English   /   Kannada   /   Nawayathi

غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے چند واقعات

share with us

شیر محمد؛ ریسرچ اسکالر ، علی گڑھ 


پیارے نبی ﷺ نے جب اعلان نبوت کیا تو کل عرب آپ کے جانی دشمن بن گئے۔ پھر ایذا رسانیوں ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کئی بار آپ پر جان لیوا حملے بھی کیے گئے۔ہر طرح سے آپ کو ستایا گیا۔ آپ کی پشت پر اوجھڑی ڈالی گئی۔جب آپ کے گھر کھانا بنتا تو ہانڈیوں میں غلاظت اور گندگی ڈال دی جاتی۔آپ پر پتھر برسائے گئے جس سے آپ کا پیر لہولہان اور خون آلود ہو گیا۔ آپ کے دندان مبارک کو شہید کیا گیاجس سے آپ کا منہ خون سے بھر گیا۔ الغرض آپ کے دشمنوں نے آپ کو دردناک ایذارسانیوں سے دوچار کیا۔ لیکن قربان جایئے پیارے نبی ﷺ کے حسن سلوک پر کہ آپ نے کبھی بھی اپنے دشمنوں سے ان کی ایذا رسانیوں کا بدلہ نہیں لیا بلکہ انھیں معاف کرتے رہے۔ درج ذیل روایات و واقعات سے آپ کے حسن اخلاق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 
*حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے نبیﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ لوگ مجھے جانتے نہیں‘‘ (أخرجہ ابن حبان في الصحح حدیث نمبر ۹۷۳) اور حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں؛صحابہ کرام نے آپ سے عرض کیا گیا: یا رسول ﷺ مشرکین کے خلاف بد دعا کر دیں تو آپﷺے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا یا عذاب بنا کر نہیں بھیجا گیا، مجھے تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ (اخرجہ البخاری فی الادب المفرد حدیث نمبر ۳۲۱) 
*حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو سنا سنا کر نعرہ لگانا شروع کیا: ’’الیوم یوم الملحمۃ‘‘آج کا دن تو قتل عام کا دن ہے۔ آج کعبہ کی حرمت بھی حلال کردی جائے گی۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے یہ بات پیارے نبیﷺ کو بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: سعد نے غلط کہا ہے۔ آج تو اللہ تعالیٰ کعبہ کو عظمت عطا فرمائے گا۔ اور آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔‘‘ (بخاری) اور حضرت امام عسقلانی کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺوسلم نے فرمایا: ’’آج کا دن رحمت کا دن ہے، اللہ تعالیٰ آج قریش کو عزت سے نوازے گا۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۰۳۰) 
یہ وہی ابو سفیان ہیں جن سرکردگی میں اسلام کے خلاف بہت سی جنگیں لڑی گئیں۔ انہی کی سرپرستی میں پیارے نبی ﷺ کے دندان مبارک کو شہید کیا گیا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرکے ان کے ناک کان کاٹ لیے گئے اور ان اک دل جگر نکال کر چبایا گیا اور ان کے ٹکڑے کرکے گلے کا ہار بنایا گیا ۔ یہ کوئی اور نہیں ابوسفیان کی بیوی ہندہ تھیں۔ ابھی تک دونوں نے اسلام قبول نہیں کیا اور وہ پیارے نبیﷺ کے قبضے میں بھی ہے۔ آپ چاہتے تو ان کے تکے بوٹی کر سکتے تھے۔ لیکن پیارے آقا ﷺ کا حسن سلوک کا یہ عالم کہ آپ جب فاتحانہ شان شوکت کے ساتھ مکہ میں داخل ہوتے ہیں تو ابوسفیان رضٰ اللہ عنہ کو بڑے اعزاز سے نوازتے ہیں؛ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اُسے امان حاصل ہے، جو شخص ہتھیار پھینک دے اُسے امان حاصل ہے، جو شخص اپنے گھر کے دروازے بند کر لے اُسے امان حاصل ہے۔‘‘ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۷۸۰) پھر حضرت ابو سفیان ایمان لا کر شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔ساتھ ہی آپ کی زوجہ حضرت ہندہ بھی مسلمان ہو گئیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنھما۔ 
*حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ''فتح خیبر'' کے موقع پر ایک یہودیہ نے بکری کے گوشت میں زہر ملا کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پیش کیا۔ آپﷺنے اُس گوشت میں سیکچھ کھایا تو وہ گوشت بول بڑا کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ پھر اُس عورت کو آپﷺ کے پاس لایا گیا،پوچھنے پر اُس نے کہا: میں نے (معاذ اللہ) آپ کے قتل کا ارادہ کیا تھا، آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے اِس پر یعنی مجھے مارنے پر قادرنہیں کرے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: (یا رسول اللہ ﷺ) کیا ہم اِسے قتل نہ کر دیں؟آپ نے فرمایا: نہیں اور اس یہودی عورت کو معاف فرما دیا حالاں کہ اُس زہر کا اثر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے منہ میں ہمیشہ پایا گیا۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۲۴۷۴)
*حضرت جابر بن عبد اللہ رضی عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ نجد کی جانب سفرِ جہاد کیا ۔پھر پیارے نبی ﷺ اور ہم بڑی کانٹے دار درختوں والی وادی میں پہنچے۔ آپﷺ ایک درخت کے نیچے جلوہ افروز ہوئے اور اپنی تلوار اُس درخت کی ایک شاخ کے ساتھ لٹکا دی۔باقی اصحاب آرام کی غرض سے دوسرے درختوں کے سائے میں ادھر اُدھر بکھر گئے۔ پھر جب صحابہ حضور ﷺ کے پاس آئے تو حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب میں سو رہا تھا تو میرے پاس ایک شخص آیا، اور اُس نے تلوار اُٹھا لی، جب میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ وہ شخص میرے سر پر کھڑا تھا، میں نے دیکھا کہ وہ شخص ہاتھ میں سونتی ہوئی تلوار لے کر کھڑا ہے۔ اُس نے مجھ سے پوچھا: (اے محمد!) اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے جواب دیا: اللہ، پھر اُس نے دوسری مرتبہ کہا: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا: اللہ۔ یہ سن کر وہ خوف زدہ ہوا اور تلوارنیچے گرا دی، سو وہ شخص یہ بیٹھا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس سے انتقام بھی نہیں لیا۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۳۹۰۵) 
*حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک غزوہ میں شریک تھے ۔ مجاہدین اسلام لڑتے رہے یہاں تک کہ دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو گیا پھر انھوں نے مشرکوں کو بہت زیادہ قتل کیا ۔ اسی درمیان بعض مجادین نے کچھ بچوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ یہ بات پیارے نبیﷺتک پہنچی تو آپ نے فرمایا: تعجب ہے ان لوگوں پر جن کے قتل کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے بچوں تک کو قتل کر ڈالا آخر انھیں کیا ہو گیا!!خبردار! بچوں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرنا! خبردار! بچوں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرنا!، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کیوں کیا وہ مشرکوں کے بچے نہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: کیا تم میں سے جو آج ان سے اچھے لوگ ہیں کیا کل یہ بھی مشرکوں کے بچے نہیں تھے؟ (نسائی شریف حدیث نمبر ۸۶۱۶) 
*حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے نبی ﷺنے نجد کی جانب کچھ سواروں کو روانہ فرمایا تو وہ بنی حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرکے لے آئے اور اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے ثمامہ! تمہارا کیا ارادہ ہے؟ جواب دیا: اے محمد! میرا ارادہ نیک ہے، اگر آپ مجھے قتل کریں تو گویا ایک خونی آدمی کو قتل کیا اور اگر احسان فرمائیں تو احسان پر شکر گزار رہوں گا۔ اگر آپ مال و دولت چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں لے سکتے ہیں۔ نبی ﷺ نے جواب نہ دیا اور واپس تشریف لے گئے۔ جب دوسرا روز ہوا تو آپ ﷺنے پھر فرمایا: اے ثمامہ! کیا ارادہ ہے؟ اُس نے وہی جواب دیاجو پہلے دے چکا تھا۔ کہ اگر احسان فرمائیں تو ایک شکر گزار بندے پر احسان ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُسے دوبارہ چھوڑ کر چلے گئے اور اگلے روز پھر فرمایا: اے ثمامہ! کیا خیال ہے؟ کہنے لگا: میں تو کہنے لگے کہ مجھے جو کہنا تھا کہ چکا ہوں۔ آپﷺنے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ ثمامہ رضٰ اللہ عنہ نبی رحمت ﷺ کے اس حسن اخلاق سے اتنا متاثر ہوا کہ وپ وہاں سے چلا اور مسجد کے قریب ایک باغ میں جاکر غسل کر کے مسجد نبوی میں آیا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اورکہنے لگا ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اے محمد! خدا کی قسم! مجھے روئے زمین پر کسی سے اتنی نفرت نہیں تھی جتنی آپ سے تھے۔ لیکن آج مجھے آپ کا چہرہ سب چہروں سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے۔ خدا کی قسم! آپ کے اسلام سے زیادہ مجھے کوئی دین ناپسند نہ تھا لیکن آج میریلیے آپ کا دین تمام ادیان سے زیادہ پیارا ہو گیا ہے، خدا کی قسم! مجھے آپ کے شہر سے زیادہ ناپسند کوئی شہر نہ تھا لیکن آج میری نظروں میں آپ کا شہر تمام شہروں سے زیادہ پیارا ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھے گرفتار کر لیا حالانکہ میں عمرہ کے ارادے سے جا رہا تھا۔ اب اس بارے میں آپ کا حکم کیا ہے؟ حضور نبی ﷺنے اُسے بشارت دی اور فرمایا کہ وہ عمرہ کرے۔ جب وہ مکہ مکرمہ میں پہنچا تو کسی نے اُس سے کہا: کیا تم بے دین ہوگئے ہو؟ جواب دیا: نہیں بلکہ میں تو محمد مصطفےٰ ﷺکے دست اقدس پر مسلمان ہوگیا ہوں۔ خدا کی قسم! اب تمہارے پاس پیارے نبیﷺ کی اجازت کے بغیر میرے شہر یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی نہیں پہنچے گا۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۱۱۴) 
*حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ایک جماعت کے ہمراہ راستے سے گزر رہا تھیکہ پیارے نبی ﷺکے مؤذن نے اذان پڑحنا شروع کیا۔ انھوں نے اذان سنی تودین اسلام اور پیغمبر اسلام سے نفرت کی وجہ سے اذان کی نقلیں اُتارنا شروع کر دیں اور مقدس اذان کا مذاق اُڑانے لگے۔ پیارے نبی ﷺ نے جب ان کی آوازوں کو سنا تو ان کی جانب کچھ لوگوں کو بھیجا جو انھیں پکڑ کر لائے اور آپ ﷺکے پاس لے جا کر بٹھا دیا۔ آپﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے اُونچی آواز کس کی تھی؟ لوگوں نے حضرت ابو مخذورہ کی طرف اشارہ کیا۔ آپﷺنے سب کو چھوڑ دیا اور ابومخذورہ کو پکڑ کر حکم دیا: اذان پڑھو! حضرت ابو مخذورہ کا بیان ہے میں پیارے نبیﷺ اور آپ کے حکم سے سخت نفرت کرتا تھے۔ میں پیارے نبی ﷺ کے سامنے کھڑا ہوا۔ آپﷺ نے خود مجھے اذان بتانی شروع فرمائی، فرمایا: کہو: اللہ اکبر اللہ اکبریعنی اذان کے کلمات پڑھوائے۔جب وہ اشھد ان محمد رسول اللہ تک پہنچا تو پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: دوبارہ ان کلمات کو بلند آواز سے کہو ’’ اشھد ان محمد رسول اللہ اشھد ان محمد رسول اللہ‘‘ ۔ جب میں اذان پوری کر چکا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے بلایا اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی پھر آپﷺنے میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر چہرے پر پھیر اور ااپنا ہاتھ میرے سینے پر پھیرا حتیٰ کہ ناف تک پھیرا، پھر فرمایا: اللہ تجھ پر برکت نازل فرمائے ۔ بس پھر کیا تھا حضرت ابو مخذورہ آپ کے اس حسن اخلاق سے متاثر ہو کر اُسی وقت مسلمان ہوگئے۔ اس کے بعد آپ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے مکہ میں مؤذن مقرر کر دیں! آپ ﷺنے فرمایا: ہاں میں تمہیں امیر بناؤں گا۔ اَس کے بعد پیارے نبی ﷺکے لئے آپ کے دل میں جو نفرت تھی وہ دور ہو گئی اور آپ ایک سچے عاشق رسول بن گئے۔ (ابن ماجہ فی السن؛ کتاب الاذان حدیث نمبر ۷۰۸) 
*حضرت عبد الرحمن بن ابو لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سہل بن حُنَیف اور حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہما’’ قادسیہ ‘‘ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ دونوں کھڑے ہو گئے۔ اُن سے کہا گیا کہ یہ تو یہاں کے کافر ذمی شخص کا جنازہ ہے۔ دونوں نے بیان فرمایا: ایک مرتبہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ عرض کیا گیا: یہ تو یہودی کا جنازہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ انسانی جان نہیں ہے۔‘‘ (اخرجہ البخاری في الأدب المفرد حدیث نمبر ۳۲۱) 
*حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس سے گزرا تو اُس نے کہا:’’ السام علیک‘‘ ’’ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ تجھ پر معاذ اللہ موت ہو۔ تو حضور نبی اﷺ نے فرمایا: ’’وعلیک‘‘ پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا: تم جانتے ہو یہ کیا کہتا ہے؟ اس شخص نے بد دعا کی اور کہا کہ تجھ پر موت ہو۔ لوگوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! ﷺ ہمیں اجازت دیں کہ اس بدبخت کا سر اڑا دیں! آپ ﷺنے منع فرما دیا اور کہا کہ جب اہل کتاب تمہیں سلام کیا کریں تو تم بھی اُنہیں ’’وعلیکم‘‘ کہہ دیا کرو۔ ( صحیح بخاری ؛ حدیث نمبر ۶۵۲۷) 
یہ نبی اکرم ﷺ کا اپنے دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کے چند واقعات تھے۔ نبی اکرم ﷺ سے نسبت ومحبت رکھنے والوں کو چاہیے کہ محسن کائنات کی سیرت و کردار کو اپنائیں! اگر ہم بھی اپنے مخالفین اور دشمنوں کے ساتھ اسی طرح حسن سلوک کا مظاہرہ کریں تو ہماری ساری عداوتیں اور نفرتیں محبتوں میں تبدیل ہو جائیں۔ لوگ حقیقت اسلام سے آشنا ہو جائیں اور ان کے ذہنوں سے اسلام دہشت گردی کا تصور ہی ختم ہو جائے۔ اللہ ہمیں سیرت رسول پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
21؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا