English   /   Kannada   /   Nawayathi

محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک:قسط نمبر03

share with us


 

سلطان الملت یمین الدولہ سلطان محمود غزنوی:قسط نمبر 03

آفتاب عالم دتگیر پٹیل کروشی


سلطان محمود غزنوی اپنے باپ سبکتگین کی وفات پر ۹۹۷ ؁ ء میں غزنی کا حاکم ہوا ،اس وقت اس کی عمر ۲۶ سال کی تھی۔وہ بڑا بہادر سپاہی اور قابل جرنیل تھا۔تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ محمود دینی اور دنیاوی اعتبار سے کئی ساری خوبیوں کا مالک تھا۔ اپنی بہادری ، عدل و انصاف ، انتظام سلطنت کی وجہ سے مشہور ہوا۔کتاب ’’ منہاج السراج ‘‘ میں جو زجانی لکھتا ہے کہ سلطان محمود کے پیدا ہونے سے ایک گھڑی پہلے اس کے باپ سبکتگین نے خواب میں دیکھا کہ اس کے مکان میں آتش دان کے اندر سے ایک درخت نکلا اور اس قدر بلند ہوا کہ ساری دنیا اس کے سائے میں آگئی، سبکتگین کی جب آنکھ کھلی تو وہ اس خواب کی تعبیر کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کے اتنے میں ایک شخص نے آکر محمود کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی، یہ خبر سن کر سبکتگین کو بے انتہا خوشی ہوئی ، یہی لڑکا بڑا ہوکر ایک بہت بڑا حکمران بنا جسے دنیا آج محمود غزنوی کے نام سے جانتی ہے۔
محمود غزنوی کے حملے: محمود نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے جن میں مندرجہ ذیل بہت مشہور ہیں:


۱۔ جئے پال پر چڑائی : محمود نے پہلا حملہ ۱۰۰۱ ؁ء میں راجہ جئے پال حاکم لاہور پر کیا۔ اس میں راجہ جئے پال کو شکست ہوئی ۔لگاتار شکستیں کھانے سے راجہ جئے پال شرمندگی برداشت نہ کر سکا ۔چنانچہ وہ چتا میں بیٹھ کر زندہ جل مرا۔اس کے بعد اس کا بیٹا انند پال تخت کا مالک بنا۔


۲۔انند پال کی شکست : ۱۰۰۸ ؁ء میں محمود نے انند پال حاکم لاہور پر حملہ کیا ، انند پال نے دہلی، قنوج، اجمیر، گوالیار، کالنجر اور اُجین کے راجاؤں کی مدد سے محمود کا مقابلہ کرنے کے ایک بھاری فوج تیار کی، پیشاور کے قریب لڑائی ہوئی چالیس روز تک خونریز جنگ ہوتی رہی محمود کو شکست ہونے والی تھی کے کہ راجہ انند پال کا ہاتھی ڈر کر پیچھے کو بھاگ نکلا اس سے ہندو فوج میں کھلبلی مچ گئی اور ہندوؤں کی جیت ہار میں تبدیل ہوگئی۔انند پال اس شکست کے بعد ہی مر گیا۔


۳۔ نگر کوٹ ( کانگڑہ) پر حملہ: ۱۰۰۹ ؁ ء میں محمود نے نگر کوٹ کے مندر پر حملہ کیا یہاں کے مشہور مندر سے محمود کو بے انتہا دولت ہاتھ آئی جس کو لوٹ کر محمود واپس غزنی چلا گیا۔


۴۔ قنوج پر حمل اور متھرا کی تباہی: ۱۰۱۸ ؁ ء میں محمود نے قنوج کے مقم پر حملہ کیا ۔ قنوج کے راجہ نے اس کی اطاعت قبول کرلی ۔قنوج سے واپس جاتے اس نے کشمیر اور متھرا کے مندروں کو لوٹا ۔متھرا ہندوؤں کا مشہور تیرتھ ہے۔جس میں سنگ مر مر کے عظیم الشان مندر بنے ہوئے ہیں، محمود نے ان مندروں کو مسمار کر دیا اور مورتیاں توڑ ڈالیں۔یہاں بھی بے شمار دولت محمود کے ہاتھ آئی جس کو لے کر وہ غزنی چلا گیا۔


۵۔ لاہور پر حملہ : ۱۰۲۱ ؁ ء میں محمود نے راجہ جئے پال دوم حاکم لاہور پر حملہ کردیا۔جس میں محمود کو فتح ہوئی اور اس نے پنجاب سلطنت غزنی کا حصہ بنا کر اس پر ایک مسلمان گورنر مقرر کیا ۔

 


۶۔سومناتھ پر حملہ : محمود کا سب سے مشہور اور آخری حملہ ۱۰۲۴ ؁ء میں سومناتھ کے مندر واقع گجرات پر تھا ،سومناتھ کا مندر اس زمانے میں پرانا اور مقدس خیال کیا جاتا تھااس میں ایک ہزار برہمن پوجا پاٹھ کے لئے اور پانچ سو عورتیں بھجن گانے کے لئے مقرر تھیں۔ ہر روز شِو جی کی مورتی کو گنگا جل سے اشنان کرایا جاتا تھا۔اس کی شہرت سن کر محمود ریگستان سندھ کا ۳۵۰ میل لمبا سفر طے کرکے سومناتھ تک جا پہنچا ۔راجپوتوں نے اس مندر کی حفاظت میں محمود کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تین روز بڑی خونریز لڑائی ہوئی۔آخر محمود کی فتح ہوئی ۔جب محمود مندر میں داخل ہوا تو پچاریوں نے التجا کی کے اگر وہ سومناتھ دیوتا کی مورتی کو نہ توڑے تو وہ اسے بے شمار دولت دینے کو تیار ہیں۔مگر محمود اس بات سے انکار کیا اور فوراََ ہی مورتی توڑ ڈالی اور بے شمار مال و دولت لے کر غزنی چلا گیا ۔


عجیب و غریب بت :

https://1.bp.blogspot.com/-nz6sY668te4/XE56ml-R8xI/AAAAAAAAB9k/tIpViuHtaY0CZCWiWA9DpohmyJ28wKvYQCLcBGAs/s640/45656090_1738437339593603_317304560586305233_n.jpg https://1.bp.blogspot.com/-nz6sY668te4/XE56ml-R8xI/AAAAAAAAB9k/tIpViuHtaY0CZCWiWA9DpohmyJ28wKvYQCLcBGAs/s640/45656090_1738437339593603_317304560586305233_n.jpg

 


’’ جامع الحکایات ‘‘ میں مذکور ہے کہ سلطان محمود نے نہروالہ کے سفر میں شہر کے مندر میں ایک ایسا بت بھی دیکھا جو بغیر کسی سہارے کے ہوا میں معلق تھا ۔سلطان اس بت کو دیکھ کر بہت حیران ہوا، اس نے اپنے دربار کے علماء فضلاء سے اس کی وجہ پوچھی ان لوگوں نے بہت غور وخوص کے بعد جواب دیا کہ اس بت خانے کی چھت اور تمام دیواریں مقناطیسی پتھر کی بنی ہوئی ہیں اور یہ بت لوہے کا ہے ۔آس پاس کی مقناطیسی کشش اور اس بت میں خاص تعلق ہے ہر جگہ کی کشش مساوی ہونے کی وجہ سے بت کسی ایک طرف جھکنے نہیں پاتااور بالکل درمیان میں معلق ہوگیا ہے،اس بات کو آزمانے کے لئے سلطان نے حکم دیا کہ اس بت خانے کی ایک دیوار گرادی جائے فوراََ اس حکم کی تعمیل کی گئی جو نہی ایک جانب کی دیوار گری بت بھی زمین پر گر پڑا۔

محمود کے حملوں کا نتیجہ : محمود نے ہندوستان پر سترا حملے کئے لیکن سوائے پنچاب شامل کرنے کے کوئی اسلامی سلطنت ہندوستان میں قائم نہیں کی ۔اس کا مُدعاہندوستان پر اسلامی حکومت قائم کرنے کا نہیں تھا بلکہ اسکا مقصد ہندوستان کی دولت لوٹنا اور مذہب اسلام کی اشاعت تھا۔اس کے حملوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ پنجاب میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی۔ مسلمانوں کے لئے باقی ہندوستان فتح کرنا آسان ہوگیا ۔کیونکہ اس کے لگاتار حملوں سے شمالی ہند کی راجپوت ریاستیں کمزور ہوگئیں تھیں۔

 

 

 

محمود کا عدل و انصاف :

 

 

https://2.bp.blogspot.com/-LvCLCd6AHiU/XE57VZQtUcI/AAAAAAAAB9s/MbNQBAr3KY0lz1Q9QM0_JRZ5t8jnam4VwCLcBGAs/s640/21143_34463271.jpg https://2.bp.blogspot.com/-LvCLCd6AHiU/XE57VZQtUcI/AAAAAAAAB9s/MbNQBAr3KY0lz1Q9QM0_JRZ5t8jnam4VwCLcBGAs/s640/21143_34463271.jpg

 


محمود کے عدل و انصاف کے بہت سے واقعات مشہور ہیں جس میں سب سے زیادہ مشہور اور اہم واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک روز ایک شخص محمود کے دربار میں انصاف حاصل کرنے کے لئے حاضر ہواجب محمود اس کی طرف متوجہ ہوا تو اس شخص نے عرض کیا ’’ میری شکایت ایسی نہیں ہے کہ میں اسے سر دربار سب لوگوں کے سامنے بیان کر دوں ‘‘ محمود فوراََ اٹھا اور اسے اکیلے میں لے جا کر اس کا حال پوچھا اس شخص نے کہا ’’ آپ کے بھانجے نے ایک عرصے سے روش اختیار کر رکھی ہے کہ وہ رات کو مسلح ہوکر میرے گھر پر آتا ہے اور اندر داخل ہوکر مجھے کوڑے مار مار کر باہر نکالتا ہے اور پھر خود تمام رات میری بیوی کے ساتھ ہم بستری کرتا ہے میں نے ہر امیر کو اپنا حال سنایا لیکن کسی کو میری حالت پر رحم نا آیا اور کسی کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ وہ آپ سے یہ بات بیان کرتا جب میں ان امراء سے مایوس ہوگیا تو میں نے آپ کے دربار میں آنا شروع کر دیا ۔اور اس موقع کے انتظار میں رہا کہ جب آپ سے اپنا حال بیان کر سکوں ، اتفاق سے آپ میری طرف متوجہ ہوئے ہیں تو میں نے آپ سے اپنی داستان بیان کر دی ۔خدا وند تعالیٰ نے آپ کو ملک کا حاکم اعلیٰ بنایا ہے اس لئے رعایا اور کمزور بندوں کی نگہداشت آپ کا فرض ہے۔اگر آپ مجھ پر رحم فرما کر میرے معاملے میں انصاف کریں گے تو زہے نصیب ورنہ میں اس معاملے کو خدا کے سپرد کروں گا اور اس کے منصفانہ فیصلے کا انتظار کروں گا ’’ محمود پر ان واقعات کا بہت اثر ہوا اور وہ یہ سب کچھ سن کر رونے لگا اور اس شخص سے یوں مخاطب ہوا ’’ ائے مظلوم تو اس سے پہلے میرے پاس کیوں نہیں آیا اور اتنے دنوں تک یہ ظلم کیوں برداشت کرتا رہا‘‘ اس شخص نے جواب میں کہا ’’ اے بادشاہ میں ایک مدت سے یہ کوشش کر رہا تھا کہ کسی طرح آپ کے حضور حاضر ہو سکوں لیکن دربار کے چوکیداروں اور دربانوں کی روک تھام کی وجہ سے کامیابی حاصل نہ ہو سکی ۔یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ آج میں کس تدبیر اور بہانے سے یہاں تک پہنچا ہوں اور کس طرح ان چوکیداروں کی نظر بچا کر آپ کے حضور میں حاضر ہوا ہوں ہم جیسے فقیروں اور غریبوں کی ایسی قسمت کہاں ہے کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سکطانی دربار میں چلے آئیں اور بادشاہ سے بالمشافہ اپنی اپنی رودادغم بیان کریں ۔محمود نے جواب دیا تم یہاں مطمئن ہو کر بیٹھو ، لیکن اس ملاقات کا حال کسی کو نہ بتانا اور اس بات کاخیا ل رکھو کہ جب وہ سفاک تمہارے گھر میں آکر تمہاری بیوی کی آبرو ریزی کرے تو فوراََ اسی وقت مجھے اطلاع دینا پھر میں تمہارے ساتھ انصاف کروں گا اس سفاک کو اس کی بدکاری کی سزا دوں گا۔ ’’ اس شخص نے یہ سن کر کہا ۔۔۔۔’’ اے بادشاہ ! مجھ جیسے نادار شخص کے لئے یہ ناممکن ہے کہ جب چاہوں بلا کسی روک ٹوک کے آپ سے مل سکوں ‘‘ اس پر محمود نے اسی وقت دربانو ں کو بلایا اور ان سے اس شخص کو متعارف کروا کر دربانوں کو حکم دیا ۔’’جس وقت بھی یہ شخص ہمارے حضور میں آنا چاہے اسے بغیر کسی اطلاع اور روک ٹوک کے آنے دیا جائے اس سے کسی قسم کی باز پرس نہ کی جائے۔‘‘
ان دربانوں کے رخصت کے بعد سلطان محمود نے اس شخص سے چپکے سے کہا ’’ اگر چہ میرے حکم کے مطابق یہ لوگ تمہیں یہاں آنے سے روکنے کی جرات نہ کریں گے، لیکن پھر بھی احتیاطََ تمہیں یہ بتائے دیتا ہوں کہ اگر کبھی اتفاقاََ چوکیدار میرے آرام کا عذر کرکے تمہیں روکنا چاہیں اور میرے پاس نہ آنے دیں تو تم فلاں جگہ سے چھپ کر چلے آنا اور آہستہ سے مجھے آواز دینا میں یہ آواز سنتے ہی تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا اس گفتگو کے بعد محمود نے اس شخص کو رخصت کیا اور خود اس کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔
وہ شخص اپنے گھر آیا دو راتیں تو آرام سے گزار دیں اور کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا اسے محمود سے ملاقات کی ضرور پیش آتی۔ تیسری شب اس شخص کا رقیب ( یعنی سلطان محمود کا بھانجا) حسب دستور اس کے گھر آیا اور اسے مار کر گھر سے نکا ل دیا اور خود اس کی بیوی کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول ہوگیا۔ وہ شخص اسی وقت دوڑتا ہوا بادشاہی محل کی طرف آیا اس نے دربانوں سے کہا کہ بادشاہ کو اس کی آمد کی اطلاع دی جائے ۔دربانوں نے جواب دیا بادشاہ اس وقت دیوان خانے کی بجائے اپنی حرم سرا میں ہے اس لئے اس تک اطلاع کا پہنچانا نا ممکن ہے‘‘ وہ شخص مایوس ہوکر اس جگہ پہنچا جس کے بارے میں سلطان نے اس کو بتارکھا تھا یہاں اس نے آہستہ سے کہا ’’ اے بادشاہ اس وقت آپ کس کام میں مشغول ہیں ؟ ‘‘ سلطان محمود نے جواب دیا ٹہرو میں آتا ہوں ‘‘ تھوڑی دیر کے بعد محمود باہر آیا اور اس شخص کے ساتھ اس کے گھر پہنچا وہاں جا کر سلطان نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کا بھانجا اس غریب شخص کی بیوی سے ہم آغوش ہو کر سویا ہوا ہے اور شمع اس کے پلنگ کے سرہانے جل رہی ہے ۔محمود نے اسی وقت شمع کو بجھایا اور اپنا خنجر نکال کر اس ظالم کا سر تن سے جدا کردیا اس مظلوم شخص سے کہ جس کے گھر میں محمود آیا ہو ا تھا محمود نے کہا ’’ ائے بندہء خدا ایک گھونٹ پانی اگر تجھے مل سکے تو فوراََ لے آ تاکہ میں اپنی پیاس بجھاؤں۔
اس شخص نے فوراََ پیالے میں پانی لاکر سلطان کی خدمت میں پیش کیا ۔محمود نے پانی پیا اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نادار سے یوں مخاطب ہوا ۔’’ اے شخص اب تو اطمینان کے ساتھ آرام کر میں جاتا ہوں ‘‘اور رخصت ہونے لگا لیکن اس شخص نے بادشاہ کا دامن پکڑ لیا اور کہا ’’ ائے بادشاہ ! تجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جس نے تجھے اس عظیم الشان مرتبے پر سرفراز کیا ہے تو مجھے یہ بتا کہ شمع گل کرنے اور سفاک کا سر تن سے جدا کرنے کے فوراََ بعد پانی مانگنے اور پینے کی وجہ کیا ہے اور تو نے کس طرح اس قصے کو ختم کیا۔’’ سلطان محمود نے جواب دیا ۔ائے شخص میں نے تجھے ظالم سے نجات دلا دی ہے اور اس ظالم کا سر میں اپنے ساتھ لئے جاتا ہوں ۔شمع کو میں نے اس لئے بجھا دیا تھا کہ کہیں اس کی روشنی میں مجھے اپنے بھانجے کا چہرہ نظر نہ آجائے اور میں اس پر رحم کھا کر انصاف سے باز نہ رہ سکوں ۔ پانی مانگ کر پینے کی وجہ یہ تھی کہ جب تم نے مجھ سے اپنی روداد غم بیان کی تھی تو میں نے عہد کیا تھا کہ جب تک تمہارے ساتھ پورا پورا انصاف نہ ہوگا تب تک نہ میں کھانا کھاؤں گا نہ پانی پیوں گا‘‘ قارئینِ کرام اس قصے سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر چہ تاریخوں میں بادشاہوں کے عدل و انصاف کے بہت سے قصے لکھے ہیں لیکن ایسا قصہ کسی بادشاہ کے متعلق نہیں ملتا ۔( و اللہ اعلم بالصواب ) تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ نمبر
۹۰

 

جب سلطان محمود غزنوی کی قبر کو کھولاگیا تو کیا ہوا؟

 

https://3.bp.blogspot.com/-_USxVBfFXyA/XE58k4udUEI/AAAAAAAAB94/FMkYL2TlynI3VidyCTKBaNwJFT2yeMxLACLcBGAs/s640/27553176.jpg https://3.bp.blogspot.com/-_USxVBfFXyA/XE58k4udUEI/AAAAAAAAB94/FMkYL2TlynI3VidyCTKBaNwJFT2yeMxLACLcBGAs/s640/27553176.jpg

 

 

 

 

1974 میں شہر غزنوی میں زلزلہ آیاجس سے سلطان محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی اور مزار بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تو اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ مرحوم نے دوبارہ مزار کی تعمیر نو کی اور قبر کو مرمت کروایا۔ تعمیر کے مقصد کے لئے قبر کو پورا کھول دیا گیا کیونکہ قبر نیچے تک پھٹ گئی تھی جب قبر کو کھولا گیا تو قبر کے معمار اور قبر کی زیارت کرنے والے حیران رہ گئے کہ قبر کے اندر سے ہزار سال سے مرے ہوئے اور تابوت کی لکڑی صحیح سلامت ہے سب لوگ حیران اور ورطہ حیرت کا شکار ہوگئے تابوت صحیح سلامت ، ہزار سال گزرنے کے باوجود ، حکام نے تابوت کو کھولنے کا حکم دیا تو جس آدمی نے کھولا تو پلٹ کر پیچھے گرا اور بےہوش ہوگیا تو جب پیچھے لوگوں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ سلطان جو تینتیس سال حکومت کرکے مرا اور مرے ہوئے ہزار سال گزر چکے ہیں وہ اپنے تابوت میں ایسے پڑا تھا جیسے کوئی ابھی اس کی میت کو رکھ کے گیا ہے اور اس کا سیدھا ہاتھ سینے پر تھا الٹا ہاتھ اور بازو جسم کے متوازی سیدھا تھا اور ہاتھ ایسے نرم جیسے زندہ انسان کے ہوتے ہیں اور ہزار سال مرے بیت چکے ہیں یہ اللہ تعالیٰ نے ایک جھلک دیکھائی کہ جو میرے محبوب کی غلامی اختیار کرتے ہیں وہ بادشاہ بھی ہو گئے تو وہ اللہ کے محبوب بن کے اللہ کے پیارے بن کے اللہ کے دربار میں کامیاب ہو کر پیش ہوگے۔

 

محمود ایک بہاد سپاہی ،زبردست جرنیل اور عظیم الشان فاتح تھا۔ محمود بڑا علم دوست اور فارسی علم ادب کا مربی تھا۔اسی لئے اس کے دربار میں فردوسی، البرونی ،عنصری اور بلخی جیسے عالم اور شعراء موجود تھے۔ اس نے اپنے دارالخلافہ غزنی میں کئے عظیم الشان مساجد اور محلات تعمیر کروائے ،چشمے حوض اور حمام بنوائے ۔اشاعت علم کے لئے اس نے ایک یونیورسٹی قائم کی اس کے ساتھ ایک لائبریری اور ایک عجائب گھر بھی بنوایا ، طلباء کے لئے وظائف مقرر کئے۔ اس طرح اس نے بے شمار دولت اپنے وطن کی ترقی اور رعایا کی بہتری میں خرچ کی۔ ۱۰۳۰ ؁ء میں ۶۳ سال کی عمر میں وفات پائی۔

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا