English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستان اور کیش لیس سوسائٹی

share with us

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

ہندوستان کو کیش لیس (Cash less) سوسائٹی میں تبدیل کرنے کے عزم کا وزیر اعظم نریندر مودی نے اظہار کیا ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے ان سے اتفاق کیا بلکہ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر نے اپنی ریاست کو مکمل کیش لیس اسٹیٹ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ 8؍نومبر سے ایک ہزار اور پانچ سو روپئے کی پرانے نوٹوں کی اچانک تنسیخ کے اعلان نے گویا سواسو کروڑ ہندوستانیوں کی قدموں تلے سے زمین کھینچ لی ہے۔ تادم تحریر ملک میں افراتفری، بے چینی، ناراضگی کا ماحول ہے۔ اثرات و رسوخ رکھنے والے کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہیں مگر عام آدمی جس کے پاس وسائل نہیں ہیں‘ وہ بہت زیادہ پریشان ہے کیوں کہ ہر روز بینکوں میں نہ تو رقم رکھنے اور نہ ہی نکالنے کی انہیں عادت ہے۔ 90فیصد سے زائد ہندوستانیوں کا دار و مدار نقد رقم پر ہی ہے۔ گذشتہ20-22 دن کے دوران عام آدمی اپنے روز مرہ ضروریات کے لئے کرنسی کے لئے پریشان ہیں۔ بازار ویران ہے۔ تعمیراتی سرگرمیاں مفلوج ہوکر رہ گئی ہیں۔ محنت کش بے روزگار ہیں اور جو برسر روزگار ہے انہیں بھی اپنے معمولات کو انجام دینے کے لئے سخت آزمائشی حالات سے گذرنا پڑرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے گویا سبھی کسی اچانک قدرتی آفات کے شکار ہوگئے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم کا یہ اعلان کہ ہندوستان ایک کیش لیس ملک بن جائے گا۔ عام ہندوستانیوں کے لئے مزید پریشان کن ہے۔ تاہم اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ آنے والا دور ایسا ہی ہوگا جس میں نقد رقم کی جگہ محض پلاسٹ کے کارڈ پر تمام کاروباری امور انجام دےئے جائیں گے۔ اگرچہ کہ یہ وقت ابھی دور ہے مگر بہت زیادہ دور بھی نہیں کیوں کہ اگر ہم سنجیدگی سے جائزہ لیں تو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے مجبور ہوجائیں گے کہ آج جس الکٹرانک اور ڈیجیٹل دور میں ہم سانس لے رہے ہیں‘ پندرہ بیس برس پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ یہ دور انفارمیشن ٹکنالوجی کا دور ہے۔ دس برس پہلے تک بھی اپنے ہی ملک میں چند کیلو میٹر کے فاصلے پر بھی مواصلاتی رابطہ کے لئے ایس ٹی ڈی کے مرہون منت تھے۔ آج موبائل فونس اس قدر ترقی کرچکے ہیں کہ یہ موبائل فون نہیں بلکہ ایک مکمل کائنات بن گئے ہیں۔ اس میں ماضی کے ہزاروں برس اور مستقبل محفوظ ہیں۔ یہ ہمارا دماغ ہماری یادداشت بن گئے ہیں۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی مشکل ہوگیا ہے۔ کل تک جنہیں لینڈ لائن فون تک ڈائل کرنا نہیں آتا تھا‘ اب وہ اسمارٹ فون کے ذریعہ واٹس اَپ، ای میل، گوگل، فیس بک حتی کہ کاروباری معاملات بھی انجام دے رہے ہیں اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری نئی نسل ہم سے زیادہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف ہیں۔ 40 سے زائد والی عمر کے افراد کے لئے انفارمیشن ٹکنالوجی کا استعمال کچھ مشکل ہی ہے‘ تاہم آہستہ آہستہ وہ اس کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔
وزیر اعظم نے بڑے نوٹوں کو منسوخ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ یقیناًتکلیف دہ ہے اور کوئی بھی باشعور انسان اس کی حمایت نہیں کرسکتا۔ کالے دھن پر قابو پانے کے نام پر عام آدمی سے اس کے محنت کی کمائی چھین لینا ظلم اور ناانصافی ہے۔ تاہم ایک کیش لیس سوسائٹی کے نظریہ سے اتفاق نہ کرنا وقت کی رفتار سے خود کو ہم آہنگ نہ کرنے کے مماثل ہے۔ کیش لیس سوسائٹی فی الفور ممکن نہیں۔ بتدریج یہ خواب پورا ہوسکتا ہے۔ دس برس پہلے امریکی صدر بل کلنٹن‘ حیدرآباد کے دورہ پر آئے تھے تب آندھراپردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو نے انہیں آن لائن ڈرائیونگ لائسنس کی تیاری کا مظاہرہ پیش کیا۔ ایک ترقی یافتہ سوپر پاور امریکہ کے صدر ترقی پذیر ہندوستان کی ریاست کی انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی اور حیران رہ گئے اور عش عش کرنے کیلئے مجبور ہوگئے تھے۔
دس برس میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ آن لائن بکنگ، آن لائن شاپنگ، ای کامرس جیسے اصطلاحات حقیقت کا روپ لے چکی ہیں اور نوٹوں کی تنسیخ سے بہت پہلے ہی الکٹرانک ویلیٹ تعلیم یافتہ طبقہ میں عام ہونے لگے تھے۔ جن میں PayTM قابل ذکر ہے اور اس اس موبائل ویلیٹ کے کاروبار میں بڑے نوٹوں کی تنسیخ کے بعد کئی گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ گذشتہ 20دن کے دوران 50ملین یا 5کروڑ ہندوستانیوں نے الکٹرانک ویلیٹس کا استعمال کرتے ہوئے اس سے اپنے کاروباری امور انجام دےئے ہیں۔ اسی طرح پری پیڈ موبائل فون، پوسٹ پیڈ موبائل، الکٹری سٹی بلس کی ادائیگی کیلئے فری چارج موبائل ویلیٹ کا بھی استعمال عام ہونے لگا ہے۔
MobiKwik، Oxygen Valet، Vodafone M-Pesa کے علاوہ ایئرٹیل منی، ایم روپی، Citrus Pay کا استعمال بھی عام ہوگیا ہے۔ اقتصادی بحران کے دوران آن لائن بینکنگ بالخصوص RTGS، NEFT کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر صرف 20دن میں ای ویلیٹس کے استعمال میں 700فیصد اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ کرنسی کا بحران فی الفور ختم نہیں ہوگا اس لئے کارڈ سوائپ مشینوں کے استعمال بڑھتا جائے گا۔ پان شاپ سے لے کر ترکاری اور پھل فروش کے پاس بھی اب سوائپ مشین کا استعمال ہونے لگا ہے۔ حیدرآباد میں ایس بی ایچ کے برانچ کے عہدیدار کے مطابق نوٹوں کے منسوخ ہونے سے پہلے تک سوائپ مشینوں کی مانگ ایک ہفتہ میں چار یا پانچ تک محدود تھی‘ اب ڈھائی سو تین سو مشینوں کی مانگ ہوگئے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ سوائپ مشین ہمارے وجود کا ایک حصہ بن جائے گی۔ اور کچھ عجب نہیں کہ گداگر بھی اپنے ساتھ سوائپ مشینیں رکھیں گے۔ جہاں تک کیش لیس سوسائٹی کا تعلق ہے‘ اس وقت سوئیڈن سرفہرست ہے جہاں اکثریت کارڈس کے ذریعہ تمام کاروبار انجام دےئے جاتے ہیں۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ 2008ء میں بینک ڈکیتی کے 110وارداتیں پیش آئی تھیں‘ جو گھٹ کر 2011ء تک 16ہوگئیں اور نقد رقم کے کاروبار تین فیصد تک ہوگیا ہے۔ اگرچہ کہ پورا ملک کیش لیس سوسائٹی میں تبدیل نہیں ہوسکا امید کی جارہی ہے کہ 2030ء تک ایسا ممکن ہوجائے گا۔ صومالی لینڈ جو افریقہ کا ایک غریب ملک ہے‘ یہ بھی آہستہ آہستہ کیش لیس ملک بنتا جارہا ہے۔ موبائل ویلیٹ کے ذریعہ بیشتر کاروبار انجام پاتے ہیں۔ ایک اور افریقی ملک کینیا کے 15ملین عوام M-Pesa کے صارفین ہیں۔ اسی سے تنخواہ حاصل کرتے ہیں اور اسی سے اسکول فیس ادا کرتے ہیں۔ کینیڈا میں جنوری 2013ء سے نئی کرنسی نہیں چھاپی گئی کیوں کہ 56فیصد عوام ڈیجیٹل وائلٹ کا استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ساؤتھ کوریا بھی ان کے نقش قدم پر ہے جہاں کرنسی اور سکوں کا چلن کم ہونے لگا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران سعودی عرب، متحدہ اعرب امارات، ملیشیا میں بھی نقد رقم کے بغیر تجارتی معاملات انجام دےئے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ ترقی یافتہ ممالک ہیں مگر یہاں زیادہ تر امور کیش ہی میں انجام دےئے جاتے ہیں۔ کیش لیس سوسائٹی میں دو اہم ممالک کو تبدیل ہونے میں بہت وقت لگے گا۔ ویسے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا میں 85فیصد صارفین کے تجارتی اور دیگر لین دین کا انحصار کیش پر ہی ہے۔
ہندوستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کرنے کے عزائم بہت اچھے ہیں اور خواب بھی بہت سنہرے ہیں مگر جب آنکھیں کھول کر حقائق کا ایمانداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم یافتہ نہیں ہے۔ ہزاروں مواضعات میں الکٹرانکس یا ڈیجیٹل سسٹم تو درکنار بجلی بھی میسر نہیں ہے۔ آبادی کا ایک بہت بڑے حصہ کا بینکوں میں اکاؤنٹس نہیں ہیں اور جنکے اکاؤنٹس ہیں ان میں سے بیشتر بینکنگ کے نظام سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 40فیصد ہندوستانی بینکنگ فینانشیل سرویسس سے واقف نہیں ہے یا یہ خدمات ان تک نہیں پہنچ پاتیں۔ آر بی آئی کی 10؍مارچ 2016کی پورٹ کے مطابق جملہ بینک اکاؤنٹس 1,440ملین ہیں‘ جبکہ سیونگس بینک اکاؤنٹس گذشتہ سال 1170ملین تھے۔ مسٹر نریندر مودی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد غریب عوام کسانوں کو جن دھن بینک اکاؤنٹس کھولنے کی ترغیب دی اور ان سے وعدہ کیا تھا کہ بیرونی ممالک سے کالا دھن واپس آئیگا تو ہر ایک اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپئے ڈپازٹ ہونگے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بڑے نوٹوں کی تنسیخ کے بعد حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ جن دھن اکائنٹس میں جو رقم ڈپازٹ کی گئی ہے‘اس کے بارے میں بھی پوچھ تاچھ کی جائے گی بلکہ یہ رقم ضبط بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ رقم کالادھن ہو‘ ہوسکتاہے کہ برسوں کی کمائی کو محض اس لئے بینک اکاؤنٹس میں محفوظ رکھ دیا گیا ہے کہ نوٹوں کی تنسیخ کے بعد یہ رقم اپنی قدر سے محروم ہوگئی تھی۔ پہلے ترغیب دیکر عوام کوخوفزدہ کرنے کی اس پالیسی سے وزیر اعظم عوامی اعتماد سے محروم بھی ہونگے اور مستقبل میں شاید ہی کوئی انکے کسی وعدے پر اعتماد کرے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا