English   /   Kannada   /   Nawayathi

سپریم کورٹ کے حالیہ چند حیران کن فیصلے 

share with us


’اِک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘


عبدالعزیز


جمہوریت کا بہت بڑا ستون عدلیہ ہے لیکن اگر عدالت کے فیصلے غلط آنے لگیں تو پھر جمہوریت بے معنی اور آمریت میں بدل جاتی ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں جہاں عدلیہ حکومت وقت کی گود میں آجاتی ہے وہاں جمہوریت باقی نہیں رہتی، کیونکہ عدلیہ حکومت کے اشارے پر فیصلہ کرتی ہے۔ جب حکومت کے اشارے پر عدلیہ فیصلہ کرتی ہے تو اپوزیشن کا وجود بھی نہیں ہو۔ آج جیسے بنگلہ دیش کی عدلیہ ہے اس نے حکومت کے اشارے اور کنایے پر ایسے ایسے فیصلے کئے ہیں کہ وہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں عدلیہ کا رول گزشتہ کئی سالوں سے خوب سے خوب تر ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں جہاں جمہوریت رو بہ زوال تھی روبہ صحت ہے اور جمہوری نظام آہستہ آہستہ جڑ پکڑ رہا ہے۔ ہندستان میں عدالتی نظام متاثر ہوتا رہتا ہے۔ خاص طور پر جب حکمراں عدالت کو اور خاص طور پر سپریم کورٹ کو اپنے چشم ابرو سے چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2014ء میں جب سے نریندر مودی آئے ان کی سب سے بڑی کوشش یہی رہی کہ جمہوریت کے جتنے بھی ستون و ادارے ہیں وہ سب کے سب ان کے کنٹرول میں آجائیں۔ دو روز پہلے (19جنوری کو )گرانڈ ہوٹل کلکتہ میں ایک مخصوص جلسے کو خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا نے کہاکہ ’’جو لوگ گجرات ماڈل کی بات کرتے تھے تو میں سمجھتا تھا کہ گجرات میں کچھ معاشی ترقی ہوئی ہے، اسی کا نام گجرات ماڈل ہے، لیکن جب غور سے گجرات کا مشاہدہ کیا تو معلوم ہوا کہ گجرات ماڈل ایک دوسری چیز کا نام ہے جس کے بانی مبانی نریندر مودی ہیں۔ وہاں تمام جمہوری اداروں کو مودی جی نے اس طرح کنٹرول کیا کہ دوسروں کا کوئی بس نہیں چلتا تھا۔ اب وہی گجرات ماڈل پورے ہندستان میں 2014ء سے کر رہے ہیں‘‘۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2014ء کے آخر میں نریندر مودی نے سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں کے ججوں کو خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ عدلیہ اور حکومت میں تال میل ہونا چاہئے، جب ہی ملک کا نظام صحیح طور پر چل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عدالتیں بشمول سپریم کورٹ حکومت کی بات سنیں اور اس کے مطابق فیصلہ کریں۔ اس کیلئے انھوں نے کوشش کی اور ان کی مدر تنظیم آر ایس ایس برسوں سے اس کیلئے کوشاں تھی اور Deep State (گہری ریاست) میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کر رہی تھی اور اس میں اسے زبردست کامیابی ملی ہے۔ دو سال پہلے 6فروری 2017ء میں غیر ملکی میڈیا کے ایک آرٹیکل میں امریکہ، ہندستان اور پاکستان میں ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کے حوالے سے ایک تنقیدی جائزہ سامنے آیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس آرٹیکل میں گہری ریاست کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ڈیپ اسٹیٹ فوج، پولس اور دیگر سرکاری اداروں پر مشتمل ایک خفیہ انٹلیجنس ادارہ ہوتا ہے جو پبلک پالیسی پر اثراندازہوتا ہے اور یہ ریاست کے اندر ایک ریاست ہوتی ہے۔ امریکہ میں ڈیپ اسٹیٹ ’سی آئی اے‘ کو کہتے ہیں۔ حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیپ اسٹیٹ کا بنیادی کردار رہا ہے ۔ اس دوران ڈیپ اسٹیٹس کے درمیان تنازع نے بھی جنم لیاہے اور آرٹیکل میں اس طرف بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ سی آئی اے امریکہ اور دیگر ممالک میں متنازع کردار سرکاری اور غیر سرکاری رپورٹس کی زینت بنتا رہا ہے۔ اس طرح ہندستان میں آر ایس ایس کا ڈیپ اسٹیٹ میں بڑا اثر ہے۔ سابق آئی جی مہاراشٹر پولس ایس ایم مشرف نے جو آر ایس ایس کے بارے میں جو کتاب لکھی ہے اس میں حوالے اور دلائل سے لکھا ہے کہ فوج اور دیگر سرکاری اداروں میں آر ایس ایس کا کتنا نفوذ ہوا ہے اور اس سے آر ایس ایس کتنا کام لے رہا ہے، کہنا آسان نہیں ہے۔ نریندر مودی آر ایس ایس کے پروردہ ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ آر ایس ایس کے ہی اشارے پر نریندر مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار بنایا گیا تھا۔ نریندر مودی 2014ء سے وہ سارے کام کر رہے ہیں جو آر ایس ایس چاہتا ہے۔ 
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر نظر ڈالی جائے ، یہ بتانا ضروری ہے کہ 12جنوری 2018ء میں سپریم کورٹ کے چار سب سے سینئر چار جج جسٹس کملیشور، رنجن گگوئی، مدن بی لاکر اور کورین جوزف نے ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جمہوریت ہندستان میں خطرے میں ہے کیونکہ سپریم کورٹ میں بھی حکومت مداخلت کر رہی ہے‘‘۔ ابھی چند ماہ پہلے جسٹس کورین جوزف ریٹائر ہوئے ہیں ۔ انھوں نے ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد بیان دیا ہے کہ ’’حکومت اپنے من پسند ججوں کے ذریعے اپنی خواہش کے مطابق فیصلے کرانا چاہتی ہے اور اس میں اسے کامیابی ہوتی رہی ہے‘‘۔ 
چار سینئر ججوں کی پریس کانفرنس میں جسٹس رنجن گگوئی بھی تھے اور ان کا یہ قدم بہت بڑا سمجھا جارہا تھا کیونکہ وہ ایک بہت بڑی قربانی دے رہے تھے اور یہ خطرہ مول لے رہے تھے کہ ان کا مستقبل خطرے میں پڑسکتا ہے اور وہ چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے سے محروم کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسا معمہ ہے جو نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا کہ انھیں چیف جسٹس بنانے میں موجودہ حکومت نے کوئی اڑچن نہیں ڈالی اور وہ چیف جسٹس ہوگئے۔ ان کے بعد جو کئی فیصلے ہوئے ہیں وہ عجیب و غریب اور حیران کن ہوئے ہیں ، جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ’اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘ مثلاً سی بی آئی کے چیف آلوک ورما کے سلسلے میں جو فیصلہ ہوا ہے وہ آج تک موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب حکومت نے ان کو رات کے اندھیرے میں ان کے عہدے سے ہٹایا تو بالکل واضح تھا کہ حکومت نے غیر قانونی اقدام کیا کیونکہ حکومت کو یہ حق حاصل نہیں تھا بلکہ ایک اعلیٰ تقرری کمیٹی جو چیف جسٹس آف انڈیا، وزیر اعظم ہند اور اپوزیشن لیڈر پر مشتمل ہوتی ہے اس کو یہ حق تھا۔ سپریم کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں مقدمہ کی شنوائی کرکے اور بہت آسانی سے آلوک ورما کو ان کے عہدے پر دوبارہ فائز کرنے کا فیصلہ صادر کرسکتے تھے لیکن دوبارہ فائز کرنے کا فیصلہ تین مہینے بعد آیا جو ادھورا تھا۔ ادھورا اس معنی میں کہ ان کو کوئی بڑا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا اور دوسرے ان پر جو سی بی آئی کے اسپیشل ڈائرکٹر راکیش استھانہ نے الزامات تراشے تھے اور جس کو سی وی سی نے تسلیم کرلیا تھا اسے پھر جانچنے کیلئے اعلیٰ تقرری کمیٹی کو اختیار دے دیا گیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ چیف جسٹس نے اپنی جگہ ایک ایسے جسٹس اے کے سیکری کو اپنا نمائندہ بناکر بھیجا جس نے اپوزیشن لیڈر کی کوئی بات نہیں سنی اور حکومت کا سائیڈ لے لیا۔ اپوزیشن لیڈر نے مطالبہ کیا کہ فریق آلوک ورما کو صفائی کا موقع دیا جائے لیکن انھیں موقع نہیں دیا گیا اور فیصلہ کردیا کہ انھیں ان کے عہدے سے برطرف کیا جاتا ہے۔ آلوک ورما پر جو الزامات تھے اس کیلئے سپریم کورٹ نے سی وی سی کو ایک ریٹائرڈ جج اے کے پٹنائک کی نگرانی میں جانچ کا کام سونپا تھا۔ المیہ یہ ہوا کہ فیصلے کے فوراً بعد اے کے پٹنائک نے واضح طور پر بیان دیا کہ سی وی سی نے تین ممبروں پر مشتمل اعلیٰ تقرری کمیٹی کو جو رپورٹ سونپی اس میں میری کوئی بات نہیں تھی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کے الزام تراشنے پر حکومت نے آلوک ورما کو زبردستی چھٹی پر بھیجا تھا اسی رپورٹ کو بنیاد یا بہانہ بناکر اعلیٰ تقرری کمیٹی نے دو ایک سے فیصلہ کردیا جو انتہائی افسوسناک ہے۔ اے کے پٹنائک نے ’دی انڈین ایکسپریس‘ کے نمائندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’آلوک ورما کے خلاف جو بھی الزام تراشا گیا ہے اس کا کوئی Evidence(ثبوت اور شہادت) نہیں ہے۔ یہ فیصلہ نہایت عجلت اور جلدبازی میں ہوا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کمیٹی کو پورے طور پر دماغ سے کام لینا چاہئے تھا اور خاص طور پر سپریم کورٹ کے جج کو۔ 
انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ کے نمائندہ سے دو بہت ہی معتبر چیف جسٹس نے کہا کہ آلوک ورما کو صفائی کا موقع دیئے بغیر فیصلہ کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ سابق چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر ٹی ایس ٹھاکر نے کہا ہے کہ اگر کسی کے خلاف ایک فرد کے الزام پر کارروائی ہوتی ہے تو اس شخص کو بھی اپنا نقطہ نظر رکھنے کا موقع دینا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو فطری انصاف کا جو اصول ہے وہ مجروح ہوتا ہے۔ دوسرے سابق چیف جسٹس آف انڈیا آر این لودھا نے کہا ہے کہ جو ان سے بہت ملتی جلتی بات ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ نیچرل جسٹس کے اصول کا جو تقاضہ تھا اسے ضرور پورا کرنا چاہئے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیچرل جسٹس کے اصول کو نظر انداز کر کے فیصلہ کیا گیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں جو ’رافیل ڈیل‘ کا فیصلہ کیا گیا ہے اور حکومت کو کلین چٹ دے دی گئی ہے وہ بھی کم افسوس ناک نہیں ہے۔ ارون شوری، یشونت سنہا اور پرشانت بھوشن جنھوں نے حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کیا تھا ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے صریحاً جھوٹ بول کر کورٹ کو گمراہ کیا ہے۔ ابھی ابھی سپریم کورٹ میں دو ججوں کی تقرری ہوئی اس میں کالجیئم (Collegium) نے عجیب و غریب کام کیا ہے۔ میڈیا نے اسے افشاء (Media Leaks) کردیا ہے ۔ میڈیا لیک پر چیف جسٹس نے بھی اپنی حیرانی و پریشانی کا اظہار کیا ہے ۔ ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے جب چیف جسٹس کے سامنے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ لوک پال کی کمیٹی کے ممبروں کے نام حکومت افشاء کرے تو چیف جسٹس نے پرشانت بھوشن کو نصیحت کر ڈالی کہ چیزوں کو منفی انداز سے دیکھنے کے بجائے مثبت انداز سے دیکھنا چاہئے۔ مشہور خاتون صحافی مونینی چٹرجی (Manini Chatterjee)نے اسے روحانی گرو کا مشورہ بتایا ہے اور ایک طرح سے چیف جسٹس کے اس مشورہ اور نصیحت کو طنزیہ انداز میں پیش کیا ہے:
"That is fine advice from a spiritual guru. But advocating such a course in today146s India can also be construed as unquestioning faith in a majoritarian government146s intents and actions. The apex court has baffled us on many counts in the last few months. But that someone who spoke in praise of noisy judges and independent journalists should now worry about adverse media reports and negative attitudes to the government is, perhaps, the most bewildering of them all..." (The Telegraphe kolkata, 21 junuary 2019)


(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:22؍جنوری2019(ادارہ فکروخبر)
 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا