English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلم اقلیت کی تعلیمی پسماندگی کیسے دور ہو؟

share with us


عارف عزیز(بھوپال)


ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں آج تعلیم ایک بنیادی ضرورت بن گئی ہے جس کے بغیر آگے بڑھنا اور زمانہ کا ساتھ دینا ناممکن نظر آتا ہے، بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حکومت اور سماجی تنظیموں کی کوشش کے باوجود ہمارے یہاں خواندگی کی سطح کافی پست ہے اور اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں ہے، وہ غربت وافلاس ہو یا دولت کی غیر مساوی تقسیم، ذات پات کا نظام ہو یا خواتین کی کمتر حیثیت، اقتصادی وسماجی پس ماندگی ہو یا روزگار کے مواقع تک عدم رسائی ان سب کے اسباب وعلل میں تعلیمی اعتبار سے ہمارا پچھڑا پن شامل ہے مغربی اقوام نے اس کا پہلے سے لحاظ وخیال کرکے تعلیم کو اہمیت دینا شروع کردی تھی جس کا نتیجہ ہے کہ آج وہاں خواندگی کی سطح کافی اونچی ہے ، بغیر کسی معقول عذر کے کوئی بچہ اسکول سے غیر حاضر ہوتا ہے تو اس لاپرواہی پر اس کے ماں باپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوسکتی ہے، تعلیم کے میدان میں یہ سختی ان ممالک میں برتی جارہی ہے جہاں اپنے شہریوں کی انفرادی آزادی کو کافی اہمیت دی جاتی ہے لیکن کیونکہ وہاں اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیاگیا ہے کہ انفرادی آزادی کے ساتھ ساتھ اجتماعی ذمہ داری بھی ضروری ہے لہذا تعلیم کے شعبہ میں شخصی آزادی پر اجتماعی ذمہ داری کو ترجیح دی جارہی ہے۔
اس کے برعکس ہندوستان میں اگرچہ دستور کے نفاذ کے دس برسوں کے اندر ۱۴ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو لازمی اور مفت تعلیم کی سہولت کا اعلان کیا گیا مگر آزادی کی چھ دہائیوں کے بعد بھی یہاں کی نصف کے قریب آبادی ناخواندہ رہی اور تمام دنیا کے ناخواندہ لوگوں میں ہندوستانیوں کی اکثریت ہے کیونکہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر یہاں تعلیم کے تئیں ذمہ داری نبھائی نہ جاسکی، سرکاری اخراجات میں بچت کے لئے جب بھی کوئی مہم شروع کی گئی تو اس کا سب سے بڑا نشانہ تعلیم کا شعبہ بنایا گیا، تعلیمی نظام میں اصلاح اور جاری نظام کو بہتر بنانے کی کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی گئی، لازمی اور مفت تعلیم کو کامیاب بنانے کیلئے پرائمری سطح کی تعلیم پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی لہذا نہ پرائمری اسکولوں کی حالت سدھر سکی نہ دیہی علاقوں کے اسکولوں کو مناسب عمارات فراہم کی جاسکیں، لاکھوں اسکول توآج بھی ایسے ہیں جہاں بلیک بورڈ تک موجود نہیں، اس صورت حال کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پرائمری اسکول کی سطح پر پہلی کلاس میں داخل ہونے والے طلباء اور طالبات کی صرف ۴ فیصد تعداد یونیورسٹی کی سطح تک پہونچنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
تعلیم کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے اور موجودہ عہد میں تو تعلیم کی ضرورت ہر شعبہ میں تسلیم کی جارہی ہے، جن لوگوں کا دارومدار اپنے آبائی کام پر ہے او ر جس میں عام طور پر کسی ہنر یا تربیت کی ضرورت نہیں پڑتی وہ بھی اب فنی معلومات نہ ہونے سے پچھڑتے جارہے ہیں کیونکہ خواندگی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان کو باعمل بناتی ہے اور ناکامیوں کو دور کرکے کامیابی سے ہم کنار ہونے میں ایک ہتھیار کا کام کرتی ہے، پڑھنے لکھنے سے صرف فرسودہ نظریات اور روایات ہی دم نہیں توڑتیں، استعداد عمل اور صلاحیت کا معیار بھی بڑھتا ہے۔
اسی لحاظ سے ہندوستانی مسلمانوں کی پس ماندگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کے بیشتر دکھ درد کا علاج خواندگی ہی دکھائی دیتا ہے، آج سے تقریباً ۸۵ برس پہلے پنڈت نہرو نے اپنی سوانح حیات میں بھی اسی نکتہ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مسلمانوں کا اصل مسئلہ تعلیم سے عام دوری ہے‘‘ سرسید کی علی گڑھ تعلیمی تحریک شروع ہوئے ڈیڑھ سو برس سے ہوگئے لیکن مسلمانوں میں تعلیم کا فیسد ۲۵ سے آگے نہ بڑھ سکا، جبکہ ملک میں تعلیم کا اوسط ۵۰ فیصد کے قریب ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر سو مسلمانوں میں سے ۶۵ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور جو پڑھے لکھے ہیں ان میں سے بیشتر کی تعلیم پرائمری درجات پر جاکر ختم ہوجاتی ہے۔
مسلمانوں کی اس تعلیمی پسماندگی کا نتیجہ ہے کہ آج نصف کے قریب مسلم قوم غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، مرکزی اور ریاستی سرکاریں لوگوں کو خواندہ بنانے کیلئے جو مختلف اسکیمیں چلا رہی ہیں ان کا فائدہ مسلمانوں کو اس لئے نہیں پہونچ رہا کہ وہ اپنی روزی روٹی کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں لہذا اقلیتوں کی خواندگی پر عموماً اور مسلمانوں کی خواندگی پر خصوصاً توجہ دینے کی ضرورت ہے، اسی طرح خواندگی کی قومی تحریک میں ملک کی مقبول عام زبان اردو کو جوڑنا بھی ضروری ہے تاکہ ایک بڑی لسانی اقلیت کو اس کا واقعی حق مل سکے۔
جیسا کہ آئین کے آٹیکل ۳۵۰ کے تحت ہدایت دی گئی ہے کہ ریاست اور اس کے اندر ہر مقامی حاکم کی یہ کوشش ہوگی کہ لسانی اقلیتوں کے بچوں کی خواندگی ان کی مادری زبان میں ہو۔ آئین کے اس آرٹیکل کے ذریعہ اقلیتوں کو جو کچھ تعلیمی تحفظ فراہم کیا گیا ہے اس کو عملی جامہ اس طرح پہنایا جاسکتا ہے کہ ہر لسانی اقلیت کو ترجیحی وسائل فراہم کرکے اس کی مادری زبان میں خواندہ بنایا جائے اسی سلسلہ کی ایک کڑی سہ لسانی فارمولا بھی تھا جس کو عملی جامہ نہیں پہنایاگیا۔

 


(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:22؍جنوری2019(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا