English   /   Kannada   /   Nawayathi

زندگی سے محروم ہوتی۔صحافت

share with us


راحت علی صدیقی قاسمی


2018ء رخصت ہو چکا ہے، اس کے دامن میں بہت سے مسائل تھے، جو اس نے وراثت کے طور پر 2019 کے کو دے دئیے۔ معاشی، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور تہذیبی بہت سے مسائل ہیں جو 2018 کے سینہ پر درج ہیں، جن سے ہمارا ملک اور ایشیاء ہی نہیں بلکہ پوری دنیا متاثر ہوئی ہے،گذشتہ برس کائنات کے باشندوں نے بہت سی تکالیف کا مقابلہ کیا ہے، خوشیاں بھی دیکھیں، لطف اندوز بھی ہوئے، ضروریات زندگی کی عدم تکمیل کے باعث روئے اور گڑگڑائے بھی،مذہبی منافرت، سیاسی چپقلش اور آپسی رنجش کے باعث ایک دوسرے پر طعن و تشنیع بھی کی، بسا اوقات صورت حال اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوئی اور قتل و غارت گری کے واقعات بھی رونما ہوئے ، ہجومی تشدد بھی اس سال ہمارے ملک کا بہت اہم مدعا رہا، جس کے باعث بہت سے نوجوان قتل کردئے گئے، غرض کہ 365 دنوں کی اس طویل مدت میں بہت سے حادثات و واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں اور تمام شعبوں میں اس طرح کے واقعات موجود ہیں، جو دلبرداشتہ کرنے والے ہیں۔
اس سال کی سب سے متحیر کن اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس سال صحافیوں پر ظلم و ستم کی وارداتیں کثیر تعداد میں ہوئیں ، جس طرح قلم کے خادموں کا خون بے دریغ بہایا گیا اور پوری دنیا میں 80 صحافیوں کا قتل کر دیا گیا، یہ انتہائی تشویشناک صورت حال ہے، پوری دنیا آزادی اظہار رائے کی بات کرتی ہے، حق بات کہنے کی جرأت پیدا کرنے کا سبق پڑھاتی ہے، لیکن جب کوئی حق و صداقت کی راہ پر نکلتا ہے، عوام کے مسائل کو زیر بحث لاتا ہے، غریبوں اور مفلسوں کی مشکلات اور ان کے وجوہات کو عالم آشکار کرتا ہے، سیاسی رہنماؤں کی کرتوتوں کا پردہ فاش کرتا ہے، گھوٹالوں اور گھپلوں کی تحقیق کرتا ہے،انسانیت پر ہورہے ظلم و جور کی کہانی لکھتا ہے، دہشت پسندوں کے انسانیت سوز واقعات کو قلم بند کرتا ہے، تو اس موقع پر اس کی صداقت اس کے لئے وبال جان بن جاتی ہے، اس موقع پر اسے انعام و اکرام، تمغات و اعزازات میسر نہیں آتے بلکہ جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے یا قید وبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑتی ہیں اور ذلت بھری زندگی گذارنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ 2018 کی تاریخ ہمیں ان حقائق سے روبرو کراتی ہے، جس میں صحافیوں کے ساتھ بدزبانی و بدکلامی عام بات ہے، انہیں دھمکی بھرے پیغامات ارسال کرنا گالیاں دینا معمولی گردانا جاتا ہے،رویش کمار، پنیہ پرسون واجپئی، رعنا ایوب ان صحافیوں کے سوشل سائٹس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کس طرح لوگ ان کو گالیاں دیتے ہیں اور توہین آمیز جملے کستے ہیں، عرصۂ دراز سے ایسا ہوتا چلا آرہا ہے لیکن سال 2018 میں صحافیوں کو سچ چھپانے کے لئے مجبور کیا گیا، ان پر اپنے نظریات تھوپنے کی کوشش کی گئی، اس وجہ سے بہت سے صحافی استعفیٰ دینے پر بھی مجبور ہوئے۔ انہوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیابلکہ اپنی ملازمت کو چھوڑنا بہتر خیال کیا، لیکن کچھ صحافی ایسے بھی ہیں، جو کسی خاص مشن پر تھے، تحقیق و تلاش میں مصروف تھے اور ممکن ہے اپنی منزل کے بہت قریب ہوں لیکن ان کی سانسوں کی ڈور کھینچ کر ان کا راستہ روک دیا گیا، ان کا سفر ختم کردیا گیا، ہمارے ملک میں بھی امسال چھ صحافیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے،جن میں کشمیر کے عظیم صحافی شجاعت بخاری کو گولی مار کر قتل کردیا گیا،وہ انگریزی اخبار رائیزنگ کشمیر کے مدیر تھے۔ انہوں نے کشمیر میں امن کانفرنس منعقد کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا، ان کو بہت بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا گیا، صحافیوں کے قتل کا سلسلہ ہندوستان تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا اس کی زد میں ہے، خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کی صورت حال بھی اس معاملہ میں تکلیف دہ ہے، امریکہ میں چھ اور میکسکو میں نو صحافیوں کا قتل کیا گیا ہے، جس صحافیوں کی ابتر صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، وکٹوریہ مارینوا بلغاریہ کو قتل کیا گیا، ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں ہورہی بدعنوانی کا پردہ فاش کیا تھا، اس کے بدلے میں انہیں اپنی جان گنوانی پڑی، جمال خاشقجی کو جس بے رحمی سے قتل کیا گیا، اس سے پوری دنیا واقف ہے، ان کی موت ایک معمہ بن کر رہ گئی ہے، اور عالمی میڈیا ان کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آیا یہ ان کی خوش نصیبی ہے، ورنہ بہت سے صحافیوں کے قتل کی خبریں تک موصول نہیں ہوپاتیں اور علاقائی اخبارات میں بھی ان کی موت شہ سرخی نہیں بن پاتی، یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا کو اس لئے قتل کردیا گیا کہ وہ حکومت کے افراد اور مافیا کے درمیان تعلقات پر تحقیق کر رہے تھے، پورے سلواکیہ میں اس پر مظاہرے ہوئے، لوگوں نے ان کے حق اور انصاف کے لئے آواز بلند کی، اس طرح کے بہت سے افراد ہیں، جن کو ان کی صحافتی دیانت داری ان کے قتل تک لے گئی،کہیں احتجاج ہوئے اور لوگوں نے آزادی اظہار رائے کا حق طلب کیا اور کہیں اس درندگی پر خاموشی چھائی رہی، جو ممالک خانہ جنگی کا شکار ہیں، وہاں تو صحافیوں کی ابتر حالت قرین قیاس ہے، وہاں صحافت کرنا جان پر کھیلنے کے مترادف ہے، جو شخص وہاں اس میدان میں قدم رکھتا ہے وہ سر پر کفن باندھ کر نکلتا ہے، لیکن اُن مقامات پر جہاں ماحول پُر امن ہے، وہاں صحافیوں کا قتل ہونا بہت اہم اور نازک ترین پہلو جس سے ہر شخص سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے، کیا دنیا میں نفرت اتنی زیادہ پھیل چکی ہے؟ کیا کوئی اپنے خلاف ایک لفظ بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے؟ کیا دنیا کی حکومتیں بے لگام ہو چکی ہیں جو ان کی راہ میں آئے گا وہ اسے کچل ڈالیں گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ان صحافیوں کی موت کے سناٹے میں ابھر رہے ہیں غور کیجئے تو آپ کے کانوں کو بھی سنائی دیں گے۔258 سے زائد صحافی قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، ابوالکلام آزادؔ اور شورش کاشمیریؔ کی روایتوں پر گامزن ہیں، اپنے مقصد کی خاطر خوبصورت و خوب رو زندگی کو لات مار کر جیل کی مشقتیں برداشت کر رہے ہیں۔
بعض صحافی اپنا کام بخوبی انجام دینے کے بعد بہت معمولی تنخواہ پاتے ہیں، بعض کو وہ بھی وقت پر میسر نہیں آتی، اپنے بچوں کے لئے اشیائے خوردنی مہیا کرنا ان کے لئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوتا ہے، زندگی ان کے لئے اجیرن ہوجاتی پے،یہ صورت حال میدان صحافت میں قدم رکھنے والوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے، ان کے قدموں کو لرزہ براندام کرتی ہے اور انہیں کسی دوسرے شعبہ میں کرئیر بنانے کے لئے اُکساتی ہے، جس پر بسا اوقات وہ تیار بھی ہوجاتے ہیں اور صحافت ایک عمدہ ترین صحافی کی خدمات سے محروم ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال جمہوریت کے لیے تشویشناک ہے، اس سے جمہوریت کے مستقبل پر آمریت کے کالے بادل چھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، اور یہ ستون اگر گر جائے گا، تو جمہوریت کی دیدہ زیب عمارت بدنما ہوجائے گی، اور اس کی کیفیت فالج زدہ شخص کی سی ہو جائے گی، صحافیوں کی محنت تحقیق تلاش و جستجو ملک کو بہت سے مسائل سے نجات دلاتی ہے، بہت سے مسائل جو پس پردہ ہوتے ہیں، انہیں عالم آشکار کرتی ہے، حق پرست صحافی نفرت و عداوت کی گہری کھائیوں کو پاٹنے کی کوشش کرتے ہیں،جس کے باعث محبت امن اور پیار کی شمعیں روشن ہوتی ہیں، دنیا کے تمام ممالک کو اس بات پر غور کرنا ہوگا اور صحافیوں کو جائز اختیار عطا کرنے ہوں گے، ان کی محنت و مجاہدہ کے بدلے میں انہیں موت اور گالیاں نہیں اعزازات عطا کرنے ہوں گے، اس جانب توجہ نہیں کی گئی تو پوری دنیا جرائم میں بلا خوف وخطر مبتلا ہوگی، کرپشن اور گھوٹالے ہوں گے، جھوٹ کابازار گرم ہوگا، صحافت یا تو ہوگی ہی نہیں یا محض آلۂ کار بن کر رہ جائے گی، چور ڈاکوؤں رہزنوں کو مسیحا بنا کر پیش کیا جائے گا، اچھے لوگوں پر نکیل کسی جائے گی، جس کے مہلک نتائج سامنے آئیں گے، صحافت کا شعبہ انتہائی اہم شعبہ ہے، اس کو اظہار رائے کی حقیقی آزادی عطا کرنا دنیا کے تمام ممالک کی ذمہ داری ہے، اور ان کی عزت و توقیر کرنا ان کے کام کی قدر کرنا، دنیا کی ترقی کا ذریعہ ہے، اسی میں جمہوریت کی بقا اور اس کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:02جنوری2019(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا