English   /   Kannada   /   Nawayathi

بابری مسجد کی زمین، رام مندر کے لئے دیدی جائے؟

share with us


تحریر:غوث سیوانی، نئی دہلی

کیوں نہ بابری مسجد کی زمین رام مندر کے لئے دیدی جائے تاکہ تنازعہ ہی ختم ہوجائے؟ میرے دوست سہیل ہاشمی نے مجھ سے سوال کیا تو مجھے ان کے بھولے پن پرکوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ اس سے پہلے بھی یہ بات میں کئی مسلمانوں کی زبان سے سن چکا ہوں۔ قریب موجود میرے ایک جرنلسٹ دوست نے بھی اس خیال کی تائید کی کہ بابری مسجد کی زمین رام مندر کے لئے دیدینا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے ایشو ختم ہوجائے گابی جے پی کے ہاتھ سے ایک بڑا انتخابی موضوع نکل جائے گا۔ یہ بات میں نے کئی بار ایک بڑے صحافی کی زبان سے بھی سن چکا ہوں۔ چند دن بعد میرے ایک کاروباری دوست قمررضوی ملے جو پختہ سیاسی شعور بھی رکھتے ہیں، انھوں نے بھی بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعے پر گفتگو کرتے ہوئے اظہار خیال کیا کہ اگر مسلمان ،مسجد کی زمین رام مندر کے لئے دیدیتے ہیں تو ملک ،امن وامان کا گہوارہ بن جائے گا اورہندوومسلمان باہمی میل ملاپ کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ان لوگوں کے سامنے عظیم دینی ادارہ ندوۃ العلماء کے استاد مولانا سیدسلمان ندوی کا نظریہ بھی ہے جو بابری مسجد کو منتقل کئے جانے کے حق میں ہیں اور حال ہی میں انھوں نے ایک بار پھر دہرایا ہے کہ مسجدیں پہلے بھی منتقل ہوتی رہی ہیں۔
کیا سوچتے ہیں عام مسلمان؟
عام مسلمانوں سے گفتگو کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس مسئلے کا حل چاہتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ مسجد کی زمین اگر مندر کے لئے دیدیں تو مسئلہ حل ہوجائے گامگر یہ طبقہ بہت ہی چھوٹا ہے۔ عام مسلمان مسجد کی ایک انچ زمین بھی کسی کو دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے فیس بک پر سوال رکھا کہ کیا مسجد کی زمین رام مندر کے لئے دیدینا چاہئے؟ کیا اس سے مسئلہ ختم ہوجائے گا؟ تو ایک شخص نے بھی اس کی حمایت نہیں کی۔ ذکاء اللہ مشتاق کا کہنا ہے کہ اگر ایک مسجد دیدی جائے تو کل دوسری مسجدوں کی مانگ کی جائیگی۔ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار بشریٰ ارم، ایس ایم ظفرامام ، شہنواز عالم، شمیم ریاضی اور شمس الدین نے کیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عاشق الٰہی نے کہا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بابری مسجد ہندووں کو دینے کے بعد دوسری مسجدوں پر دعویٰ نھیں کر یں گے؟ جب کہ غلام محمد کا کہنا ہے کہ ایشو پیدا کیا جاتا ہے سو بی جے پی کرتی رہے گی جو مسلمان مسجد کو مندر کے لئے دینا چاہتے ہیں وہ یا تو بیوقوف ہیں یا پھر ایمان سے خالی یا مرتد ہیں۔ اعجاز انجم نے کہا کہ ’’ہرگز نہیں جب مسجد خدا کا گھر ہے تو ہم اور آپ کون ہوتے ہیں دینے والے؟ہمارے دے دینے سے کیا وہ مسجد نہیں رہیگی؟ وہ قیامت تک مسجد ہی رہیگی۔ آج آپ نے ایک غلط فیصلہ لے لیا تو غیروں کے لیے ہزاروں راستے کھل جائیں گے۔‘‘ ایسا ہی خیال ہے الطاف حسین خان سبحانی کاجو کہتے ہیں کہ جب کسی مسجد کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو اس دن سے قیامت تک وہ مسجد ہی رہی گی۔ اب اس میں دینے کی کیا ضرورت ہے؟ عبدالعلی خان کے مطابق ’’بات صرف بابری مسجد کی نہیں ہے اور سینکڑوں مسجدیں ہیں جن پر فرقہ پرستوں کی نظریں ہیں ،آپ کتنی مسجدیں دیں گے اور اس فہرست میں جامع مسجد بھی شامل ہے تو کیا مسلمان اپنا دین، ایمان اور اسلامی تہذیب سب بیچ کر اس ملک میں رہے گا؟ایس اقبال احمد کہتے ہیں کہ ’’انصاف کا تقاضا ہے کہ مسجد کی جگہ مسجد ہی ر ہے کیونکہ مسجد کے اندر چوری چھپے مورتی رکھ دی گئی تھی۔میری رائے میں عدالت کے فیصلے پر عمل ہونا چاہئے۔ انیس الرحمٰن چشتی نے تبصرہ کیا کہ بابری مسجد کی زمین کی بات کرنے والے پہلے بابری مسجد کی شہادت کے متعلق غور و فکر کریں کہ جب عدلیہ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجد شہید کی گئی قانون اپنے ہاتھ میں لیا گیا،ہندوستان کے جمہوریت کی دھجیاں اڑائی گئیں۔زمین دے دینے سے کیا ہندوتوا کی غنڈہ گردی ، زہر افشانی بند ہوجائے گی؟ ہرگز ایسا ممکن نہیں۔ اگر زمین دے دی جائے تو پھر دوسری مسجدوں مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جائے گا اور پہلے اسے سانحہ کہا جائے گا، بعد میں وہ انتخابی موضوع بن جائے گا اور جب بھی ان غنڈوں کی کشتی منجدھار میں ہوگی تو رام کو بہانہ بناکر کنارہ لگانے کی کوشش ہوگی۔
شاکرحسین خان کا خیال ہے کہ آپ ایک مسجد دینگے تووہ دوسری تیسری پر دعویٰ کرینگے۔ ان کا ایشو مندر یا مسجد نہیں ہے۔ ان کا ایشو حکومت ہتھیانا ہے اور آہستہ آہستہ ’منو سمرتی‘کا نظام نافذ کرنا ہے، جسکی راہ میں مسلمان ، بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ جیسے ہی منو سمرتی نظام نافذ کرینگے، سارے دلت اور پچھڑے اسلام میں داخل ہو جائینگے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے دلتوں اور پچھڑوں کے دل میں مسلمانوں کے لئے نفرت پیدا کی جائے۔جب کہ وسیم احمد رضوی کہتے ہیں کہ اس سے ان کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور پھر گیان واپی اور دیگر مساجد کی باری آئے گی۔ انصار الحق کہتے ہیں کہ یہ سوال سلمان ندوی سے کریں ۔ شاید دارالعلوم ندوۃ العلماء سرکاری زمین پر تعمیر ہے اور ندوہ کی زمین لیز پر سرکار سے لی گئی ہے۔ کل ہوکر ہندو کہے کہ یہ جگہ سرکاری ہے۔ ہمیں ہندو گیان پیٹھ یا ہندو یونیورسیٹی بنانی ہے۔ مسلمانو! دیدو ورنہ ہندوستان میں جتنے مدارس ہیں، سب پر دعویٰ کریں گے، تو کیا سلمان ندوی اس پر راضی ہوجائیں گے۔؟جب کہ طاہر رضا مصباحی کہتے ہیں کہ آج بابری مسجد کی بات ہے کل کو دھلی جامع مسجد پر نشانہ لگانے کی کوشش کریں گے، جیسا کہ ساکشی مہاراج نے اشاررہ دے دیا ہے۔
بی جے پی کے گلے کی ہڈی
بابری مسجد کا تنازعہ ایک مدت سے ملک کو پریشان کئے ہوئے ہے اور ایک سیاسی پارٹی کے لئے ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ اس باسی کڑھی میں تب ابال آنا لازمی ہوتا ہے جب انتخابات قریب آتے ہیں ۔ اس وقت ملک میں پانچ ریاستوں میں انتخابات چل رہے ہیں اور عام انتخابات میں اب چند مہینے ہی باقی بچے ہیں۔ایسے میں اجودھیا ایشو بھی جوش آرہا ہے۔ اجودھیا میں وشوہندو پریشد کی پکار پر ہزاروں سنتوں کو جمع کیا گیااور حکومت سے مانگ کی گئی کہ وہ جلد ازجلد رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرے۔اس کے لئے نیا قانون بنانے کی ضرورت پڑے خواہ آرڈیننس لانے کی، ہرحال میں مندر بنے۔ شیوسینا جو عام انتخابات میں پورے ملک میں اپنے امیدوار اتارنے جارہی ہے اور بی جے پی کے لئے ایک مسئلہ بنتی جارہی ہے، نے ’’پہلے مندر پھر سرکار‘‘ کا نعرہ دے کر خود کو بی جے پی سے بڑا رام بھکت ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ بی جے پی کے ووٹر سوال کر رہے ہیں کہ پانچ سال اقتدار میں ہونے کو آئے اب تک رام مندر کا وعدہ حکومت نے کیوں پورا نہیں کیا؟ اس طرح یہ معاملہ بی جے پی کے لئے جی کا جنجال بن گیا ہے۔ یہ وہ ٹیڑھی کھیر ہے جسے نہ تو نگلا جاسکتا ہے اور نہ ہی اگلا جاسکتا ہے۔ وہ سادھو سنت اور بھگوا رہنما جو گزشتہ تیس سال سے بی جے پی کے لئے رام مندر کے نام پر ووٹ مانگتے رہے ہیں، آج وہی اس کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر 2019کے عام انتخابات تک رام مندر کی تعمیر نہیں ہوئی تو بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ہندووں کے ووٹ پر دعویٰ رکھنے والی بی جے پی کے لئے یہ کسی بڑے جھٹکے سے کم نہیں ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ آرایس ایس کی ذیلی تنظیم وشو ہندو پریشد بھی سرگرم ہوگئی ہے تاکہ رام مندر کی تحریک اس کے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے ہاتھ میں نہ چلی جائے مگر اس بار ایسا لگتا ہے کہ یہ ایشو بی جے پی کے گلے پڑنے والا ہے۔ آج بی جے پی کے عام ووٹر بھی سوال کر رہے ہیں کہ جن ایشوز کے لئے انھوں نے ووٹ دے کر بی جے پی کو اقتدار تک پہنچایا تھا، آج وہ پیچھے کیوں چلے گئے ہیں؟ آخر رام مندر کب بنے گا؟ یکساں سول کوڈ کب آئے گا؟ دفعہ 370 کب ختم کیا جائے گا اور ہندوستان کب ہندو راشٹر میں تبدیل ہوگا؟ ظاہر ہے کہ ان سوالوں کا بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
سنتوں کا سرکار کو الٹی میٹم 
حال ہی میں اجودھیا میں وشوہند وپریشد کے سنتوں کا ایک اجلاس ہوا جس میں مندر کا ایشوگرم رہا۔ اس سے پہلے قومی راجدھانی دہلی میں بھی اجلاس ہوا تھا جس میں سنتوں نے مودی حکومت کو مندر کی تعمیر کے لئے الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر الیکشن سے قبل رام مندر نہیں بنا تو بی جے پی کو ووٹ بھی نہیں دینگے۔ دوسری طرف وشو ہندو پریشد کے بین الاقوامی ایکٹنگ صدر الوک کمار نے حکومت کو 2018 کے اخیر تک کا وقت دیا۔انہوں نے مٹینگ کے بعد کہا کہ 2018 ختم ہونے تک رام مندر کی تعمیر کے لئے قانون نہیں بننے پر 31 جنوری سے 1 فروری 2019 تک الہ آباد میں مہاکنبھ کے دوران ہونے والی دھرم سنسد میں اگلا قدم طے کیا جائے گا۔ اس سے قبل، اجلاس میں رام جنم بھومی ٹرسٹ کے نگران سربراہ مہنت نرتیہ گوپال داس کی زیر صدارت، مٹینگ میں بی جے پی کی قیادت والی مرکزی سرکار سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔سنتوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر مودی سرکار کو قانون لانا چاہئے اور بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی راہیں کھولنی چاہئیں۔بہت سے سنتوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے پچھلے ساڑھے چار برسوں کے دوران، ہندوتوا، رام مندر، آرٹیکل 370 اور یکساں سول کوڈ جیسے تمام اہم معاملات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ انھو ں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ غیر یقینی ہے لہٰذا اس کے لئے انتظار نہیں کیا جا سکتا۔کچھ سنتوں نے کہا کہ جب حکومت تین طلاقوں کو ختم کرنے کے لئے آرڈیننس لا سکتی ہے، تو رام مندر کے لئے کیوں نہیں؟ سوامی جتندرانند سرسوتی نے کہا کہ عدالت کے فیصلہ کا انتظارنہیں کیا جائے گا۔قانون سازی کے ذریعہ مندر کی تعمیر ہی واحد متبادل ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ راجیہ سبھا میں بی جے پی کا اقلیت میں ہوناکوئی عذر نہیں ہے۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور قانون منظور کیا جائے۔ یہ تمام بیانات اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ سنتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ ایسے میں بی جے پی اپنوں کے درمیان ہی گھرتی نظر آرہی ہے۔آج جب کہ خود سنگھیوں کے بیچ اجودھیا ایشو پر جنگ شروع ہوچکی ہے ،ایسے میں مسلمانوں کو خاموشی کے ساتھ تماشہ دیکھنا چاہئے۔ انھیں اس بحث میں آنا ہی نہیں چاہئے کہ مسجد کی زمین دی جائے یا نہیں؟معاملہ کورٹ میں ہے اور کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔




(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
27؍نومبر2018(ادارہ فکروخبر)

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا