English   /   Kannada   /   Nawayathi

عیدگاہ کے بعد حج ہاؤس بنے گا شادی گھر

share with us

 


حفیظ نعمانی

کوئی بھی جائیداد وقف کی جاتی ہے تو سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وقف کرنے والے کی منشاء کیا ہے؟ اسی طرح جو عمارت بنائی جاتی ہے اس کے بنانے والے کے دماغ میں یہ ہوتا ہے کہ وہ کس کام کے لئے بنائی گئی ہے؟ ملک پر جب انگریز حکومت کررہے تھے تو لکھنؤ کے کمشنر نے عیش باغ میں زمین کا ایک ٹکڑا مسلمانوں کو دیا تھا کہ وہ وہاں عیدین کی نماز پڑھ لیا کریں اور شرط یہ تھی کہ اگر تین سال تک عیدین کی نماز مسلمانوں نے وہاں پابندی سے ادا کی تو اس زمین کو عیدگاہ کے لئے مسلمانوں کو دے دیا جائے گا۔ اس زمانہ میں دینی علم کا سب سے بڑا مرکز فرنگی محل تھا اس لئے اس کی تولیت اور امامت فرنگی محل کو دے دی گئی۔ مسلمانوں نے تین سال دونوں نمازیں پابندی سے پڑھیں اور عیدگاہ بن گئی۔
غالباً 1955 ء کے آس پاس کی بات ہے کہ کچہری روڈ پر تبلیغی جماعت کے مرکز کی عمارت بن کر تیار ہوگئی اس وقت مولانا علی میاں اور مولانا نعمانی جماعت کے ذمہ دار تھے انہوں نے تو کوئی اشارہ نہیں کیا لیکن عمارت بنوانے میں زیادہ دلچسپی لینے والوں نے دبے دبے کہنا شروع کردیا کہ ہم اب عید کی نماز مرکز کی مسجد میں پڑھیں گے۔ لیکن یہ جماعت کے مزاج کے خلاف تھا اس لئے یہ نہیں ہوا اور لکھنؤ میں ہم والد کے ساتھ عیدگاہ گئے اور عیدگاہ میں پہلی بار نماز پڑھی۔ یہ اتفاق ہے کہ امام عیدگاہ محمد میاں فرنگی محلی ڈھاکہ گئے ہوئے تھے وہ آنہیں سکے انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی جو اسلامیہ کالج میں زیرتعلیم تھے ان کو لکھ کر بھیجا کہ اس سال نماز تم پڑھاؤگے اور احمد میاں فرنگی محلی نے پہلی بار نماز پڑھائی۔ اور پھر وہی مستقل تاحیات امام رہے۔
احمد میاں کے دوستوں میں خواجہ رائق ایڈوکیٹ بہت ہی باصلاحیت تھے وہ جمعیۃ علماء کے سکریٹری تھے کانگریس کے ہر وزیر سے تعلق تھا انہوں نے عیدگاہ کے لئے جو صرف بنجر زمین کا ایک ٹکڑا تھی اور پاکستان سے آنے والے پنجابیوں نے زمین کو اپنے مکانوں میں شامل کرنا شروع کردیا تھا ان سے بچانے کے لئے اس کی حدبندی کرائی اور حکومت سے اپنے تعلقات کی وجہ سے مشرق میں بنے ہوئے ایک کھنڈر کو یہ کہہ کر ہال بنوایا کہ یہاں عورتیں عید کی نماز پڑھا کرتی تھیں اور وہ جب تیار ہوگیا تو اسے طیب ہال قرار دے دیا گیا۔
کچھ دنوں تو اس کی ایسے حفاظت کی گئی جیسے وہ حرم شریف کا ٹکرا ہو یعنی دینی جلسہ اور تفسیر قرآن کے لئے بھی استخارہ دیکھا جاتا تھا اور شرطیں لگائی جاتی تھیں۔ یہ وقت وہ تھا کہ امام عیدگاہ صبح کو اپنے گھر پر تعویذ لکھتے تھے جس کی فیس دس روپئے تھی۔ اس کے بعد طیب ہال کو شرعی شادی کے لئے دیا جانے لگا اور پھر مولانا احمد میاں کی زندگی میں ہی وہ کمیشن بھی شروع ہوگیا تھا جو کراکری فرنیچر سجاوٹ کافی اور آئس کریم والوں سے ملنے لگا اور خواجہ رائق کے انتقال کے بعد پھنسی پھوڑا بن گئی اور احمد میاں کے انتقال کے بعد ان کے عالم دین بیٹے نے اسے کینسر بنا دیا۔ پہلے صرف طیب ہال دیا جاتا تھا اس کے بعد پوری عیدگاہ دی جانے لگی پہلے سیکڑوں تھے پھر ہزاروں ہوئے اور اب لاکھوں ہیں اور اگر آپ چاہیں تو کھانا بھی وہی پکوا دیں گے۔ اور یہ دستور ہے کہ جو لاکھوں روپیہ دیتا ہے وہ مہمانوں کو شراب بھی پلاتا ہے۔ متولی اور امام نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے لکھ کر لگادیا ہے کہ نشیلی اشیاء کا استعمال نہ کیا جائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دیواروں پر لکھا رہتا ہے کہ ’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘ اور وہیں زیادہ لوگ پیشاب کرتے ہیں۔
دین سے تعلق رکھنے والے یہ مانتے ہیں کہ مسجد میں نکاح سنت ہے۔ عام مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ عیدگاہ میں بھی نکاح کرانے سے ثواب ملے گا اور عیدگاہ میں جو ہوتا ہے وہ اس لئے ہوتا ہے کہ عیدگاہ مسجد کے حکم میں نہیں ہے۔ اگر کوئی دیندار عیدگاہ کا متولی ہوتا تو عیدگاہ ہرگز ناپاک نہ ہونے دیتا اتنی ہمت ایک مولوی ہی کرسکتا ہے اور اب فرنگی محل سے دینی علم اس لئے اُٹھ گیا کہ عیدگاہ سو برس سے ان کے پاس ہے اور وہاں صبح کو جھاڑو لگانے والوں کو شراب کی اتنی شیشی مل جاتی ہے کہ وہ انہیں بیچ کر چائے پی لیتے ہیں۔
اب تازہ خبر یہ ہے کہ مولانا علی میاں حج ہاؤس میں شادی کی تقریبات کی ہر مذہب کے لوگوں کو اجازت دے دی گئی ہے اور بکنگ شروع بھی ہوگئی۔ ہم نہیں جانتے کہ کوئی پھول سنگھ اس کے ذمہ دار ہیں یا شاہ نواز۔ یہاں بھی یہ پابندی لگائی گئی ہے کہ آتش بازی اور نشیلی اشیاء پر پابندی ہے۔ مسلمانوں میں جو شراب پیتے ہیں وہ چھپ کر پیتے ہیں لیکن غیرمسلم شادی میں شراب نہ پلائیں تو کون شریک ہوگا۔ وہ تو سڑک پر جب بارات لے کر چلتے ہیں تو راستے میں شراب برساتے ہوئے چلتے ہیں۔ اور جب 24 گھنٹے کے لئے حج ہاؤس لے لیا جائے گا اور جس کا منھ مانگا کرایہ 50 ہزار روپئے دیا جاچکا ہوگا تو اس کے بعد کس کمرہ میں کیا ہورہا ہے اور کون کیا کررہا ہے اس سے منتظمین کو کیا تعلق؟ انہوں نے 10 ہزار روپئے ضمانت کے اس لئے جمع کرالئے ہیں کہ عمارت کو کوئی نقصان پہونچے تو وہ ضبط کرلئے جائیں۔ یہ بات عیدگاہ کی طرح انہوں نے بھی کہہ دی ہے کہ سجاوٹ بجلی کراکری فرنیچر پروگرام کرناے والوں کے ذمہ ہوگا۔ ابتدا میں تو اجازت دے دی جائے گی کہ جس سے چاہے کرائیں بعد میں یہ پابندی لگادی جائے گی کہ ہر ضرورت کی چیز ہم خود اپنے ریٹ پر دیں گے۔
حج ہاؤس بیشک عبادت گاہ نہیں ہے لیکن جن حضرات نے اسے بنایا ہے وہ صرف عازمین حج اور حج سے متعلق معاملات کے لئے بنایا ہے۔ ہر صاحب حیثیت مسلمان پر ایک بار حج فرض ہے۔ عام طور پر حج کو جانے والے ریٹائر ہونے کے بعد والی عمر میں جاتے ہیں ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ حج پورے ارکان کے ساتھ ادا ہوجائے تو حاجی کی وہ حالت ہوجاتی ہے جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے معصوم بچہ کی ہوتی ہے۔ یہ انسان ہی جانتا ہے کہ اس نے زندگی میں کون کون سے گناہ کئے ہیں اور ہر سمجھدار کو معلوم ہے کہ اس کی کیا سزا ہوتی ہے؟ ایسی عبادت کے لئے جیسی تیاری کی ضرورت ہے وہ ہفتہ دو ہفتہ میں نہیں ہوسکتی حج ہاؤس دو مہینے کے لئے تو حج کو جانے والوں کے لئے ہوتا ہے اور ضرورت اس کی تھی کہ وہاں حج کی تربیت کا باقی دس مہینے انتظام ہوتا اور جانے والے ایک ایک مہینہ کیلئے اضلاع کے اعتبار سے آتے اور پورا سبق یاد کرکے جاتے۔ اب حکومت جو کرنے جارہی ہے وہ تو وہی ہے جو بہوگنا جی کے بنوائے ہوئے مسلم مسافر خانہ میں ہوتا ہے کہ کہنے والے بتاتے ہیں کہ عیاشی کی سب سے سستی اور اچھی جگہ مسلم مسافر خانہ ہے وہاں بھی ایک ہال مسجد کے طور پر استعمال ہوتا تھا جو اب عام ہال ہوگیا۔ ہم اسی لئے مذہبی معاملات میں سرکاری مداخلت کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہے کیونکہ حکومت جس کی ہوگی وہ اپنی مرضی چلائے گی۔ مسلمانوں کو ایک دن یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہی دن اچھے تھے جب پلیٹ فارم کے باہر عازمین حج زمین میں پڑے رہتے تھے اور شہر کے مسلمان ان کی ہر طرح کی مدد کرکے ثواب کماتے تھے۔ اب حج ہاؤس میں جو ہوگا اس کی گندگی سے ہر حاجی متاثر ہوگا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا