English   /   Kannada   /   Nawayathi

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے ، جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی 

share with us

عبدالعزیز

جنگی جنون نہ کسی فرد کیلئے کار آمد ہوتی ہے اور نہ کسی قوم ، جماعت اور گروہ کیلئے مفید ہوتی ہے۔ ساحر لدھیانوی نے سچ کہا ہے کہ ’’جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی‘‘۔ جب جنگ یا لڑائی ہوتی ہے تو مسائل مزید پیچیدہ ہوتے ہیں اور پہلے سے کہیں مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ تاریخ نے دیکھا ہے کہ فرد جس پر جنگی جنون سوار ہوتا ہے اور کسی کی مخالفت میں پاگل ہوجاتا ہے تو اس کا حشر اچھا نہیں ہوتا۔ ہٹلر جنگی جنون میں جب مبتلا ہوا تو اس نے پوری دنیا کو فتح کرنے اور پورے عالم کا سربراہ بننے کا خواب دیکھا، لیکن اس کا خاتمہ دنیا کو معلوم ہے کہ اسے روپوش ہونا پڑا اور بالآخر خودکشی کرنی پڑی۔ نہ فاتح عالم بن سکا اور نہ سربراہ عالم۔ تاریخ میں بھی اس کا نام ایک ڈکٹیٹر اور ظالم کی حیثیت سے لکھا جاتا ہے بلکہ وہ دنیا کیلئے ظلم اور زیادتی کی علامت بن چکا ہے۔ جب کوئی حد سے زیادہ ظلم کرتا ہے تو اسے دنیا ہٹلر ثانی کہتی ہے۔ 
کشمیر کے پلوامہ ضلع میں دہشت گردوں کے حملے سے 40 سے زیادہ فوجی جوان ملک کی سا لمیت کا تحفظ کرتے ہوئے ہلاک ہوئے، جس نے پورے ملک کو ہلا دیا۔ بدلہ اور انتقام کا جذبہ غصے اور طیش میں ایک فطری چیز ہے۔ زندگی قدرت کا بہترین تحفہ ہے جس کی تباہی کے تصور سے بھی دل کانپ جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ڈاکٹر اور طبیب انسان کی زندگی کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں اور صحت و تندرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر اور طبیب دن رات امراض اور بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ لوگ بیماریوں اور امراض پر قابو پائیں اور انسانی زندگی موت سے یا ہلاکت سے بچ جائے۔ ہر سال کروڑوں اور اربوں روپئے عالمی پیمانے پر علاج کے نئے نئے طریقے ڈھونڈنے کیلئے خرچ کئے جاتے ہیں تاکہ انسان زندگی بہتر سے بہتر طور پر گزارے۔ موت زندگی کے خاتمے کا نام ہے جسے ڈاکٹر بچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر قسم کے تشدد کی مخالفت کی جائے۔ ہمارے برصغیر ہندو پاک کی بدقسمتی ہے کہ ہم پر جنگ اور تشدد کے بادل چھائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہتھیاروں کی دوڑ میں دونوں ممالک مبتلا ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں سے ہندستان اور پاکستان میں ہر سال سیکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ستمبر2018ء میں ہوم لینڈ سکریٹری سائنس اور ٹیکنالوجی سنٹر کے سروے کے مطابق عالمی پیمانے پر 2017ء میں 8,584 دہشت گردانہ حملے ہوئے جس کی وجہ سے 18,753 لوگوں کی اموات واقع ہوئیں۔ اور 19,461 آدمی زخمی ہوئے۔ اسی سال یعنی 2017ء میں پاکستان میں 574 دہشت گردانہ حملے ہوئے اور 874 جانیں تلف ہوئیں۔ ہندستان میں 860حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 380لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ دونوں ملکوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ 2001ء میں ہندستانی پارلیمنٹ پر اور 2008ء میں بمبئی میں پاکستانی دہشت گردوں کا حملہ ہوا۔ پشاور میں نہایت بھیانک قسم کا دہشت گردانہ حملہ اسکولی بچوں پر ہوا۔ یہ سارے حملے ایسے ہیں کہ ان کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ ان حملوں میں کتنے لوگ ہیں جن کی آنکھیں اور جسم کے دیگر حصے اور دماغی حالت متاثر ہوئے اور صحتمند زندگی گزارنے سے قاصر ہیں۔ بے شمار بچے ان حملوں کے نتیجے سے تعلیم اور ماں باپ کے پیار اور محبت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ہزاروں خاندان تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں۔ ایسے واقعات و سانحات سے انتقامی جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود ان حالات میں سنجیدگی اور تدبر کے ساتھ معاملات سے نپٹنا ضروری ہے۔ شعلہ بیانی اور بیان بازی سے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جنگ سے انسانی زندگی اور انسانی صحت پر بڑا برا اثر پڑتا ہے۔ ماحول پراگندہ ہوتا ہے اور ہزاروں بیماریوں کے نتیجے میں جو اموات ہوتی ہیں اور لوگ معذور و مفلوج ہوجاتے ہیں اس کے مقابلے میں جنگوں سے کہیں زیادہ اموات ہوتی ہیں اور لوگ مفلوج اور معذور ہوجاتے ہیں۔ اس سے خاندان، فرقے اور بسا اوقات سارا کلچر تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ 
آج کے حالات میں جارحانہ یا اشتعال انگیز گفتگو دونوں ملکوں کیلئے تباہ کن ہے۔ اس لئے کہ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی طاقت موجود ہے۔ اور جنگ کے زمانے میں اس کے استعمال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا جانتی ہے کہ جاپان کے ہیرو شیما اور ناگاساکی ایٹم بم برسانے سے دو لاکھ افراد کی جانیں تلف ہوئی تھیں اور اس کے اثرات 70، 75سال گزرجانے کے باوجود باقی ہیں۔ آج کے جو نیوکلیئر ہتھیار ہیں وہ پہلے سے زیادہ خطرناک اور ہلاکت انگیز ہیں۔ سو نیوکلیئر ہتھیار سے 20لاکھ لوگوں کی جانیں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ اجتماعی طور پر دہشت گردی کے خطرات سے نپٹنے کی کوشش کی جائے۔ دہشت گردی غیر انسانی اور حیوانی عمل ہے۔ جہاں اپنے ملک کی سا لمیت اور حاکمیت کے تحفظ کی ضرورت ہے وہیں دہشت گردی کے خلاف مل جل کر لڑنے کی بھی ضرورت ہے۔ سیول سوسائٹی اور عام لوگوں کو دونوں ملکوں میں یکساں طور پر دہشت گردوں سے لڑنا ہوگا۔ اور دونوں ملکوں میں غربت، افلاس، امراض اور جہالت سے جنگ کرنی ہوگی۔
2014ء میں انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے پٹنہ کے ایک جلسہ میں کہا تھا کہ دونوں ملکوں کو آپس میں لڑنا نہیں چاہئے۔ اگر لڑنا ہے تو افلاس، جہالت اور امراض سے ہم مل جل کر لڑیں تاکہ غربت اور امراض اور جہالت سے دونوں ملکوں کو نجات ملے۔ آج انہی باتوں کو دہرانے کی ضرورت ہے۔ عمل کرنے کی ضرورت ہے اور دونوں طرف سے بڑے مدبر اور بڑے سیاست داں کی ضرورت ہے جو حالات کو سمجھ سکیں، حالات سے نپٹ سکیں اور حالات پر قابو پاسکیں۔ ساحر لدھیانوی نے دونوں ملکوں کے تناؤ اور جنگی جنون پر بہت پہلے ’’اے شریف انسانو!‘‘ کے عنوان سے ایک نظم کہی تھی وہ نظم آج بھی ہمارے لئے سننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے: 

اے شریف انسانو
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدانِ کشت وخوں ہی نہیں
حاصلِ زندگی خِرد بھی ہے
حاصلِ زندگی جنوں ہی نہیں
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ، وحشت سے بربریّت سے
امن، تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ، مرگ آفریں سیاست سے
امن، انسان کی بقا کے لئے
جنگ، افلاس اور غلامی سے
امن، بہتر نظام کی خاطر
جنگ، بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن، بے بس عوام کی خاطر
جنگ، سرمائے کے تسلّط سے
امن، جمہور کی خوشی کے لئے
جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پُر امن زندگی کے لئے


مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
19؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا