English   /   Kannada   /   Nawayathi

مدھیہ پردیش میں شیوراج یا مہاراج؟

share with us

اکھلیش شرما

مدھیہ پردیش میں طے ہو گیا کہ اگلے پانچ سال کس کا راج رہے گا- مہاراج کا یا پھر شیوراج کا۔ لوگوں کی پسند ای وی ایم میں قید ہو گئی ہے۔ پوری ریاست میں لوگوں میں ووٹنگ کے تئیں خاصا جوش و خروش دیکھنے کو ملا۔ اگرچہ صبح ووٹنگ کی رفتار سست تھی لیکن دوپہر ہوتے ہوتے لوگوں میں جوش آیا۔ کئی جگہوں سے ای وی ایم اور وی وی پیٹ مشینیں خراب ہونے کی شکایتیں آئیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق مدھیہ پردیش میں ریکارڈ 75٪ پولنگ ہوئی ہے۔ یہ اعداد و شمار بڑھ بھی سکتا ہے۔ 2013 کے اسمبلی انتخابات میں 72۔13 فیصد پولنگ ہوئی تھی جبکہ 2008 میں 69۔52 فیصد، 2003 میں 67۔41 فیصد، 1998 میں 60۔21 فیصد، 1993 میں 60۔17 فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے۔ یعنی قریب سات فیصد زیادہ ووٹ نے بی جے پی کو تین چوتھائی اکثریت دلائی تھی۔ اس کے بعد بالترتیب قریب دو اور تین فیصد کا معمولی اضافہ ہوا اور بی جے پی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر حکومت بچانے میں کامیاب رہی۔

اتنے بھاری ووٹ کے بعد تجزیہ شروع ہو گیا ہے کہ اس کا فائدہ کسے ملے گا؟ بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی پارٹیاں اپنی اپنی جیت کا دعوی کر رہی ہیں۔ ویسے آج صبح ہی بی جے پی نے ریاست کے تمام اخبارات میں اشتہارات دے کر 90 فیصد ووٹ ڈالنے کی اپیل کی تھی۔ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ کمل ناتھ کے اس بیان کی لوگوں کو یاد دلائی جا سکے جس میں انہوں نے کہا تھا کہاگر مسلم 90 فیصد ووٹنگ نہیں کریں گے تو کانگریس کو نقصان ہوگا۔ اگرچہ مدھیہ پردیش میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن نہیں ہوتا ہے پھر بھی بی جے پی کو لگتا ہے کہ کمل ناتھ کا یہ بیان ہندوؤں کو متحد کر اپنے گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ اسی لیے یہ اشتہارات چھپوایا گیا۔

زبردست ووٹنگ کا ایک نمونہ 2003 میں دیکھنے کو ملا تھا، جب 1998 کے مقابلے میں سات فیصد سے بھی زیادہ پولنگ ہوئی تھی اور دس سال کی دگ وجے سنگھ سرکار کو بی جے پی نے تین چوتھائی اکثریت پاکر اکھاڑ پھینکا تھا۔ مزید ووٹنگ اقتدار مخالف لہر کی شناخت بن گیا تھا۔ بعد کے دو انتخابات میں ووٹ فیصد بڑھا لیکن اس کا تناسب ریاست میں ووٹروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے حساب سے ہی رہا۔ ان دونوں ہی انتخابات میں بھی بی جے پی نے زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپسی کی۔ اس بار آخری بار کے مقابلے میں 6 سے آٹھ فیصد تک زیادہ ووٹ کا اندازہ ہے۔ بی جے پی کا دعوی ہے کہ یہ حکومت مخالف پولنگ نہیں ہے کیونکہ 2003 میں جہاں دگوجے انتہائی غیر مقبول تھے، وہیں شیوراج سنگھ چوہان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

ادھر، کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ بھاری پولنگ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ریاست میں بی جے پی مخالف لہر چل رہی ہے جو شیوراج حکومت کو کرسی سے اتار دے گی۔

اس بار کانگریس بی جے پی کو سخت ٹکر دیتی نظر آرہی ہے۔ شیوراج سنگھ چوہان کے حق میں کئی باتیں ہیں تو کچھ ان کے خلاف بھی جا رہی ہیں۔

جو باتیں ان کے حق میں جاتی ہیں

– لوگوں میں بے حد مقبول

– بجلی، سڑک، پانی، آبپاشی، فلاح و بہبود کے مسائل پر بہترین کارکردگی

– بی جے پی کی تنظیم، آر ایس ایس کا ساتھ

– زرعی ترقی کی شرح میں اضافہ اور پیداوار میں اضافہ

– خواتین کا ساتھ

لیکن بہت سی چیزیں ان کے خلاف بھی ہیں، مثلا

– لوگوں میں اکتاہٹ، تبدیلی کی چاہ

– پیداوار کی صحیح قیمت نہ ملنے سے کسانوں میں ناراضگی

– کسانوں کے قرض معافی کا کانگریس کا وعدہ

– بے روزگاری سے نوجوانوں میں ناراضگی

– بڑھتی بدعنوانی، بد انتظامی

کانگریس یہ انتخاب، ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے انداز میں لڑ رہی ہے۔ اگرچہ گروپ بندی اور ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی وجہ سے کانگریس کو نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ شیوراج کے مقابلے کوئی وزیر اعلی چہرہ نہ دینا بھی کانگریس کی اسٹریٹجک بھول بتایا جا رہا ہے۔ کمل ناتھ اور جیوتی رادتیہ سندھیا کے درمیان مقابلہ اور دگ وجے سنگھ کا خاموش کردار بھی کانگریس کے حق میں نہیں ہے۔ اس الیکشن میں راہل گاندھی اور نریندر مودی دونوں ہی کھل کر سامنے نہیں آئے ہیں اور انتخابات میں قومی سطح کے بجائے ریاستی سطح یا مقامی مسائل ہی چھائے رہے ہیں۔ آج کی پولنگ میں جمہوریت کے بہت سے رنگ بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ اپنے الگ انداز کے لئے بحث میں رہنے والے بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجيورگي بگھی میں بیٹھ کر ووٹ ڈالنے گئے تو وہیں شیوراج سنگھ چوہان نے بھی اپنے خاندان کے ساتھ ووٹ ڈالا۔ کمل ناتھ اور جیوتی رادتیہ سندھیا نے بھی اپنے اپنے علاقوں میں ووٹ ڈالا ہے۔ نوجوانوں اور بزرگ میں یکساں طور پر ووٹنگ کے لیے جوش و خروش دیکھنے کو ملا۔  اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ اس کا جواب 11 دسمبر کو ملے گا۔

مترجم: محمد اسعد فلاحی

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
29؍نومبر2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا