں میں الجھی ہوئی ہے۔ کبھی پرسنل لاء تو کبھی بابری مسجد تو کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے معاملات نے مسلمان کو ایسا گھیر رکھا ہے کہ وہ ان معاملات میں گھر کر اپنی ترقی کی راہیں بھولا ہوا ہے۔ میری ذاتی رائے میں یہ سنگھ کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔ مسلمانوں کے لیے بابری مسجد سے اہم سوال اب یہ ہے کہ آیا وہ ان جذباتی معاملات میں الجھا رہے یا وہ اپنے بنیادی مسائل کی طرف رجوع کرے۔ ایک دور اندیش قوم کے حق میں تو یہی بات ہوگی کہ وہ اپنے بنیادی مسائل پہلے حل کرے۔

پھر مسلم اقلیت کے لیے بابری مسجد معاملے میں ایک اور بات سوچنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ جیسے ہی بابری مسجد جیسا کوئی مسئلہ گرم جوشی اختیار کر جاتا ہے ویسے ہی سنگھ اور بی جے پی عام ہندو کی نگاہ میں پوری مسلم قوم کو ہندو دشمن کی امیج دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ سنہ 1990 کی دہائی میں جب سے بابری مسجد تنازع شروع ہوا تب سے اب تک ملک کے سیاسی پس منظر پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ اس پورے دور میں بی جے پی کس قدر چالاکی سے زیرو سے ہیرو بن گئی۔ بابری مسجد تنازع کی شدت سے قبل بی جے پی کی ہندوستانی سیاست میں کوئی خاص حیثیت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن مسلم پرسنل لاء اور بابری مسجد جیسے دو مسئلوں کے کاندھوں پر سوار بی جے پی آج نریندر مودی کو خود اپنے دم پر ملک کا وزیر اعظم بنوانے میں کامیاب ہے۔ اور اس پورے دور میں مسلمان کو کیا ملا! سنہ 1992 میں بابری مسجد گرائے جانے کے بعد فسادات، پھر سنہ 1993 میں ممبئی فساد اور سنہ 2002 میں گجرات فسادات کے دوران مسلم نسل کشی کا شکار ہوا مسلمان۔ پھر عام ہندو کی نگاہ میں وہ ہندو دشمن ہو گیا۔ ان دونوں باتوں کا فائدہ اگر کسی کو ہوا تو وہ محض بی جے پی اور سَنگھ کو ہوا۔

یعنی، اگر خالص مسلم نکتہ نگاہ سے بابری مسجد مسئلہ پر نگاہ ڈالی جائے تو ہندوستانی اقلیت کے حق میں یہی ہے کہ اس مسئلہ کا جلد از جلد حل ہو جائے۔ اس اعتبار سے سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مفاہمت کا راستہ کھول کر ایک گنجائش پیدا کی ہے جس کا فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ لیکن مفاہمت وہی کامیاب ہو سکتی ہے جس میں دونوں فریقین کی ناک بھی بنی رہے اور بات بھی بن جائے۔ اس اعتبار سے سپریم کورٹ نے جو تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے اس کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بڑی ذمہ داری کے ساتھ اس کام کو انجام دے اور دونوں فریقین کے حق میں کوئی فارمولہ پیش کرے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہوگا جب دونوں فریقین اس سلسلے میں جوش نہیں ہوش سے کام کریں اور ایمانداری سے مسئلہ کو حل کرنے کی خاطر خواہ کوشش کریں۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہں ہے )

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا