English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستانی خواتین پر ظلم کرنے والے کون ہیں؟

share with us


عارف عزیز(بھوپال)


۸؍مارچ کا دن ’’یوم خواتین‘‘ کے طور پر منانا ایک روایت بن گئی ہے، ۱۹۰۸ء میں یعنی ایک سو گیارہ سال سے خواتین کے نام پر یہ دن مناکر ان کی حالت پر غور وفکر ہوتا ہے، مضامین لکھے جاتے ہیں، تقاریر ہوتی ہیں، تجاویز پاس کی جاتی ہیں، خواتین کے خلاف روز افزوں جرائم پر تشویش کا اظہار ہوتا ہے، ان کو حقوق واختیارات فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن اس تمامتر لفاظی کے بعد عمل کے نام پر زیادہ کچھ سامنے نہیں آتا، بعض حلقوں کی طرف سے اس دن مسلم عورتوں کی زبوں حالی وپریشانی کا رونا بھی رویاجاتا ہے لیکن ایسے لوگ اپنے جہاں سے کتنے بے خبر ہیں یہ ان اعداد وشمار سے اندازہ ہوتا ہے جو آئے دن ریاستی اسمبلیوں سے لے کر پارلیمنٹ تک میں پیش کئے جاتے ہیں بیشتر گھر کی چہار دیواری کے اندر نوبیاہتا لڑکیوں کا جینا دشوار ہوگیا ہے، جہیز کے نام پر ان کو مختلف مظالم کا شکار بنایا جارہا ہے، بہو بیٹیوں کو زندہ جلا دینا معاشرہ کی ایک عادت بن گئی ہے، ۲۱ویں صدی میں بھی ملک کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں عورتوں کی خرید وفروخت جاری ہے، جہیز کے کم ملنے پر باراتیں واپس جانا بھی ایک معمول بن گیا ہے۔
ہندوستانی معاشرہ میں آج عام عورت کی حالت کیا ہے اور اسے کس بے دردی کے ساتھ ہوس کا شکار بنایا جارہا ہے ، کبھی جہیز کے نام پر تو کبھی مردوں کے حقوق کی ادائیگی کا حوالہ دیکر مارا پیٹا اور زندہ جلایا جارہا ہے، اس کا ایک اندازہ مرکزی وزارتِ داخلہ کی اس رپورٹ سے ہوتا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک میں خواتین پر ظلم وزیادتی کے واقعات بڑھ کر دوگنا ہوگئے اور نوبت یہ آگئی ہے کہ اوسطاً ہر چھ منٹ میں کوئی نہ کوئی عورت کسی نہ کسی جرم کی لپیٹ میں آجاتی ہے، ہر ۴۷ ویں منٹ پر ایک عورت عصمت کا شکار بن جاتی ہے یعنی اس تحریک کے لکھنے سے لیکر اخبار میں اشاعت تک کے ۱۲ گھنٹوں میں اپنی قسمت پر آنسو بہانے والی خواتین کی تعداد میں ۱۵ کا اضافہ ہوجائے گا، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر پی) کی رپورٹ تو یہ بھی بتاتی ہے کہ ملک کی ہر پانچ خواتین میں سے ایک کو جنسی یا جسمانی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہر تیسری عورت کو اپنے خاوند یا کسی رشتہ دار کی سختی سے دوچار ہونا پڑتا ہے، یہی نہیں اوسطاً ۱۷ خواتین کو یومیہ موت کے منہ میں ڈھکیل دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک سال میں ۹۰ ہزار کے قریب عورتیں مردوں کے ہاتھوں کسی نہ کسی جرم کا شکار بنتی ہیں، ان مردوں میں خاوند کے علاوہ دوسرے جانے پہچانے لوگ پڑوسی ، رشتہ دار، یہانتک کہ مذہبی رہنما اور باپ وبھائی بھی شامل ہوتے ہیں۔
ان تمام ظلم وزیادتی بلکہ بربریت کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن تجربہ یہ ہورہا ہے کہ ان کو جتنا سخت بنایا جاتا ہے ، اسی رفتار سے خواتین پر مظالم بڑھ جاتے ہیں۔
دراصل جہیز کیلئے عورتوں کو زندہ جلانے کا عمل ہو یا ان کی خرید وفروخت کا کاروبار ، ان کی کمزوری ولاچاری سے فائدہ اٹھانا ہو یا رحم مادر میں ان کی نسل کشی کرنا، بیماری نہیں صرف علامت کا درجہ رکھتا ہے اور اس پر ہندوستانی معاشرہ محض اس خوف یا مصلحت سے غور کرنے میں گھبراتا ہے کہ کہیں وہ خود ننگانہ ہوجائے، جس کے بعد دوسروں پر انگلی اٹھانے میں اسے شرم محسوس ہو گی، حالانکہ یہ وہ لعنت ہے جس نے دنیا بھر کی نظر میں ملک کو رسوا وبدنام کردیا ہے لیکن اپنے ملک کی رسوائی وبدنامی کی فکر کس کو ہے؟
برسوں پہلے جسٹس مرتضیٰ علی نے مشورہ دیا تھا کہ نئی نسل کو جہیز مخالف تعلیم شروع سے دی جائے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ جہیز کیا ہے اور عورت کی حیثیت اسکوٹر، ٹی وی سیٹ یا کار سے کہیں زیادہ ہے جس کو مال ومتاع کی لالچ میں مار ڈالنا نہایت شرمناک ہے۔ 
جہیز کی لعنت سے مسلم معاشرہ پاک وصاف ہے یہ دعویٰ نہیں کیاجاسکتا لیکن مسلمانوں میں آج بھی بہوؤں کو زندہ جلاڈالنے کے واقعات نہ ہونے کے برابر جس کی بنیادی وجہ آخرت کی زندگی کا عقیدہ اور احتساب کا تصور ہے، اس کے علاوہ اسلام کے وہ عائلی قوانین ہیں جن کو مسلم پرسنل لا کہاجاتا ہے، ان قوانین میں یہ گنجائش ہے کہ زوجین میں اختلافات اتنے شدید ہوجائیں کہ ان کے درمیان نبھاہ کی گنجائش نہ رہے تو وہ علاحدگی اختیار کرسکتے ہیں جبکہ موجودہ قوانین کی رو سے عام لوگوں کی ازدواجی زندگی کے انتہائی بگاڑکو بھی شوہر وبیوی کی علاحدگی یعنی طلاق کے لئے کافی نہیں سمجھا جاتا بلکہ ہندو مذہب کے مطابق تو خاوند۔ بیوی کا رشتہ کئی جنموں تک برقرار رہتا ہے اور ایک مرتبہ قائم ہوجائے تو ٹوٹتا نہیں اور اگر عصری قوانین کے تحت بیوی کو طلاق دی جائے تو اسے تاعمر نان ونفقہ (یعنی زندگی گزارنے کا خرچ) دنیا پڑتا ہے، جس سے دامن بچانے کے لئے بہوؤں اور بیویوں کو جلاکر مار ڈالنے کا طریقہ آزمایا جارہا ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا مسلم پرسنل لا کے تحت ایک آسان طلاق کی بہر حال گنجائش ہے۔ 
۱۹۸۶ء میں مسلم مطلقہ خواتین کے نان نفقہ کے بارے میں ایک قانون پارلیمنٹ نے بنایا تھا تو سارے ترقی پسند اور تنگ نظر اس کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے لیکن اپنے سماج میں بہوؤں کو زندہ جلا کر مار ڈالنے کے خلا ف کسی سیاسی پارٹی، سماجی تنظیم یا لیڈر کو تحریک چلانے کی توفیق نہیں ہوئی، وشوہندوپریشد ، آر ایس ایس، شیوسینا اور اسی طرح کی دوسری جماعتیں جو خود کو ہندوسماج کا محافظ سمجھتی ہیں، انہیں بھی اپنے سماج کی اصلاح کیلئے جدوجہد کا حوصلہ نہیں ہوا صرف زبانی خانہ پری کیلئے ایک آدھا بیان آجاتا ہے اور جہیز کے لئے ہورہے مظالم کے خلاف لڑنے کے واسطے عورتوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔
خواتین پر یلغار کا ایک اور پہلو انہیں بازار کی شئی بنادینا ہے، ہمارا سماج عورتوں کو فلموں سے ٹی وی تک کے اشتہارات میں، سائبر نیٹ ورک میں، اور پرنٹ میڈیا میں بکاؤ مال کے طور پر عرصہ سے پیش کر رہا ہے اور اس پر احتجاج کرنے یا اس پر قابو پانے کی کسی کو فکر نہیں، اسی طرح معاشی میدان میں عورتوں کی پس ماندگی سب پر ظاہر ہے، حکومت کی طرف سے عورتوں کیلئے جو اسکیمیں بنائی جارہی ہیں ان سے نہ وہ پوری طرح واقف ہوتیں نہ استفادہ کرتی ہیں، اس تمام ظلم وزیادتی اور حق تلفی کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ عورتیں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ ہوں جبکہ اسلام نے تعلیم کے دروازے بہت پہلے سے عورتوں کیلئے کھول رکھے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا