English   /   Kannada   /   Nawayathi

سلاطین و امراء کے نام نامہائے مبارک

share with us

 

٭محمد صابر حسین ندوی٭

اسلام پوری انسانیت اور حضورﷺ پورے عالم کیلئے مبعوث کئے گئے تھے ،قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی فرمایا:قل یا ایھا الناس انی رسو ل اللہ الیکم جمیعا’’کہہ دیجئے کہ اے لوگو!میں تم سب کی طرف اس اللہ کا پیغمبر ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘(اعراف:۱۵۸)،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بتلاتے ہوئے ارشاد ہوا: وماارسلنک الا رحمۃ للعالمین ’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘ (أنبیاء:۱۰۷)،ایسے میں اس دعوت کا کسی خاص علاقہ یا کسی خاص جگہ کیلئے مقید ہوجانا اور کسی خاص قوم کے حق میں محصور ہوجانا ناممکن تھا، یا کہا جائے کہ یہ اس کے حق میں باعث عیب تھا،یہ اس کے شان عالی اور مقام نبوت کے بھی خلاف تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دین وتبلیغ کی عام اشاعت اور دور دراز علاقوں تک اسے پہونچانے کے خواہاں تھے، اس کیلئے مستقل کوششیں جاری و ساری تھیں،جاں نثاروں کی جماعتیں بھی مختلف علاقوں کا دورہ کرتیں، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بازاروں میں اور طائف کی گلیوں میں سرگرداں رہنا بھی اس بات کا بین ثبوت ہے،اس کے علاوہ حج کے موسم میں میلوں کی مسافت طے کر کے آنے والوں کے درمیان دین کی تبلیغ کیلئے جانا اور ان سے ملنے کیلئے دشمنوں کا خطرہ مول لینا بھی اسی کا حصہ تھا، غرض سایہ رحمت دراز کرنے اور رحمت خداوندی کی رداء میں پوری انسانیت کو سمیٹ لینے کی تڑپ ہمیشہ دامن گیر رہتی تھی۔

ان سب کے باوجود مصلحت و حکمت اور دشمنوں کے پے درپے حملے کی وجہ سے دعوت و تبلیغ کا کام محدود ہو کر رہ گیا تھا ،لیکن ابر باراں کی بوندوں کا عام ہونا اور اس سے ہر کھیتی کا لہلہا نا مقدر ہوگیا تھا، نسیم ہوا کے جھونکے پوری دنیا میں اپنی عطر بیزی کرنے کو تیار ہوگئے تھے، اب اسے یہ لحظہ دریافت ہوچکا تھا کہ وہ شفقت و محبت کا ہاتھ بلکتی انسانیت کے کاندھوں پر رکھ دے، اور صدیوں سے پیاسی انسانیت کیلئے سیرابی کا سامان کرے ؛ایسے میں صلح حدیبیہ جسے اللہ نے کھلی فتح قرار دیا ؛ وہ قلوب کے اعتبار سے بھی فتح ثابت ہوئی ،کیونکہ اسلام کو اشاعت کیلئے امن وآشتی درکار تھی،جو اس صلح سے حاصل ہو گیا اور اسلام کے سخت دشمن جو عموماً مخالفین فوج کے سپہ سالار ہوتے، اب وہ خود دامن اسلام میں آئے جیسے:حضرت خالد بن ولید،حضرت عمرو بن عاص وغیرہ،چنانچہ اب ضرورت منصب نبوت کے فرائض کو اور فیض نبوت کو عام کرنے کی تھی ،جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو جمع کرکے ایک بلیغ خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو!خدا نے مجھکو تمام دنیا کیلئے رحمت اور پیغمبر بناکر بھیجا ہے ،دیکھو حواریین عیسی کی طرح اختلاف نہ کرنا ،۔۔۔جاؤ! اور پیغام حق کو ادا کرو ۔

اس کے بعد سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر و روم ،شہنشاہ عجم ،عزیز مصر ،نجاشی ،حبش اور رؤسائے عرب کے نام اسلامی خطوط بھیجے ،جو لوگ خطوط لے کر اور جن کے نام لے لے کر گئے ان کی تفصیل اس طرح آتی ہے :

۱۔حضرت دحیہ کلبی  بنام: قیصر روم

۲۔حضرت عبداللہ بن حذافہ بنام: خسرو پرویز ،شہنشاہ ایران 

۳۔حضرت حاتب بن ابی بلتعہ بنام: عزیز مصر

۴۔حضرت عمرو بن امیہ  الضمری :بنام: حبش؛بادشاہ نجاشی

۵۔سلیط بن عمرو والعامری بنام: ثمامۃ بن اثال، ھوذہ بن علی (رؤسائے یمامہ)

۶۔حضرت شجاع بن وہب بنام: رئیس حدود شام۔حارث غسانی

چونکہ ہرقل ایرانیوں سے ملے چند برس پہلے شکست کا انتقام لینے کے بعد اس کا شکرانہ ادا کرنے کے لئے حمس سے بیت المقدس آیا تھا،اور اس شان سے آیا تھا کہ جہاں چلتا وہاں زمین پر فرش اور فرش پر پھول بچھائے جاتے تھے ،اور شام میںجو عرب؛غسانی خاندان آباد تھا جس کا پایہ تخت بصری میں اور قیصر کے زیر حکومت تھا، جس کا فی الوقت بادشاہ حارث غسانی تھاوہیں پر حضرت دحیہ کلبی ؓ نے اسے نامہائے مبارک دیااور اس نے قیصر کے پاس بیت المقدس بھیج دیا،خط ملتے ہی قیصر کسی عرب کی جستجو میں لگ گیا ؛تاکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کر سکے ،اتفاق سے ابو سفیان (ابھی تک وہ مشرف باسلام نہ ہو سکے تھے)تجارت عرب کے ساتھ غزہ میں مقیم تھا ،قیصر نے اسے بلوایا اور اپنا دربار خوب آرائش و زیبائش کے ساتھ سجایا ،دربان کی صفیں قائم کییں اور پھر ابو سفیان سے تاریخی اور عالمانہ سوالات کئے ؛جو نبی اکرم ﷺ کے خاندان ،نسب ،طبیعت ،اخلاق و طوار پر مشتمل تھے ،چونکہ اہل عرب غیرت و دیانت کا پیکر ہوتے تھے، ان کے مزاج کے خلاف تھا کہ دروغ گوئی سے کام لیا جائے اور اپنے مد مقابل کے پس پردہ اس کی عیب جوئی کی جائے، چنانچہ ابو سفیان نے بادل ناخواستہ اور جھوٹ کے الزام کے ڈر سے آپ کی سچائی ،وفائے عہد ،حسن اخلاق اور ایمانداری کا اقرار کرتا گیا ۔

جب قیصر نے یہ پوچھا کہ وہ(آپؐ) کی تعلیمات کیا ہیں؟اس پر ابو سفیان کو کہناپڑا: وہ کہتا ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو ،کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ ، پاکدامنی اختیار کرو ،سچ بو لو اورصلہ ر حمی کرو ،چونکہ قیصرکی سر زمین عسائیت اور دوسرے انبیاء کی بعثت کا گہوارہ  رہ چکی تھی، وہاں عموما انبیاء کی حقیقت اور بعثت کے متعلق واقفیت پائی جاتی تھی، وہ آسمانی کتاب اور انبیاء کے اخلاق وعدات اور اطوار سے بخوبی واقفت ہوتے تھے،ایسے فطری طور پر قیصر بھی انبیاء کی تعریف سے بخوبی واقف تھا ؛چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علو نسب ،سچائی وامانت داری کے متعلق جان کر؛اقرار کرنے پر مجبور ہوگیا کہ آپ نبی ہیں ،گو کہ اس کے دل میں نور اسلام میں آچکا تھا ،وہ اسلامی تعلیمات اور اس کی روحانیت کے سامنے سپر ڈال چکا تھا،وہ یہ جان چکا تھا کہ اسلام دین حقیقی ہے، اور اس کی اتباع میں نجات پوشیدہ ہے،لیکن جب اس نے رہبانوں اور پادریوں کو جمع کر کے اپنا داعیہ پیش کیا تو وہ سب سخت برہم ہوئے اور قیصر کو اکیلا چھوڑ کر بھاگنے لگے ؛تب ہی تخت و تاج کی محبت اور شہنشاہیت کا جنون اور بلند مقام کی فکر حائل ہوگئی ،اس نے سب کوواپس بلایا اور اپنے آپ کو یہ کہتے ہوئے پیش کیا :میں تو محض تمہارے دین پر ثبات کو آزمارہاتھا ،ایسے میں سب کے سب قیصر کیلئے سجدہ ریز ہوگئے اور وہ شمع نو جو اںابھی اٹھی نہ تھی کہ بغیر کسی کو روشن کئے ہی بجھ گئی ۔

اس وقت دنیا کی دو طاقتوں میں دوسری عظیم طاقت کسری کی تھی، جس کا بے تاج بادشاہ خسرو پرویز تھا،جو کہ ایک عظیم شان و شوکت والابادشاہ تھا اور اس کی سلطنت میں دربار کو جو عظمت حاص ہوئی تھی ، جوپہلے کبھی نہیں تھی،وہ اپنی نخوت و تکبر اور گھمنڈ کیلئے شہرت رکھتا تھا، وہ اپنی ناک اور اپنی انا کو ہی سب پر مقدم رکھتا تھا، اس کے سامنے ہر بڑا چھوٹااور اگر وہ چاہے تو ہر چھوٹا بڑا تھا،اس کے سامنے کسی کی اف بھی نکل جائے تو اسے اپنی توہین گردانتا تھا، اور اسے زندگی کے حق سے محروم کردیتا تھا،رشتہ و سلوک اور محبت ورواداری کے نام ہی سے عاری تھا، رسم ورواج اور دولت و ثروت کی حرص نے اسے فرعون بنادیا تھا،چونکہ عجم کا طریقہ تھا کہ جب خط لکھا جائے تو ان میں عنوان سے پہلے بادشاہ کا نام لکھاجائے ؛لیکن نامہائے مبارک میں پہلے خدا کا نام اور پھر عرب کے دستورکے مطابق خدا کے رسول ﷺ کا نام تھا ،خسرو نے اسے خود کی تحقیر محسوس کی اور آگ ببولا ہوکربولا: غلام ہو کر مجھکو یوں لکھتا ہے !یہ کہہ کر نامہا ئے مبارک کو چاک کر ڈالا ،ساتھ ہی اپنی سلطنت بازان کے گورنر کو لکھ بیجا کہ دو قاصدوں کے ذریعہ اس غلام (آپؐ) کو حاضر کرے ،قاصد جب حضور ﷺ کے پاس پہونچے، تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خبر دی کہ اللہ نے اس کی سلطنت کو بھی چاک کر ڈالا، اورواقعہ بھی یہی تھا کہ خود اس کے بیٹے شیرویہ نے اسے قتل کر دیا اور تخت و تاج کا مالک ہو گیا ۔

اس کے علاوہ مقام حبش پہلے ہی اسلام موافق اور نرم خو زمین تھی، مسلمانوں کو جب بہت زیادہ ستایا گیا تھا اور وہ اپنے ہی دیار میں غریبوں کی سی زندگی گزارنے لگے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کرنے کا مشورہ دیا تھا، جس کی طرف ایک معتد بہ تعداد نے ہجرت کی ،جہاں پر اسلام اور مسلمانوں کو پناہ ملی اور ان کی طرف سے ہر طرح کی مدد ونصرت رہی تھی، ایسے میں نجاشی کو جو خط بھیجا گیا تھا ،اس کے جواب میں انہوں لکھ بھیجا :میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے،اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں، اور آپ خدا کے رسول ہیں اور سچے پیغمبر ہیں ،ساتھ ہی حضرت جعفررضی اللہ عنہ جو وہیں موجود تھے، ان کے ہاتھ پراسلام کی بیعت پرکی،ابن اسحاق کی روایت ہے کہ :نجاشی نے اپنے بیٹے کو ۶۵ مصاحبوں کے ساتھ بارگاہ رسالت میں عرض و نیاز کے لئے بھیجا لیکن جہاز سمندر میں ڈوب گیا اور سبھی ہلاک ہوگئے ۔حضورﷺ نے اسی درمیان ام حبیبہ رضی اللہ عنھاسے شادی کی تھی جب کہ وہ وہیں مقیم تھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر نجاشی سے ان کے متعلق خبر گیری کرتے رہتے تھے ،نجاشی سے تعلق کا یہ حال تھا کہ جب ان کی موت کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت رنجیدہ ہوئے؛اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھ کر ان کی مغفرت کیلئے دعا فرمائی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی ایک اور عظیم قوت حکومت مصر کی تھی، جس کا بادشاہ اپنا لقب مقوقس(جریج بن متی) رکھتاتھا، عزیز مصر یعنی مقوقس کی جانب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط لے کرحاطب بن بلتعہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا ،اس نے اسلام تو قبول نہیں کیا ؛مگر خط کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور اس کا جواب بھی خط کی صورت میں دیا ،ساتھ ہی بطور ہدیہ دو لڑکیاں بھیجیں ؛ان میں ایک ماریہ قبطیہ تھی جو حرم نبوی میں داخل ہوئیں ،دوسری حضرت حسان کے ملک میں آئی اور ایک خچر بھی بھیجا جس کا نام دلدل تھا ،یہ وہی خچر تھا جس پر حضورﷺ غزوۂ حنین میں سوار تھے۔نامہائے مبارک ان کے علاوہ رؤسائے عرب کو بھی لکھے گئے تھے ؛جن کے مختلف جوابات آئے،رئیس یمامہ نے لکھا کہ :ساری باتیں اچھی ہیں لیکن اگر تم حکومت میں میرا بھی حصہ رکھو تو میں اسلام قبول کرتا ہوں ،چونکہ اسلام ہوس ملک کے لئے نہیں آیا تھا ؛آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین کا ایک ٹکڑا بھی ہوتو میں نہیں دونگا ۔۔۔۔۔۔۔انہیں میں بعض رؤساء نے خط پڑھ کر بر ہمی کا اظہار کیا ،جیسا کہ  حارث غسانی جو غسان کا رئیس تھا اور رومیوں کے طریق پر اطراف میں حکومت کرتا تھا ؛فوج کوتیاری کرنے کا حکم دیا ،جس کے نتیجہ میں غزوہ مؤتہ اور تبوک وغیرہ پیش آئی۔(دیکھئے:سیرت ابن ہشام:۲؍۳۵۹۔عیون الاثر فی فنون المغازی الشمائل والسیر:ابوالفتح محمد بن محمد سید الناس الیعمری۔زادالمعاد:لابن قیم جوزیہ۔سیرۃ النبی:علامہ شبلی نعمانی ،سید سلیمان ندوی)

 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا