English   /   Kannada   /   Nawayathi

امریکی جیلوں میں قبولِ اسلام کی لہر 

share with us


عارف عزیز(بھوپال)


امریکی جیلوں میں ۲۰۰۳ء کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمان قیدیوں کی تعداد کوئی ساڑھے تین لاکھ کے قریب تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان جیلوں میں سب سے بہتر صورت حال میں مسلمان قیدی ہیں، کیوں کہ وہ نہ صرف کسی سے لڑائی بھڑائی میں نہیں پڑتے اور قانون کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ خود کو دیگر جرائم پیشہ گروہوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک گروپ کی صورت میں رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ نیویارک کے رہنے والے ایک مسلمان کو کسی وجہ سے چند برسوں کے لئے جیل جانا پڑا۔ یہ صاحب کامریڈ قسم کے مسلمان تھے لیکن جیل جاکر وہ نہ صرف پابند صوم و صلوٰۃ مسلمان بن گئے بلکہ انہیں مسلمان قیدیوں کا لیڈر بھی تسلیم کر لیا گیا اور جب وہ اپنے کمپاؤنڈ سے نکلتے تو اُن کے ہاتھوں میں قرآن ہوتا۔ مسلمان قیدی ان کے گرد جمع رہتے اور کسی میں جرات نہ ہوتی کہ ان مسلمان قیدیوں کی جانب کوئی آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ یہ وہ تحفظ تھا کہ جو جیلوں میں قید مسلمان دوسرے امریکی قیدیوں کو بھی فراہم کرتے تھے۔ یہ صورت حال صرف نیویارک کی جیل کی نہیں تھی بلکہ بیشتر امریکی جیلوں میں یہی صورت حال تھی۔ چھوٹے موٹے جرم میں قید کئے جانے والے عام قیدیوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے لئے مسلمان قیدیوں کی پناہ میں آجائیں اس کوشش کا ہی نتیجہ ہے کہ امریکی جیلوں میں قبول اسلام کا تناسب بہت بڑھ گیا ہے۔
یوں تو امریکہ میں کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے برعکس سب سے زیادہ قیدی ہیں، اعداد و شمار کے مطابق ان قیدیوں کی تعداد ۱۲ ملین سے تجاوز کر چکی ہے، سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں سیاہ فام امریکی قیدیوں کا تناسب چھ گنا زائد ہے۔ مسلمان قیدیوں کی نمایاں تعداد اور ان کی قانون پسندی انہیں جیل کے بہترین قیدیوں کا درجہ دیتی ہے، ان کے حسن سلوک اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ ان کے قریب آئے اور امریکہ میں ترک مذہب کرکے مسلمان ہونے والے ان قیدیوں میں بڑے بڑے امریکی نو مسلموں کے نام آتے ہیں، جن میں سب سے بڑا نام میلکم مارشل کا ہے، جو کہ سیاہ فام امریکیوں کے قائد تھے اور ان کی یاد آج بھی امریکہ میں سرکاری سطح پر منائی جاتی ہے۔
امریکی جیلوں کے ان تجربات سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کو قید کر دینا مسئلہ کا حل نہیں انہیں لڑائی سے باز صرف ایک ہی صورت میں رکھا جاسکتا ہے کہ انہیں زندہ رہنے کے اعلیٰ مقصد سے متعارف کرایا جائے، بے مقصد زندگی ظاہری مفادات کے لئے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے تیار کرتی ہے۔
جیلوں میں قید مسلمانوں کے اس رویے کی وجہ سے پالیسی سازوں کو فکر لاحق ہوگئی ہے اور وہ سمجھنے لگے ہیں کہ امریکی جیل مسلمانوں کے لئے نرسری بن چکے ہیں، جہاں سے اسلام قبول کرکے عملی زندگی میں آنے والے امریکی مثالی کردار کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
تمام تر سہولتوں اور جدید ترین ٹیکنالوجی اور مہارت کے باوجود امریکہ میں جرائم کی شرح میں اضافہ کی ایک بنیادی وجہ ملک میں ٹوٹتا ہوا خاندانی نظام بھی ہے چونکہ بکھرتے ہوئے خاندانی نظام کا شکار یہاں امریکہ میں مقیم مسلمان بھی ہورہے ہیں، اس لئے اُن میں اپنے خاندانی نظام کو بچانے کی فکر بھی موجود ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ مسلمانوں کی قوت کا مظاہرہ کرنے اور اپنی کمیونٹی کو ثقافٹی پس منظر سے جڑے رہنے میں مدد دینے کے لئے اقدامات کرتی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ تنظیم ہر سال امریکہ کے ایک درجن کے قریب بڑے شہروں میں واقع ایڈونچر سینٹرز کو جسے یہاں سکس فلیگ کے نام سے پہچانا جاتا ہے، ایک دن مسلمانوں کے لئے مخصوص کرتی ہے، مقامی انتظامیہ کا بھی انہیں مکمل تعاون حاصل رہتا ہے۔ اس دن تفریح کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ایک خاندان کے طور پر قریب لانے کے لئے ماحول ترتیب دیا جاتا ہے، یہ اپنی نوعیت کا متنوع اجتماع ہوتا ہے کہ جو مسلمان کمیونٹی یہاں منعقد کرتی ہے۔ جس میں ہر رنگ و نسل اور ہر زبان ہی نہیں بلکہ ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع نظر آتے ہیں۔ اس رویہ نے کم از کم مقامی سطح پر اس تاثر کو زائل کردیا ہے کہ مسلمان نہایت خشک اور تفریح سے ماورا قوم ہے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:10؍جنوری2019(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا