English   /   Kannada   /   Nawayathi

افریقی ممالک میں دعوت کے ناقابلِ یقین مواقع : مولانا محمد الیاس ندوی 

share with us

بھٹکل 16؍ جنوری 2019(فکروخبر نیوز) افریقی ممالک میں اس وقت دعوتی کے ناقابلِ یقین مواقع ہیں،اسی طرح للہ تعالیٰ نے فی زمانہ ہدایت کو نہایت آسان بنادیا ہے اب پہلے کی طرح زیادہ محنت اور کوششیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف ہدایت کے لیے ہمارا سوچنا اور تھوڑا سا محنت کرنا بھی کافی ہے، جس پر اللہ تعالیٰ ہدایت کے فیصلے فرمادیتا ہے۔ ان باتوں کا اظہار جنرل سکریٹری مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل مولانا محمد الیاس صاحب ندوی نے کیا ۔ مولانا نے اپنے حالیہ مشرقی افریقی ممالک تنزانیہ ، راونڈا ، بورنڈی یوگینڈا اور ایتھوپیا کے طویل دعوتی دورہ کے بعد مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی میں علماء اور عمائدینِ شہر کے لیے منعقدہ نشست میں اپنے ان خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا نے وہاں کے حالات کے تناظر میں کہا کہ وہاں اس وقت جس قدر عیسائی مشنریوں کی طرف سے ایمان کو ختم کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہورہی ہیں اس کو دیکھ کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل کانپ اٹھتا ہے ۔ وہاں کی غربت کے عجیب قصے بیان کرتے ہوئے کہا کہ بعض علاقے اب بھی ایسے ہیں جہاں نہ کھانے کے لیے دانا اور نہ پینے کے لیے پانی، بس ایک زندگی ہے جو گذررہی ہے ، انہو ں نے علماء کو اپنا فرضِ منصبی پہنچان کر اس کے لیے آگے بڑھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر دعوتی ذمہ داری ڈالی ہے ، اس کو پورا کرنا ہر حال میں ضروری ہے ورنہ یہ لوگ کل قیامت کے میدان میں ہمارا گریبان پکڑ کر ہم سے سوال کریں گے تو ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں رہے گا۔ انہوں نے ایک اہم بات پر حاضرین کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ صلاحیتوں کی بنیاد پر کام نہیں لیتے بلکہ اندرونی تڑپ او رہمارے جذبات پر کام کے فیصلہ کر تے ہیں جس کی کئی ایک مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔ مولانا نے افریقہ کے ان کالے اور دل کے گورے لوگوں کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی وہاں کے لوگوں میں دعوتی جذبہ ہے لیکن ان کے پاس افراد اور وسائل کی کمی ہے ، وہاں کے لوگوں کے دل اتنے نرم ہیں کہ تھوڑی سی محنت پر حکمراں طبقہ بھی ایمان کے حلقہ میں داخل ہوسکتا ہے۔ مولانا نے جامعہ اور ندوہ کے فارغین کی خدمات کی بھی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ الحمدللہ ہمارے ہی فارغین میں بعض لوگوں نے ایسی وہاں خدمات انجام دی ہے جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ مولانا نے مولانا محمد غزالی ندوی بھٹکلی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے آج سے پینتالیس سال پہلے ہندوستان سے ملکِ حبشہ (ایتھوپیا) میں سب سے پہلی جماعت لے جانے والے مولانا محمد غزالی ندوی بھٹکلی تھے، ان کی خدمات کو اب بھی یاد کیا جارہا ہے اور انہیں لوگ فاتحِ حبشہ کے نام سے یاد کررہے ہیں۔
استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا محمد سمعان خلیفہ ندوی نے اپنا مکمل سفر نامہ بیان کرتے ہوئے وہاں کے حالات سے لوگوں کو واقف کرانے کی کوشش کی اور بڑے ہی بہترین انداز میں سفر کی تفصیلات بیان کیں۔ مولانا نے اپنے خیالات کے اظہار کے دوران کہا کہ کس طرح وہاں کے لوگ کسم پرسی کی زندگی گذار رہے ہیں اور وہاں کس قدر کام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وہاں کے میزبانوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح انہو ں نے مہمانوں نوازی کی اس کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ مولانا نے اپنے پورے سفر کی روداد میں دعوتی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے اس کو پورا کرنے کے لیے تیاررہنے کی بھی ترغیب دلائی۔ 
ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی نے بھی نظامت کے دوران وہاں کے حالات پر طائرانہ نظر ڈالی اور وہاں کے حکمراں طبقہ کے تعلق سے اسلام سے متأثر ہونے کی بڑی دلچسپ اور معلومات افزا باتیں پیش کیں۔ 
اپنے صدارتی خطاب میں صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا محمد اقبال ملا ندوی نے کہاکہ ہمارا مذہب عالمی اور تبلیغی ہے جبکہ نصرانی مذہب مخصوص لوگوں کی طرف بھیجا گیا تھا لیکن یہ لوگ جس طرح سے کام کررہے ہیں وہ دنیا پر قبضہ کے ارادہ سے کررہے ہیں اس سے ہمیں سبق لینا چاہیے جبکہ ہمارا مذہب عالمی اور تبلیغی ہونے کے باوجود ہم کیا کررہے ہیں ، اس پر ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے ۔ ان سے قبل ناظم جامعہ اسلامیہ بھٹکل جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب نے بھی اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا۔ جلسہ میں بڑی تعداد میں علماء اور عمائدین نے شرکت کی۔ مولانا ہی کی دعا پر یہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ یاد رہے کہ یہ دعوتی دورہ مولاا ابولحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل کی طرف سے ہوا تھا جس میں مولانا محمد الیاس صاحب ندوی ، مولانابشیر صاحب ندوی ، مولانا ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ، مولانا محمد سمعان خلیفہ ندوی اور مولانا داؤد خلیفہ ندوی شامل تھے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا