English   /   Kannada   /   Nawayathi

بزرگوں سے بے اعتنائی، عہد حاضر کا المیہ

share with us


عارف عزیز(بھوپال)


* دنیا کے لئے آج ایک سنگین مسئلہ روز افزوں ضعیف العمر آبادی کو سنبھالنے کا ہے، ایک اندازہ کے مطابق براعظم یوروپ، امریکہ اور ایشیا میں پچاس سے زائد عمر کے افراد کا تناسب تقریباً پچاس فیصد ہے جبکہ دوسرا سروے بتاتا ہے کہ پانچ سال بعد دنیا میں بوڑھوں کی آبادی پانچ سالہ بچوں سے زیادہ ہوگی، انسانی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے، بہتر معیارِ زندگی، طبی سہولتوں میں بہتری اور روز افزوں معیشت کے سبب عمر کی شرح میں یہ ترقی درج ہورہی ہے، جس کو مثبت نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ آج بڑھتی عمر کو منفی طور پر دیکھنے کا رجحان ترقی کررہا ہے، خاص طور پر نئی نسل اپنے بزرگوں ، بوڑھوں اور معمروں کے ساتھ ایک قسم کا امتیازی سلوک کرنے لگی ہے جس کی وجہ سے وہ خود کو یک وتنہا محسوس کررہے ہیں، بزرگوں میں اس رجحان کے خاتمہ کے لئے ان کی دیکھ ریکھ یا بازآبادکاری پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ۲۱ ویں صدی کے بڑھنے کے ساتھ معمر لوگوں کی خبر گیری کا مسئلہ مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔
دنیا کا قاعدہ یہ ہے کہ چاول جب پرانا ہوجاتا ہے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے لیکن موجودہ معاشرہ میں انسان کے بوڑھے ہوجانے پر اس کی قدر وقیمت میں کمی آجاتی ہے، یہ رجحان سماج کے جس تیڑھے پن کی نشاندہی کرتا ہے اس پر بوڑھوں کی نگہداشت کے ایک رضا کار ادارے کے جائزے میں روشنی ڈالی گئی ہے بعض گھروں میں تو جائزہ لینے والوں کو بڑے بوڑھوں سے ملنے کے لئے طرح طرح کے بہانے گڑھنا پڑے، اس لئے کہ نوجوانوں کو اندیشہ تھا کہ کہیں ان کے بزرگ اپنا دکھڑا رونے نہ بیٹھ جائیں۔تیزی سے انحطاط پذیر مشرقی معاشرہ کے بارے میں یہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ ہمارے بزرگ شہری، سماجی اور جذباتی رشتوں کے لئے بے چین رہتے ہیں، زندگی کی آخری دہلیز پر ان کے اپنے، ان سے دور ہوتے جارہے ہیں، جن کے احساسات کا کسی کو لحاظ نہیں ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد نہیں تو کم از کم پوتے یا نواسے ان کی گود میں کھیلیں، ان کی معقول دیکھ بھال نہیں تو کم از کم وہ اپنے قرابت داروں کے استحصال سے محفوظ رہیں، ان کی جائیدادوں کا تحفظ ہو اور ملنے والی مالی امداد اعزاء کے ذریعہ خرد برد ہونے سے بچ جائے۔ 
یہ انکشافات انتہائی تشویشناک ہیں اور اس رجحان کا سبب یہ ہے کہ نوجوانوں میں صنعت وحرفت اور سائنس وتکنالوجی کی ترقی کے ساتھ مادیت پرستی پر مبنی خود غرضی پیداہوگئی ہے وہ بزرگوں کے احسان بھلا کر انہیں اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ اور اپنے وسائل پر ایک طرح سے بار سمجھنے لگے ہیں۔ پرانی قدروں کی طرح وہ بوڑھے لوگوں سے بیزارہوتے جارہے ہیں۔ مشترکہ خاندان منتشر ہوگئے ہیں اور روزگار کی تلاش اور سفر کی سہولت نے خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے دور پہونچادیا ہے یہ سہولت قربت کا باعث بن سکتی ہے مگر دور رہنے کی وجہ سے بے اعتنائی بھی بڑھ جاتی ہے۔
ایک طرف اولاد میں آزادی کا احساس بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف بزرگوں میں تنہائی اور محرومی بلکہ محتاجی کا احساس پایاجاتا ہے وہ جدید سوسائٹی میں خود کو غیر موزوں محسوس کرتے ہیں۔ اپنی پسند کا کام نہ ملنے سے اپنے وجود کو بیکار سمجھتے ہیں ۔ جن لوگوں کی کوئی آمدنی نہیں ہوتی یا بہت کم آمدنی ہوتی ہے وہ معمولی ضرورتوں کے لئے دوسروں کے دستِ نگر ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات اچھی آمدنی والے اور صاحب جائداد بزرگ بھی مجبوری او ر محروم کے احساس کا شکار ہوجاتے ہیں ، ضرورتمند بزرگوں کے لئے حکومت نے ماہانہ پنشن مقرر کررکھی ہے جو قیمتوں کی سطح کو دیکھتے ہوئے محض برائے نام اور ایک وقت کی چٹنی روٹی کے لئے بھی ناکافی ہے جبکہ بوڑھاپے میں دواء علاج اور بعض دوسری ضرورتیں پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں مغربی ملکوں میں بوڑھوں کے لئے سرکاری ہوسٹل یا ہوم قائم ہیں جہان ان کے جسمانی آرام کا بندوبست ہوتا ہے لیکن اس طرح ذہنی اور جذباتی سکون فراہم نہیں ہوسکتا ہندوستان جیسے مشرقی ملکوں میں جہاں ابھی تک مشین انسانیت کے حس کو ختم نہیں کرسکی ہیں۔ جسمانی آرام کے ساتھ ساتھ بلکہ شاید اس سے زیادہ ذہنی اور جذباتی سکون کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔
مشرقی ملکوں کے وسائل محدود اور مسائل بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے حکومت وہ کچھ نہیں کرسکتی جو امریکہ، برطانیہ اور کناڈا جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بزرگوں کیلئے ہورہا ہے۔ پھر بھی سردست جتنا کچھ کیا جاسکتا ہے اتنا بھی آج نہ ہونا افسوسناک ہے۔مرکزی حکومت نے ۲۰۰۶ء میں بزرگوں کے تحفظ کا ایک قانون بنایا تھا، اس کے بعد بھی بزرگوں کی حالت میں کسی طرح کی تبدیلی اس لئے نظر نہیں آئی کہ قانون سے یہ مسائل حل نہیں ہوتے ۔ اس کے لئے چھوٹوں کے دلوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہونا ضروری ہے۔ رضاکار ادارے ضرور کسی حد تک اشک سوئی کا کام کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ بزرگوں کی خدمت ہندوستان کی تہذیبی روایات کی ایک نمایاں خصوصیت ہے اور نئے سماج کو یہ پرانی خصوصیت برقرار رکھنا چاہئے۔ حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بارے میں مزید غوروفکر کرکے ایک قومی پالیسی تیار کرے کیونکہ آزادی کے۶۵برس گزرجانے کے باوجود آج تک ایسی کوئی موثر پالیسی کا نہ ہونا افسوسناک ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا