English   /   Kannada   /   Nawayathi

یوگی کی بے تکی باتیں اور فرقہ پرستانہ تقریر اویسی کو کانٹوں سے الجھنا نہیں چاہئے 

share with us


عبدالعزیز


تلنگانہ الیکشن میں بھاجپا کو جب اپنی شکست کا اندازہ ہوگیا تو مودی جی کے بعد بھاجپا کے سب سے بڑے فرقہ پرست چہرے ادتیہ ناتھ یوگی کو اسد الدین اویسی سے ٹکر لینے کیلئے حیدر آباد شہر بھیجا۔ گزشتہ روز یوگی نے حسب عادت نہایت فرقہ وارانہ انداز میں کہاکہ اگر تلنگانہ میں بھاجپا کی حکومت ہوگئی تو بیرسٹر اسدالدین اویسی کو ملک سے اسی طرح فرار ہونا پڑے گا جس طرح نظام حیدر آباد ملک سے فرار ہوئے تھے۔ یوگی نے ایسا لگتا ہے کہ مودی جی ہی کی طرح ہندستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ 
آخری مسلم فرماں روائے حیدر آباد نے ہندستان کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل سے نہایت باعزت معاہدہ کیا تھا اور اپنے خزانہ سے حکومت ہند کو عطیہ دیا تھا۔ اس کیلئے حکومت نے نظام حیدر آباد کا تشکر کا اظہار کیا تھا۔ فرار ہونے یا بھاگ جانے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا سنگھیوں کی پرانی عادت ہے بلکہ جہالت ہے جو وہ کرتے رہتے ہیں۔ گمراہ کرنا ان کا شیوہ ہے۔ سچ یا سچائی سے ان کو بیر ہے۔ جھوٹ اور فرقہ پرستی ان کی مرغوب اور پسندیدہ غذا ہے جسے استعمال کرنا ان کی عادت میں داخل ہے اور ملک کے شہریوں کو گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں اور اسلام سے ان کی دشمنی پیدائشی ہے۔ 
امیت شاہ نے بھی اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ نے جو مسلمانوں کو 12فیصد ریزرویشن دینے کی بات کہی ہے وہ کسی حال میں دینے نہیں دیں گے۔ راجستھان میں نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہاکہ کانگریس مسجدوں اور گرجا گھروں کو بجلی دے رہی ہے مگر مندروں میں اسے بجلی دینا منظور نہیں۔ اتر پردیش کے اسمبلی الیکشن کے موقع پر مودی نے کہا تھا کہ قبرستان میں بجلی دی جارہی ہے ، سمسان گھاٹ میں نہیں۔ یہ قبرستان اور سمسان گھاٹ کی سیاست ان کی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ جہاں تک ان کی فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ سیاست کی بات ہے مسلمانوں کی سمجھ میں آگئی ہے اور ایک حد تک مسلمان احتیاط سے کام لے رہے ہیں مگر مسلمانوں میں چند ایسے لوگ ہیں جو ان کی فرقہ وارانہ سیاست کا جواب فرقہ پرستانہ انداز ہی میں دینا پسند کرتے ہیں؛ حالانکہ اس سے فرقہ پرستوں ہی کو فائدہ ہوتا ہے، مسلمانوں کا کچھ بھلا نہیں ہوتا۔یوگی نے جیسے ہی اویسی کے خلاف بات کی تھی میرے خیال سے اسد الدین اویسی کو تھوڑا انتظار کرنے کی ضرورت تھی۔ ملک کا اگر کوئی غیر مسلم لیڈر یوگی جیسے اَن پڑھ لیڈر کا جواب دیتا تو زیادہ سودمند ہوتا۔ اویسی صاحب کو جذباتی انداز کے بجائے داعیانہ انداز سے یوگی کے جھوٹ اور بکواس کو بے نقاب کرنا چاہئے تھا مگر ایک دو روز کے صبر و تحمل کے بعد۔ ادتیہ ناتھ یوگی کو یہ بتانا تھا کہ حیدر آباد کے مسلم فرماں روا نے جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو عطیہ دیا تھا تو بنارس ہندو یونیورسٹی کو بھی عطیہ دیا تھا۔ یہ تھا نظام حیدر آباد کا کردار اور رویہ ۔ اور ایک کردار اور رویہ یوگی جی کا ہے کہ ان کو بھگوڑا ثابت کر رہے ہیں اور تاریخ کو مسخ کرنے کی مجرمانہ کوشش کر رہے ہیں۔ 
تلنگانہ ریاست میں مسلمانوں کی دو بڑی جماعتیں جماعت اسلامی ہند تلنگانہ اور مجلس اتحاد المسلمین ٹی آر ایس کی حمایت کر رہی ہیں۔ جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایس کی حکومت نے سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور مسلمانوں سے اس کا رویہ اور تعلق بھی پہلے کی حکومتوں سے بہتر تھا۔ جماعت نے تلنگانہ تحریک کی حمایت کی تھی جب کہ اتحاد المسلمین نے مخالفت کی تھی۔ جماعت کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹی آر ایس کا جماعت سے یا مسلم جماعتوں سے تعلق بھی دوسری جماعتوں سے کہیں بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کی ریاستی مجلس شوریٰ نے ٹی آر ایس کا الیکشن میں حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
معاملہ یہ ہے کہ ٹی آر ایس کا کبھی کبھی بھاجپا کی طرف بھی جھکاؤ ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے وہ انہی ریاست کی فلاح و بہبود کیلئے ایسا کرتی ہو مگر 2019ء کا الیکشن جو قریب ہے۔ اس کو بھی تلنگانہ کے مسلمانوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا کیونکہ ٹی آر ایس ایسی جماعت نہیں ہے جو بی جے کو ملک کے دیگر حصوں میں متاثر کرسکے۔ کانگریس ہی ہے جو بی جے پی کا ملک گیر پیمانے پر مقابلہ کر رہی ہے۔ 2019ء کے جنرل الیکشن کا جب وقت آئے تو مسلمانوں کو کوشش کرنی ہوگی کہ بی جے پی کو شکست دینے کیلئے جو محاذ وجود میں آئے اس کا وہ ساتھ دیں۔ ٹی آر ایس کے بانی اور رہنما کے سی راؤ نے کانگریس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر کانگریسی تلنگانہ کو ریاست بناتی ہے تو تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) کانگریس میں ضم ہوجائے گی مگر ایسا نہ ہوسکا ۔ ٹی آر ایس کا وجود اپریل 2001ء میں ہوا۔ 2004ء تا 2006ء تک وہ کانگریس کے ساتھ تھی۔ 2006ء سے لے کر 2009ء تک این ڈی اے میں شامل تھی۔ اس وقت وہ تیسرے محاذ کی تلاش میں ہے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں سے دوری بنائے ہوئے ہے۔ 
یہ اچھی بات ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین اور جماعت اسلامی ہند تلنگانہ ایک ساتھ ٹی آر ایس کی حمایت میں میدان سیاست میں اتری ہوئی ہیں۔ مجلس کے 7 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ جماعت محض حمایت کر رہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعت اویسی صاحب کو جذباتی انداز کے بجائے غیر جذباتی اور سنجیدہ انداز اپنانے کی استدعا کی ہے اور ملک کے تناظر میں تقریر، گفتگو اور بیانات دینے کی گزارش کی ہے۔ 
پرانے حیدر آباد میں بھاجپا کا واحد متنازعہ فیہ ایم ایل اے راجہ سنگھ مجلس کے امیدوار کے مقابلے میں الیکشن لڑرہا ہے جو گوشہ محل کی نمائندگی کرتا ہے پُرجوش اور فرقہ پرستانہ تقریر کیلئے جانا جاتا ہے وہ اویسی اور مسلمانوں پر حملہ کرتا رہتا ہے۔ حیدر آباد کو حیدر آباد کہنے کے بجائے بھاگیہ نگر کہتا ہے۔ یوگی نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ بی جے پی کی حکومت اگر تلنگانہ میں آگئی تو حیدر آباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر کردیا جائے گا۔ یوگی اس وقت کام کیلئے نہیں بلکہ نام کیلئے جانے جاتے ہیں۔ مغل سرائے، الہ آباد اور فیض آباد کا نام بدل چکے ہیں۔ حیدر آباد کے نام بدلنے کا خواب دن میں دیکھ رہے ہیں۔ 2014ء میں بی جے پی نے گریٹر حیدر آباد میونسپل کارپوریشن کے علاقہ میں کامیاب ہوئی ہے۔ ممکن ہے سات سیٹوں پر پھر کامیاب ہوجائے۔ دو چار سیٹوں پر اور کامیاب ہوبھی جائے جب بھی بی جے پی کی حکومت بننے کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ بی جے پی کا زیادہ سے زیادہ اے آئی ایم ایم سے مقابلہ ہے ٹی آر ایس یا کانگریس سے تلنگانہ میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
یوگی کو بھیج کر ریاست کو فرقہ واریت کے رنگ رنگنے کیلئے بی جے پی نے ایک چال چلی ہے۔ سیکولر پارٹیوں کو بی جے پی کی فرقہ پرستی کا غیر فرقہ وارانہ انداز سے جواب دینے کی ضرورت ہے۔ فرقہ پرستی کا جواب فرقہ پرستی سے دیا جائے گا تو فرقہ پرستوں کو ہی فائدہ ہوگا اور ان کی فاسدانہ اور مجرمانہ طاقت میں اضافہ ہوگا۔ اس لئے فرقہ پرستی کا جواب فرقہ پرستی سے ہرگز نہیں دینا چاہئے۔ دنیا کانٹے کو نہیں پھول کو پسند کرتی ہے۔ کانٹے کو راستے سے ہٹانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ راستے میں کانٹے بونے یا پھینکنے سے دنیا جہنم کدہ بن جائے گی۔ جہاں تک یوگی اور مودی جیسے غلط سیاستداں ہیں ان کو خوشبو سے نہیں بدبو سے پیار ہے۔ پھول سے نہیں کانٹوں سے لگاؤ ہے۔ آرزو لکھنوی نے ایسے لوگوں کیلئے سچ کہا ہے ؂
بری سرشت نہ بدلی جگہ بدلنے سے ۔۔۔ چمن میں آکے بھی کانٹا گلاب ہو نہ سکا 
اویسی صاحب کو ایسے لوگوں سے یہی کہنا چاہئے ؂
کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر ۔۔۔ پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:04ڈسمبر2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا