English   /   Kannada   /   Nawayathi

پلوامہ المیہ کو سیاسی موقعہ میں بدلنے کی شرمناک کوشش سے اجتناب ضروری 

share with us

کشمیری عوام اس لا حاصل جنگ کے انجام کا احساس کریں

حکومت کشمیریوں کی جائزشکایتوں کا ازالہ اور تمناؤں کی تکمیل کرے

عبید اللہ ناصر 

پلوامہ میں مرکزی ریزرو پولیس فورس ( سی آر پی ایف ) کے قافلہ پر دہشتگردانہ حملہ اور قریب ۴۰ جوانوں کی شہادت سے پورا ملک غم اور غصّہ میں فطری طور سے جل رہا ہے مگر ابتدائی غم و غصّہ کے بعد حکمران جماعت سے وابستہ افراد جس طرح کا رد عمل ظاہر کر رہے ہیں اور جو زبان اور لہجہ استعمال کر رہے ہیں وہ ایک بالغ وسیع النظر قوم ہونے کے ہمارے وجود پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں ملک کے مختلف حصّوں میں تجارت اور حصول تعلیم کے لئے گئے کشمیریوں کو نشانہ بنانا جتنا شرمناک ہے اتنا ہی خطرناک بھی افسوس کی بات یہ ہے کہ ا جے پی کے لیڈران اور آئینی عہدوں پر فائز لوگ بھی اپنے بیانات میں ذمہ داری تدبر اور آئینی قدروں کے پاس لحاظ کے بغیر صرف کٹر ہندو وادی ووٹ بنک کو مضبوط کرنے والے بیانات دے رہے ہیں یہاں تک کہ میگھالیہ کے گورنر تتھاگت رائے جو اپنی آئینی ذمہ داریوں اور فرض کو نظر انداز کر کے اکثر و بیشتر نہیات ہی فرقہ وارانہ اور غیر آئینی بیانات دینے کے لئے بدنام ہیں انہوں نے نہ صرف کشمیری عوام بلکہ کشمیر میں تیار مصنوعات کے بائی کاٹ کی اپیل کر دی ہے انکا یہ بیان آئیں ہند کی خلاف ورزی ہے جسکا انہوں نے حلف لیا ہے اور انکی یہ حرکت انھیں گورنر کے عہدہ سے برطرف کر دینے کے لئے مضبوط جواز ہے لیکن صدر جمہوریہ تو درکنار کیونکہ انکی سابقہ سیاسی وابستگی انھیں ایسا نہیں کرنے دیگی خود سپریم کورٹ کا اس کا از خود نوٹس لے کر ایکشن لینا چاہئے گجرات کے ایک وزیر نے کہا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد راشٹرواد کا جو جنون پیدا ہوا ہے ہمیں اسے ووٹوں میں بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے اتراکھنڈ سے کشمیری طلبہ کو واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا ہے کیونکہ ریاستی وزیر داخلہ ان بچوں کو تحفظ کا یقین دلانے انھیں حوصلہ دینے کے بجاے الٹا انہیں پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ ملک مخالف بیان نہ دیں بابا فرید جیسے صوفی بزرگ کے نام پر قایم ایک کالج نے اگلے تعلیمی سال سے کشمیری طلبہ کو داخلہ نہ دینے کا نہایت ہی غیر آئینی بیان جاری کیا ہے ادھر سڑکوں پر دس دس بیس بیس نوجوانوں کی ٹولیاں ہاتھ میں ترنگا اور بھگوا جھنڈا لے کر ماں بہن کی گالیاں بکتے ہوئے اپنی وطن دوستی حب الوطنی کا ڈھنڈھورا پیٹ رہے ہیں ایک نہایت ہی المناک اور سنجیدہ صورت حال کو تماشہ بنا دیا گیا ہے وزیر اعظم کل جماعتی میٹنگ طلب کر کے اور سیاسی پارٹیوں کو اس المیہ پر سیاست نہ کرنے کی تلقین کر کے انتخابی جلسوں میں نکل جاتے ہیں اور کل جماعتی میٹنگ کی صدارت وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی صدارت میں ہوتی ہے ایسا لگتا ہے بی جے پی اس واقعہ کو موقعہ میں بدلنے کی جگت کر رہی ہے
اس بزدلانہ اور بہیمانہ حملہ پر پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی حق بجانب ہے پاکستان کے ارباب اقتدار سے یہ سوال بھی پوچھا جانا لازمی ہے کہ وہ اس طرح کی بہیمانہ کارروائیوں سے کیا حاصل کر لینے کی امید کر رہے ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کشمیر کو ہندستان سے الگ کر لینگے تو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ بیوقوفوں کی جنت میں رہ رہے ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان حرکتوں سے ہندستان میں شورش پیدا ہوگی فرقہ وارانہ ماحول بگڑیگا اور ملک کمزور ہوگا تو انھیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہندستان کی مٹی میں ایسے جھٹکوں کو جھیل جانے کی لا محدود صلاحیت ہے اس لئے وہ ان بزدلانہ حرکتوں سے ہندستان کو تو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکتے ہاں کشمیر جنت نظیر کو انہوں نے جہنم ضرور بنا دیا ہے کشمیر کے کھیتوں میں اب زعفران اگنے کے بجائے بارود پھیل رہا ہے پاکستان کی سازش اور بزدلی کی قیمت سب سے زیادہ کشمیری عوام ادا کر رہے ہیں۔ کشمیری عوام کو بھی اس تلخ حقیقت کا ادراک کر لینا چاہئے کہ پاکستان ہی نہیں خود انکے علاحدگی پسند لیڈران بھی انکے بہی خواہ نہیں ہیں وہ موت تباہی بربادی آگ اور خون کا مقابلہ کرنے کے لئے کشمیری نوجوانوں کو آ گے کر کے اپنے جگر گوشوں کو بیرون ملک محفوظ کمیں گاہوں میں بھیج دیتے ہیں اور خود پاکستان سے ملنے والے خفیہ ٹکڑوں اور حکومت ہند سے براس راست مالی امداد اور سیکورٹی پر عیش کرتے ہیں کشمیر کے ہزاروں نوجوان موت کے منہ میں جا چکے ہیں ان میں کسی لیڈر کا لڑکا کیوں نہیں ہے کیا کشمیری عوام کو اس پر غور نہیں کرنا چاہئے کیا ان میں اتنی فہم و فراست دور اندیشی نہیں کہ وہ سمجھ سکیں کہ نام نہاد آزادی کے نام پر انھیں جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے وہ ایک ایسی جنگ کا نہ چاہتے ہوئے بھی حصہ بن چکے ہیں جس میں شکست لازمی ہے ایک بے مقصد جنگ ان پر تھوپ دی گئی ہے کیونکہ پاکستان جانتا ہے کہ براہ راست مقابلہ میں نہ صرف ہمیشہ کی طرح اسکی شکست یقینی ہے بلکہ بنگلہ دیش کی طرح اسکا کوئی بازو اس سے کاٹ کے الگ ہو جا?گا اسکا بھی قوی امکان ہے اس لئے وہ اپنی نفرت اور بدلے کی بھٹی میں معصوم کشمیری عوام کو ایندھن کی طرح استعمال کر رہا ہے کشمیری عوام کو حکومت ہند سے شکایتیں ہو سکتی ہیں ماضی میں یا حال میں بھی کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہونگی مگر جمہوری نظام میں افہام و تفہیم سے ان شکایتوں کو دور کیا جا سکتا ہے ملک کے دیگر عوام کی طرح ان کے پاس بھی ووٹ کی طاقت ہے جس کو وہ اپنی شکایات کے ازالہ کے لئے استعمال کر سکتے ہے اور کیا بھی ہے پنچایت کی سطح سے لے کر پارلیمنٹ تک وہ اپنی اس طاقت کا استعمال کرتے ہیں
کشمیری عوام کو کیا شکایتیں ہیں اس پر توجہ دینا حکومت ہند کی اولین فریضہ ہے مودی حکومت کو سوچنا ہوگا کہ کشمیر انھیں وراثت میں کس طرح کا ملا تھا اور آج وہ کس وراثت کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اسکے لئے کہیں اور نہیں صرف وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے ریکارڈ ہی حکومت کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہیں کیا اس حقیقت سے انکار کر سکیں گے کہ کشمیر میں دہشت گردی کافی حد تک کم ہو کے محض چند علاقوں تک محدود ہو گئی تھی سیاحوں کی بھرپور آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا فلم انڈسٹری اپنی پسندیدہ لوکیشن کی جانب راغب ہونے لگی تھی یہ سب اس لئے ہو سکا تھا کیونکہ اٹل جی نے اپنے دور میں کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی پالیسی اختیار کی تھی انہوں نے انسانیت اورکشمیریت کے دائرہ میں کشمیری عوام کی شکایتوں کے ازالہ کا نہ صرف وعدہ کیا تھا بلکہ اس پر عمل بھی کیا تھا انکے بعد ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے بھی اس پالیسی کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے اور تیز بھی کیا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف وادی میں کافی حد تک امن بحال ہو گیا بلکہ سرحد پار سے بھی ٹھنڈی ہوائیں آنے لگی تھیں لیکن آتے آتے متعدد وجوہ کی بنا پر منموہن حکومت سیاسی طور سے بھات کمزور ہو نے لگی تھی جسکا اثراسکی پاکستان اور کشمیر پالیسی پر بھی پڑا اسی درمیان پاکستان میں بیٹھے دہشتگردوں نے جو کسی بھی قیمت پر ہندستان پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات اور کشمیر میں امن و چین نہیں وچاہتے انہونے نے دو ہندستانی فوجیوں کو نہ سیف قتل کر دیا بلکہ انکا سر بھی تن سے جدا کر کے لاش ہندستانی سرحد پر پھینک دی اس بزدلانہ اور بہیمانہ حرکت کا ہندستان میں شدید رد عمل لازمی تھا پھر بھی دہشتگردوں کی سازش سمجھتے ہوئے ضرورت اس وقت صبر و تحمل دور اندیشی اور تدبر کی تھی لیکن ہندستانی میڈیا خاص کر چینلوں نے اور بی جے پی لیڈروں نے ایک طوفان کھڑا کر دیا جس کے شور میں تدبر اور ڈپلومیسی کا قتل ہو گیا منموہن حکومت کو بھی پاکستان کے حوالہ سے اپنے بڑھتے قدم روکنے پڑے اس وقت توایسا لگ رہا تھا کہ ہندستانی خارجہ پالیسی وزارت خارجہ کے دفتر میں نہیں بلکہ ٹی وی اسٹوڈیوز میں طے کی جا رہی ہو یہاں تک کی خواجہ اجمیری کی درگاہ میں حاضری دینے آئے پاکستانی وزیر اعظم کو دیا جانے والا معمولی پروٹوکول اور انھیں کھانا کھلانا بھی خود نریندر مودی جی نے سیاسی اشو بنا دیا تھا عوام کی بات چیت میں بھی چکن بریانی کا استعمال ہی طنزیہ طور پر ہونے لگا تھا
منموہن سنگھ کے دور حکومت میں تمام تر طوفان بدتمیزیوں کے باوجود مودی جی نے بطور وزیر اعظم ایک اچّھا آغاز کیا تھا انہوں نے اپنی حلف برداری میں سبھی پڑوسی ملکوں کے سربراہاں حکومت کو مدعو کیا جن میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف بھی شامل تھے اسکے بعد وزیر اعظم خود بھی ایک بار بنا پروگرام کے اچانک پاکستان پہنچ گئے دونوں وزرا? اعظم نے ذاتی دوست ہونے کا بھی احساس کرانے کی کوشش کی لیکن پھر حالات بگڑنے لگے اور یہاں تک بگڑے کہ ہر طرح کی گفتگو کا سلسلہ ہی منقطع ہو گیا ایمانداری کی بات ہے کہ مودی جی اس معاملہ میں بے سمتی کا شکار ہو گئے پاکستان کو لے کر کبھی نرم گرم پالیسی نے حالات بد سے بدتر کر دئے ۔کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ مودی نے ابتدائی دنوں میں اپنی جو امن پسند مدبر کی امیج بنانی چاہی تھی وہ آر ایس ایس کی سیاسی ضرورت کو پورا نہیں کر رہی تھی اور نہ ہی خود انکی سابقہ امیج کے مطابق تھی جسکا فایدہ اٹھا کر وہ اتنی بڑی اکثریت سے بر سر اقتدار آئے تھے ہندو ہردے سمراٹ بنے رہنے اور اسکا سیاسی فایدہ اٹھانے کے لئے انھیں امن پسند مدبر والی امیج ترک کرنی پڑی لیکن اسکی بہت بڑی قیمت ملک خاص کر کشمیر میں ادا کرنی پڑی انگریزی کے ایک موقر اخبار نے ایک گرافک کے ذریعہ دکھایا ہے کہ کس طرح گزشتہ چار برسوں میں کشمیر مے دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے یہ سہی ہے کہ اس دوران بہت سے دھشتگردوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا سرجیکل اسٹرائیک بھی کی گئی لیکن یہ بھی سہی ہے کہ ہمارے فوجیوں اور نیم فوجی دستوں کے جوانوں کی شہادتوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے اڑی پٹھانکوٹ اور اب پلوامہ میں فوجی اڈوں اور فوجیوں کو بھی نشانہ بنانے کے واقعات بیحد تشویشناک ہیں اور اس سے بھی زیادہ خود وزارت داخلہ کی یہ رپورٹ ہے کہ مقامی نوجوانوں کی دہشتگرد تنظیموں میں بھرتی بہت بڑھ چکی ہے کہا جاتا ہے کہ ۹۰کی دھائی میں جہاں ۲۰ فیصد دہشت گرد پاکستانی تھے اور صرف بیس فیصد مقامی کشمیری نوجوان وہیں اب گنتی با الکل الٹی ہو چکی ہے یہ بیحد خطرناک صورت حال ہے اسکا علاج بندوق کی گولی نہیں صرف اور صرف افہام و تفہیم ہے کشمیریوں کی جائز شکایتوں کا ازالہ اور جایز تمناؤں کی تکمیل 
سے ہی حالات بہتر ہو سکتے ہیں اور کوئی راستہ نہیں ہے مگر اسکے لئے سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر سوچنے والا دل دماغ اور ذہن چاہئے ۔ (یو این این) 

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
22؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا