English   /   Kannada   /   Nawayathi

آج کے حالات میں جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے 

share with us

دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کو ہم کیسے مجبور یا قائل کرسکتے ہیں؟

تحریر: آکار پٹیل ۔۔۔ ترتیب و تبصرہ: عبدالعزیز

’’ہندستان پاکستان کے عسکریت پسند گروہوں سے دو طریقے سے نپٹ سکتا ہے۔ یہ باتیں ناصحانہ معلوم ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے ابھی تک اس سے کچھ سیکھا نہیں ہے۔ پہلا اپروچ پاکستان کو قائل کرنے کیلئے جو صحیح ہوسکتا ہے وہ اپنانا چاہئے۔ پاکستان جیسے ملک میں دہشت گردی کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس پر قابو پانے کیلئے کچھ ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جس سے ہمارا نقصان نہ ہو۔ ہندستان پاکستان کو کیسے اپروچ کرسکتا ہے۔ ہم اسے تین طریقوں میں سے ایک طریقہ اپناسکتے ہیں اور ہمارے سامنے صرف تین ہی طریقے ہیں ، کوئی چوتھا طریقہ نہیں ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ پاکستان کو ہم سب کرنے پر مجبور کریں جو ہم چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دھمکی اور طاقت کا استعمال کریں۔ ہم ان کو قائل کریں کہ ہمارے پاس فوجی طاقت زیادہ ہے اور ہم انھیں شکست دے سکتے ہیں یا پھر ہم اپنے آپ کو قائل کریں کہ ہم اسے کرسکتے ہیں اپنی فوجوں کے بل بوتے پر۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں یعنی امریکہ، چین اور اقوام متحدہ کی مدد سے پاکستان کو مجبور کریں، جس کا مطلب ہوتا ہے ثالث (Mediation) کی مداخلت۔ تیسرا طریقہ ہے پاکستان کو قائل کرنے کیلئے گفت و شنید کا طریقہ، جسے ہم شملہ معاہدہ کے تحت تسلیم کرچکے ہیں۔ 
ہمیں اصل میں کیا حاصل کرنا ہے، یہ پھر سے واضح ہونا چاہئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان جہادیوں کی سرگرمیوں کو اپنی زمین پر بند کرے تاکہ ہمیں نقصان نہ پہنچے۔ یہی وہ تین طریقے ہیں جس کے ہم خواہش مند ہیں۔ اب اس کی روشنی میں ہم آخر کیا کرسکتے ہیں؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ جب تک کہ سرحد پار کی دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ہم بات چیت کا سلسلہ شروع نہیں کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سلسلہ بند نہیں ہوتا۔ کشمیر میں پہلے چار ہزار پانچ سو لوگ ہر سال مارے جاتے تھے۔ 2001ء سے 2002ء تک تشدد میں کمی آئی۔ گزشتہ سال 457 لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔ جس میں 95 فوجی شامل ہیں۔ اس طرح دس سال تک کم و بیش یہی حال رہا۔ لیکن تشدد جاری ہے جو ناقابل قبول ہے۔ اسے بند ہونا چاہئے، لیکن بات چیت سے ہم اسے نہیں روک سکے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جسے ہم اکثر کہا کرتے ہیں کہ ہم تیسری پارٹی کی مداخلت ہر گز نہیں چاہتے۔ 1971ء میں اندرا گاندھی نے پاکستان کو باہمی گفتگو کیلئے مجبور کیا تھا اور جس کے نتیجے میں ’شملہ معاہدہ ‘ہوا اور کسی باہری طاقت کی مدد نہیں لینی پڑی۔
اب ہم پیچھے کی طرف جاتے ہیں کہ اب تینوں طریقوں کے پیش نظر غور کرتے ہیں باہمی گفتگو اور ثالث کی مداخلت دونوں طریقے سے پنجہ جھاڑ لیتے ہیں۔ شملہ معاہدہ بھی ثالث کے طریقے کو رد کرتا ہے۔ اب بچتا ہے طاقت کا استعمال۔لیکن 1998ء سے آج تک یہ غیر یقینی صورت حال قائم و دائم رہی۔ اندرا گاندھی نے 1971ء محض اس لئے کامیابی حاصل کی تھی کہ کسی پاس نیوکلیئر ہتھیار نہیں تھا اور ہم لوگوں کو پاکستان پر فوجی برتری حاصل تھی۔ اب یہ چیز یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ اس لئے کہ پاکستان کے پاس بھی نیوکلیئر ہتھیار ہے اور ہمارے پاس بھی۔ دونوں کیلئے جنگ کے میدان میں کودنا محال ہے۔ اگر یہ بات کہی جاتی ہے تو حکومت کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک میں سے کوئی جنگ کے میدان میں جانا پسند نہیں کرے گا۔ میرے خیال سے عقل مندی اور حکمت عملی کا استعمال ضروری ہے۔ لیکن میں کیا رائے رکھتا ہوں یہ چیز اہم نہیں ہے۔ در اصل ہم ممکنات کی تلاش میں ہیں۔ مذکورہ تجزیہ ہمیں مضحکہ خیز اختتام تک پہنچاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نہ ہم دھمکی دے سکتے ہیں، نہ ثالث کا استعمال کرسکتے ہیں اور نہ بات چیت کا سلسلہ شروع کرسکتے ہیں۔ اگر ہم الجھاؤ میں ہیں اور مسئلہ کا کوئی حل طے نہیں کرپاتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے لیڈروں سے تھکا دینے والی اس وقت تک نصیحت سنتے رہیں گے کہ جب تک کہ اس مشکل مسئلے کی حقیقت کو ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم اپنی حکومت سے حقیقت جاننے کا مطالبہ کرسکتے ہیں کہ وہ کون سا طریقہ استعمال کرنا چاہتی ہے،جس سے ملک و قوم محفوظ رہے۔ بے عملی کی وجہ سے ہم ہر گز اپنے سپاہیوں کی مسلسل قربانیوں کو منظور نہیں کرسکتے۔
سرجیکل اسٹرائیک سے دشمنوں کے کچھ لوگوں کو ختم کردینا ہمارے جوانوں کے خون کا بدلہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ ہمیں ایسی قوم نہیں ہونا چاہئے کہ ہم جوانوں کی ہمت افزائی کریں اور ان کو مرتے ہوئے دیکھنا پسند کریں۔ افسوسناک حقیقت تو یہ ہے کہ یہ چیز ہمارے نیوز اینکروں کیلئے چارہ ہوسکتا ہے جو شہادت کیلئے اکساتے ہیں تاکہ انھیں بعد میں پوجا جائے۔ بار بار کی بے عملی سے بھی نیوز اینکروں کو کوئی سبق نہیں ملتا۔ ٹی وی چینلوں پر جنگ کی بات کرنا آسان ہے لیکن میدانِ جنگ میں خون بہانا آسان نہیں ہے۔ کشمیر میں سرحد پار کی دہشت گردی ایک مسئلہ ہے لیکن شمال مشرق میں بیرونی دہشت گردانہ حملہ یا نکسل جنگجوؤں کا حملہ ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایسا ہم کئی سالوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ میں یہ کہہ کر اپنی بات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں دو طریقے استعمال کرنے چاہئیں۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ پاکستانی دہشت گردی کو کم کرنے کی کوشش کی جائے لیکن ہمارے اپنے لوگوں یعنی کشمیریوں کو اس راستے پر نہ ڈالا جائے۔ 
ہم اپنی قومی ذہنیت سے جو سوچ اور فکر کا معیار رکھتے ہیں اس سے اوپر اٹھ کر کشمیر کے مسئلے کے حل کی تلاش کریں‘‘۔ (ٹائمس آف انڈیا، 18فروری 2019ء)
تبصرہ: آکار پٹیل نے مذکورہ مضمون میں ایسے حالات میں اپنی دانشمندانہ باتوں کا اظہار کیا ہے جبکہ ایسی باتوں کا اظہار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اور انگریزی روزنامہ ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ کا ایسے مضمون کا شائع کر دینا بھی قابل تعریف ہے۔ آکار پٹیل کے مضمون کا عنوان ہے "There are only three ways we can compel/convince Pakistan to end terror" (دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے پاکستان کو مجبور یا قائل کرنے کے صرف تین راستے ہیں)۔ اسی صفحہ(16) میں ایک اور مضمون اسی طرح کا شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے "Easy to talk war on TV, but knee-jerk is not the answer" (ٹی وی پر جنگ کی بات کرنا آسان ہے لیکن لایعنی باتیں کرنا اس کا جواب ہرگز نہیں ہے)۔ یہ دونوں مضامین آج کے حالات میں پڑھنے اور سمجھنے کے لائق ہے۔
دوسری طرف پاکستانی ذمہ داروں اور اخبارات کا بھی رویہ انتہائی غلط ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ فرما رہے ہیں کہ وہ دو ماہ پہلے ہی انکشاف کر چکے تھے کہ مودی جی الیکشن میں کامیابی کیلئے ایسی حرکت کرسکتے ہیں۔ ان کے تجزیہ نگاروں کی رائے بھی مختلف ہے۔ زیادہ تر لوگ یہ لکھ رہے ہیں کہ پاکستان کا پلوامہ حملے میں پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے۔ اگر ہے تو اسے ہندستان کو ثبوت و شواہد پیش کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس کچھ ایسے بھی تجزیہ نگار ہیں جو لکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہے۔ اسے روکنا چاہئے۔ مختصراً یہ ہے کہ پاکستان اپنی غلطی ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ایسی صورت میں مضمون نگاروں نے جو حقیقت بیانی کی ہے اس پر ملک اور حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہندستان و پاکستان کے پاس ایٹمی طاقت موجود ہے جس کی وجہ سے جنگ ہونے امکانات تو نہیں ہیں لیکن جنگ جیسی صورت حال کے پیدا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ خاص طور پر ہندستان میں جنرل الیکشن ہونے والا ہے اور حکمراں جماعت جس کی سربراہی نریندر مودی کر رہے ہیں ان کو کسی حال میں بھی الیکشن جیتنے کا راستہ چاہئے۔ مودی جی بدقسمتی سے جمہوریت پسند نہیں ہیں اور ان کا پریوار بھی جمہوریت کا قائل نہیں ہے جس کی وجہ سے جمہوریت میں وہ صرف جیت کے قائل ہیں ہار کے قائل نہیں ہیں۔
سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی بھی آمریت پسند تھیں لیکن جب وہ الیکشن سے پہلے انٹرویو دیا کرتی تھیں تو اکثر وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تھیں اور وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر وہ الیکشن میں کامیاب ہوئیں تو یہ یہ کارہائے نمایاں انجام دیں گی۔ لیکن نریندر مودی اور امیت شاہ کا جو رویہ پچاس سال حکومت کرنے کا ہے یہ جمہوری اصولوں اور قدروں کے بالکل خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں سے ملکی صورت حال میں الیکشن سے پہلے کیا کیا تبدیلیاں آسکتی ہیں کہنا مشکل ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ آل پارٹی میٹنگ میں تمام پارٹیوں نے ایک آواز ہوکر قرار داد منظور کی ہے اور ملک اور قوم کی سلامتی کیلئے اتحاد و اتفاق سے کام کرنے کا اعلان و اظہار کیا ہے۔ حکمراں جماعت کی ذمہ داری اپوزیشن سے زیادہ ہوا کرتی ہے کہ حالات کو بگڑنے نہ دیا جائے لیکن موجودہ صورت حال میں اپوزیشن پارٹیوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جبکہ حکمراں جماعت اور حکومت غیر ذمہ دارانہ حرکتیں کرتی ہیں اور اس کے لیڈران غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہیں اور گودی میڈیا تالیاں بجانے ، اکسانے اور حالات کو بگاڑنے کا کام کرتی ہے۔ حالات انتہائی نازک ہیں۔ ہر ایک کو چوکس اور چوکنا رہنا چاہئے اور غیر ذمہ دارانہ بیانات، تقاریر اور تحاریر سے پرہیز کرنا چاہئے۔ 

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
18؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا