English   /   Kannada   /   Nawayathi

فکری ارتداد والحادکے واقعات کی روشنی میں لائحہ پر غوروخوض کے لیے شہر بنگلور میں منعقد ہوا مشاورتی اجلاس، ریاست بھر سے چنیدہ شخصیات نے کی شرکت 

share with us

ارتداد کا ایک واقعہ پوری امت کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے : علماء اور دانشوران کا اظہارِ خیال 

بنگلور 21؍ فروری 2019(فکروخبر نیوز) گذشتہ کئی سالوں سے تسلسل کے ساتھ نئی مسلم نسل بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ میں آنے والے فکری ارتداد والحاد کے واقعات کی روشنی میں لائحہ پر غوروخوض کے لیے صوبۂ کرناٹک کے مختلف اضلاع کے ذمہ داران کی ایک مشاورتی نشست کا انعقاد شہر کے مسجد نور مسلم یتیم خانہ ڈکنسن روڈ نزد حسنات گرلز کالج بنگلور میں کیا گیا جس میں ریاستی سطح کی چنیدہ شخصیات نے اس اہم مسئلہ پر اپنی مفید تجاویز پیش کرتے ہوئے اس اہم مسئلہ پر جلد از جلد اقدام کرنے کی بات کہی ۔
بانی وجنرل سکریٹری مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل مولانا محمد الیاس ندوی نے اپنے کلیدی خطاب میں ملک کے مختلف شہروں میں پیش آنے والے ارتداد کے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دعوتی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے آگے بڑھنے پر زور دیا۔ مولانا نے کہا کہ ہندوستان میں ایک ایسا نظامِ تعلیم تیار کیا گیا کہ تعلیم کے شوق میں لوگ گرائجویٹ اور دیگر ڈگریاں حاصل کرنے والے بنیں اور اس کی آڑ میں ان کے ایمان پر ڈاکہ ڈالا گیا ، اسی نظامِ تعلیم کا اثر تھا کہ روز بروز مسلم قوم کے اندر اسلام پر ان کے اعتماد میں کمی آتی چلی گئی جس کے سنگین نتائج ہمارے سامنے بڑا مسئلہ بن کر کھڑے ہیں۔ آج سے دس بارہ سال قبل کے حالات کا جائزہ لیا گیا تو مسلمانوں کے مسائل پر آواز اٹھانے والے غیر مسلم زیادہ تھے لیکن ابھی ایسے افراد خود اپنے ہیں جس کی کئی ایک مثال ملک میں موجود ہیں۔ مولانا نے اس دعوتی ذمہ دار ی کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ایک مسلم جج نے یہ مسئلہ اٹھایاکہ اسلام میں جس طرح مردوں کو چار بیویاں رکھنے کا حق ہیں اسی طرح عورت کو بھی چار مرد رکھنے کا حق ہونا چاہیے۔ اس کی ایک دوسری مثال یہ ہے کہ طلاقِ ثلاثہ پر جب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ملک بھر میں دستخطی مہم چلائی جس میں توقع سے زیادہ خواتین سے حصہ لیتے ہوئے اس مہم کو کامیاب بنایا ۔ اس موقع پر ایک بڑی تعداد ان دیندار گھرانے کی سمجھی جانے والی خواتین کی بھی تھی جنہوں نے دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ اب ملک میں ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں واقعات ارتداد کے متعلق سننے میں آرہے ہیں ۔ کہیں کھلم کھلا اسلام کو الوداع کہہ کر لوگ دوسرے مذاہب کو اختیار کررہے ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو فکری ارتداد کے شکار ہیں ۔ ہزاروں واقعات کو چھوڑئیے صرف ایک واقعہ پوری امت کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے۔ مولانا نے حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کہا کہ جب بھٹکل کے سفر کے دوران ایک صحافی نے ان سے امت کو درپیش مسائل کے متعلق سوال کیا تو مولانا نے دور بیں نگاہ سے دیکھتے ہوئے وقتی مسائل بیان نہیں کیے، مولانا نے کہا کہ شاہ بانو کا مسئلہ ہو یا اس جیسے دیگر مسائل جو وقت کے ساتھ ساتھ حل ہوجائیں گے لیکن سب سے اہم مسئلہ ایمان پر ہماری نسل کو باقی رکھنے کا ہے۔ مولانا علی میاں ندویؒ نے اس درد کو محسوس کرتے ہوئے اس کے لیے کوششیں کیں اور اس سلسلہ میں مولانا کا فکر اس درجہ کو پہنچ گیا تھاکہ مولانا اس مسئلہ پر آبدیدہ ہوجاتے اور روتے روتے حضرت کی ایک آنکھ بھی ضائع ہوگئی تھی ۔مولانا اگر آج کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہوئے تو ضرور خون کے آنسو روتے۔ مولانا نے کہا کہ حدیث میں بیان کیا گیا کہ قربِ قیامت کے قریب لوگ صبح کو مسلمان اور شام کو کافر ، شام کو مسلمان اور صبح کافر ہوجائیں گے۔ اس حدیث کا سمجھنا موجودہ دور میں جتنا آسان ہے اس سے قبل اتنا آسان نہیں تھا۔ اس حدیث کے تناظر میں غور وفکر کی دعوت دیتے ہوئے مولانا نے کہا کہ آج ہمارے بچے ایسے اسکولوں کا رخ کررہے ہیں جہاں دعا کے نام پر ان سے ایسے اعمال کرائے جاتے ہیں جس کے بعد اس کے اندر ایمان باقی نہیں رہتا ۔ وہی بچہ شام میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتا ہے ، دوسرے دن وہ پھر اسکول جاکر وہی اعمال دہراتا تو دوبارہ اسلام کے دائرہ سے باہر ہوجاتا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ گھر واپسی کے مسائل اچھالے جانے پر مولانا نے کہا کہ آج فرضی واقعات سے گھر واپسی کی خبریں بنائی جارہی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میرے اور آپ کے گھر میں روز گھر واپسی ہورہی ہے۔ 
قاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا محمداقبال ملا ندوی نے کہا کہ ارتداد کے واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو لڑکیوں کے مقابلہ میں لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لڑکیوں کی تعداد کے بارے میں ہمیں علم اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات معاشرہ کے سامنے آجاتے ہیں لیکن لڑکوں کی تعداد کا علم ہمیں نہیں ہوپاتا ۔ مولانا نے اپنے پورے خطاب میں تعلیم یافتہ طبقہ میں زیادہ کام کرنے پر زور دیا۔
مولانا شبیر صاحب بیجاپوری نے بھی اپنے خطاب میں اس فکری ارتداد اور الحاد کے سدباب کے لیے کوششیں کرنے پر زور دیا۔ 
مولانا عبدالنور فکردے ندوی نے نئی نسل کو آگے بڑھانے کے لیے ان کی دلچسپی کی اشیاء مہیاکراتے ہوئے اسلام سے قریب کرنے کی کوششیں کرنے پر زور دیا۔ انہو ں نے کہا کہ ائمہ اور خطباء عقلی طور پر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کو کہانیوں کے ذریعہ قریب کریں اور اس کے علاوہ یوٹیوب پر چھوٹے چھوٹے قصے اپلوڈ کرکے ان کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کی فکریں کریں۔ 
پروگرام میں بنگلور سمیت ریاست کے مختلف شہروں کے ذمہ داروں نے اس پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے اس کے سد باب کے لیے اپنی مفید آراء سے نوازیں۔ ظہر کے قریب یہ مشاروتی اجلاس اپنے اختتام کو پہنچا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا