English   /   Kannada   /   Nawayathi

پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی لوٹ اور مسلمانوں کی زبوں حالی

share with us

ذوالقرنین احمد
 

اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی جس کے زریعے اہل اسلام کو پہلا سبق تعلیم کے حاصل کرنے کا دیا گیا۔ جس کے بغیر انسان، انسانی حقوق، اخلاق و اقدار کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتا۔جو قوم تعلیم سے محروم ہو وہ زندگی جینے کے ہنر سے محروم رہتی ہے، آج مسلمان تعلیمی میدان میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے مسلمانوں کو سیاسی معاشی تعلیمی اقتصادی ترقیوں سے محروم رکھا گیا مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم رکھا گیا،کانگریس کے دور اقتدار سے اب تک مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا گیا، اور جھوٹے خواب دیکھائے گئے، پچھلے چند دہائیوں سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو عروج ملا جسے کانوینٹ ایجوکیشن کے نام سے متعارف کروایا گیا جو یہودیوں اور عیسائیوں کی دین ہے۔ آج پرائیویٹ تعلیمی ادارے بزنس کے مراکز بن چکے ہیں، آج تعلیم کو برائے فروخت بنا دیا گیا، لیڈروں اور جاگیرداروں نے سرکاری اسکولوں سے معیاری تعلیم کو باہر نکال کر پرائیویٹ اسکول کو بڑھاوا دیا۔ پرایوئٹ اسکول کے مالکان نے انتہائی کم تنخواہوں پر کم تعلیم یافتہ طلباء کو بطور استاد ملازمت پر رکھنا شروع کردیا۔ بروزگار ضرورت مندوں نے  اتنی کم تنخواہ پرمجبوری میں کام کرنا شروع کر دیا، جو کے مادری زبان پڑھانے کی بھی قابلیت نہیں رکھتے ہیں۔ دراصل ان اسکولوں کا تعلیمی معیار نا کہ برابر ہے جو صرف دکھاوا کر کے اور بڑے بڑے کمپس بنا کر غریب والدین کا معاشی استحصال کر رہے ہیں اور طلباء کا مستقبل برباد کرنے کا کام کر رہے ہیں جو کل مستقبل کے معمار ہونے والے ہیں انہیں آج ہے تاریک اندھیروں میں ڈھکیل دیا جارہا ہے۔ اکثر مسلم والدین اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلانے پر مجبور ہے پورے ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں خاندان ایسے ہیں جن کے پاس وسائل نہیں کہ وہ پرائیویٹ اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکے۔ کیونکہ سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار کافی گر چکا ہے اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ اپنے خود کے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کروا رہے ہیں۔ آخر اسکی کیا وجہ اس سے بات ظاہر ہے کہ سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نظام خستہ ہو چکا ہیں۔ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سرکاری اداروں میں نوکری پیشہ افراد کو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں ہی تعلیم دلانے کی پابندی عائد کردے تب ہی سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم صحیح نہج پر آسکتا ہے۔ آج کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کی تعلیمی پسندگی سب سے بڑا مسلہ ہے ۲۰۰۴ میں منموہن سرکار نے مسلمانوں کی پسماندگی کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جسے سچر کمیٹی کا نام دیا گیا تھا، جس میں جسٹس راجندر سچر  نے رپورٹ پیش کی تھی جو حیران کن ہے مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کے مسلمان سب سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس میں صاف ہے مسلمان تعلیم میں سب سے پیچھے ہے، آج مسلمانوں کے بچے معاشی خستہ حالی کی وجہ سے ہوٹلوں اور‌مختلف چھوٹے موٹے کاروبار میں چند پیسوں کیلئے کام کرتے ہیں اور تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں جو آنے والے مستقبل کے معمار ہونے والے ہے، اس میں بات قابل غور ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل روشن ہے یا تاریک ہے، پرائیویٹ اسکولوں میں صرف کاروبار کیا جارہا ہے مالکان اپنی دل چاہے فیس وصول کرتے ہیں، اسٹیشنری، یونیفارم،بس سروس، ٹیوشن فیس، وغیرہ وغیرہ نہ جانے کتنے ہزاروں روپیے غریبوں سے لوٹے جاتے ہیں۔ اور ایسے افراد کو پڑھانے کیلئے رکھتے ہے جن کی تعلیم بہت کم ہے اور انہیں کم تنخواہ پر رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے طلباء کو وہ معیاری تعلیم نہیں مل پارہی ہے جس کی توقع والدین لیے بیٹھے ہیں جو امیدیں لگائے بیٹھے ہے کہ انکا بچہ ڈاکٹر انجینئر وکیل بنے گا۔ کچھ اداروں کا تعلیمی معیار تو اتنا گرا ہوا ہے کہ وہاں پر معصوم طلباء سے چپراسی اور مزدوری کرنے والوں کے کام لیے جاتے ہیں جیسے  کمپس کا کچرا اٹھانے جھاڑووں لگانے پتھر چننے،وغیرہ  وہاں پر کم تنخواہوں پر پڑھانے والے اساتذہ کو تین تین مہینے تک اجرت نہیں دی جاتی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مزدور کو اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسکی مزدوری دے دو، تو آپ ہی سوچیے کہ ایسے اساتذہ وہاں کیا تعلیم دیتے ہوگے۔ سوسائٹی کے تحت پرایوئٹ اسکول چلانے والے افراد اسکولوں کو اسلامک اسکول اور کانونٹ کا‌نام دیتے ہیں اور انکے کام پورے غیر اسلامی ہوتے ہیں، جہاں کلچرل پروگرام کے نام پر بے ہودہ ناچ گانے اسٹیج ڈانس وغیرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے اور مینجمنٹ کو بلا کر ان کو انجوائے کروایا جاتا ہے والدین بھی بڑے خوش ہوتی ہیں کہ میری بچی نے کیا‌ڈانس کیا میرے لڑکے نے کیا خوب شو کیا ، ہزاروں لاکھوں کی تعداد والے ان اسکولوں میں چند ہی ادارے صحیح طریقے پر تعلیمی و تعمیری فرایض انجام دے رہے ہیں،اور باقی تمام اپنے مفاد کی‌خاطر قوم کے مستقبل کو تاریک کر رہے ہیں کل قیامت میں ایسے افراد اللہ کے سامنے کیا منہ دکھائیں گے، اور جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہو گا کے ظالموں فرما برداروں کی صفوں سے الگ ہو جاؤ، افسوس ہے ایسے مفاد پرست لوگوں پر جو قوم کے مستقبل کو روشن کرنے کے بجائے تاریک اندھیروں میں دھکیلنے کا کام کر رہے ہیں۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلائے جو بھروسے مند ہو جہاں کا تعلیمی معیار حقیقی معنوں میں بلند ہو ورنہ ایسے اداروں کا سماجی بایکاٹ کریں، افسوس ہے آج اس‌قوم پر کے جس کی ابتداء اقرأ سے ہوئی تھی وہی تعلیمی میدان میں پچھڑی ہوئی ہے۔
غزوۂ بدر میں ستر کفار مکہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار کئے گئے اس وقت مسلمان سخت معاشی مشکلات کا شکار تھے ان کے پاس غذا کا معقول انتظام نہ تھا یہ موقع تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فدیہ کے طور پر اہل مکہ سے زیادہ مال وصول کرتے لیکن آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اسیران بدر کا فدیہ یہ مقرر کیا کو جو لکھنا پڑھنا جانتے ہیں وہ دس‌ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے۔ اس‌ معاملہ سے تعلیم اہمیت اجاگر ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے تعلیم کتنی اہمیت کی حامل ہیں۔
آج مسلمانوں کو ضرورت ہے چاہے ایک وقت کے کھانے پر قناعت کرنا پڑے چاہے حالات سخت کمزور ہو ہر نازک سے نازک ترین صورتحال میں بچوں کی تعلیم پر توجہ دینی چاہیئے۔ نوجوانوں کو والدین کو احساس کمتری سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہئیے تعلیم کا‌مقصد صرف پیسہ اور نوکری حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ حلال و حرام کی تمیز پیدا کرنا ہے اور انسانی اخلاق و اقدار کی بلندیوں پر پہنچنا ہے اور اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرنا ہے

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:13؍جنوری2019(ادارہ فکروخبر)

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا