English   /   Kannada   /   Nawayathi

آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا

share with us

غوث سیوانی

بھارت میں ہندو۔مسلم ایکتا اور بھائی چارہ کی سینکڑوں مثالیں قدم قدم پر مل جائینگی۔یہاں آج بھی ہندو، بہنیں اپنے مسلمان بھائیوں کو راکھی باندھتی ہیں۔ یہاں آج بھی عید اور دسہرہ ایک ساتھ منانے کی مثالیں ملتی ہیں۔ آج بھی چشتی اور نانک کی سرزمین پر اذان وناقوس کی صدائیں ساتھ ساتھ گونجتی ہیں اور آج بھی یہاں کی فضاؤں میں محبت ویگانگت کے نغمے گونجتے ہیں۔ گوسیاسی لوگوں نے ملک کے ماحول کو خراب کرنے کی سازش کی ہو اور دھرم کے نام پر لوگوں کو لڑانے کی کوشش کی ہو مگر آج بھی محبت سے نفرت کو شکست کھانا پڑتا ہے اور ایسی ہی قومی یکجہتی کی زندہ مثال ہیں مظفر نگر کے رام ویر کشیپ اور سنجیو پردھان۔ان دونوں لوگوں نے ثابت کردیا کہ جیت آخرکار محبت کی ہوتی ہے اور نفرت کی ہوا کے چند مسموم جھونکے محبت کے گلستاں کو کبھی مرجھانے پر مجبور نہیں کرسکتے۔جہاں ایک طرف سنجیو پردھان نے فسادات کے دوران مسلمانوں کی جانیں بچائی تھیں، انھیں اپنے گھر میں پناہ دیا تھا اور آج انھیں واپس ان کے گاؤں لارہے ہیں تو وہیں دوسری طرف رام ویرکشیپ نے دنگوں میں نہ صرف ایک مسجد کی حفاظت کی بلکہ آج تک وہ خداخانہ کی ویسی ہی حفاظت کر رہے ہیں جس طرح اپنے گھر کی کرتے ہیں۔ انھیں اس کام میں سکون ملتا ہے کیونکہ ان کی نظر میں عبادت کی تمام جگہیں قابل احترام ہیں، خواہ وہ کسی بھی مذہب کی ہوں۔ بہرحال اگر اجودھیا میں کچھ جنونی ہندووں کے ہاتھ سے بابری مسجد کے انہدام کا منظر دنیا نے دیکھا ہے تو اسے اب رام ویر جیسے مسجد کے محافظوں کو بھی دیکھنا چاہئے اورجن لوگوں نے مظفر نگر کے فسادات کو دیکھا ہے انھیں سنجیو پردھان کی انسان دوستی کو بھی دیکھنا چاہئے۔ 
جس کا مذہب انسانیت ہے
مظفرنگر دنگوں کے ایک ملزم سنجیو بالیان، اب نفرت انگیزی کے انعام میں بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ ہیں مگر دوسری طرف یہیں کے سنجیوپردھان ہیں جو اس نفرت کی کاٹ میں شروع سے لگے ہوئے ہیں اور اب ان مسلمانوں کو گاؤں ،واپس لارہے ہیں جو دنگوں کے بعد نقل مکانی کر گئے تھے۔ دنگوں کے دوران انھوں نے مسلمانوں کو اپنے گھر میں پناہ دیا تھا اور اپنی مسلم نوازی کے سبب ہندووں کے طنزوتشنیع کا شکار ہوئے تھے مگر اب ایک بارپھر اس خطے میں محبت کی گھر واپسی شروع ہوچکی ہے اور لوگ، نفرت کو بھلانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ سنجیوپردھان کی کوششوں سے ان کے گاؤں میں اب تک بہت سے مسلمان واپس آچکے ہیں اورگھروں کے ساتھ ساتھ یہاں کی مسجدیں بھی آباد ہونے لگی ہیں۔
محبت کے لئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہرساز پر گایا نہیں جاتا 
اور سنجیو پردھان بھی ایسے ہی انسان ہیں،جن کے دل میں محبت ہی محبت ہے۔وہ شاہ پور تھانہ علاقے کے دلہیڑا گاؤں کے پردھان ہوا کرتے تھے مگر دنگوں کے دوران مسلمانوں کو اپنے گھر میں پناہ دینے کے سبب ہندو،ان سے نارض ہوگئے تھے اور وہ الیکشن میں ہار گئے تھے۔ اب ان کی کوششوں سے دلہیڑا سے جان بچا کر بھاگے 37 مسلم خاندان واپس گھر لوٹ آئے ہیں۔ ان پر بھروسہ کرکے فساد متاثرین کی گھر واپسی ہوئی ہے۔ 42 سالہ مسلم خاتون بانو کے مطابق یہی ایک وجہ ہے کہ ہم سنجیو پردھان پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرتے ہیں۔ پانچ سال بعد ہماری مسجدیں پھر سے آباد ہوئی ہیں، وہ سلامت رہیں۔ گاؤں میں واپسی کرنے والوں میں سے ایک 56 سالہ اقبال بھی ہیں جو کہتے ہیں گاؤں کے جاٹوں سے ان کے گھریلو رشتے رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے تہواروں اور شادی بیاہ میں مل جل کر شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس ایک خراب دن کے علاوہ ہمارے ساتھ کچھ برا نہیں ہوا۔ ہم وہ سب بھول چکے ہیں۔ سب لوگ جانتے ہیں وہ کس نے کرایا تھا۔
کوششیں رنگ لارہی ہیں
تقریباً5 سال قبل مظفر نگر میں زبردست فساد ہوا تھا، جس میں مسلمان اور جاٹ دونوں ہی جانب سے لوگ مارے گئے تھے اور دونوں طبقوں کے بیچ صدیوں سے چلا آرہا اتحاد واتفاق بکھر گیا تھا۔ اس تقسیم نے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کو کو جیت میں مدددیا۔ حالیہ ایام میں سیاسی وسماجی جماعتوں کی طرف سے ایسی کوششیں ہوئی ہیں جن کے تحت جاٹوں اور مسلمانوں کے بیچ دوبارہ اتحاد ویکجہتی قائم کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے۔ کیرانہ لوک سبھا ضمنی انتخاب میں بی جے پی کو زبردست شکست ہوئی اور جاٹ ووٹوں پر دعویٰ رکھنے والی آر ایل ڈی کی امیدوار تبسم حسن کو جیت ملی۔ دنگوں کے دوران مسلمانوں نے بڑی تعداد میں اپنے گاؤوں سے ہجرت کی تھی اور اب خود جاٹوں کی طرف سے پہل ہورہی ہے کہ وہ واپس اپنے آبائی گاؤں لوٹ آئیں اور ایسے لوگوں میں سرفہرست سنجیو پردھان کا نام ہے۔انھوں نے فساد کے دوران بھی انسانیت کی مثال قائم کرتے ہوئے درجنوں مسلمانوں کی جان بچائی تھی اور انھیں اپنے گھر میں پناہ دیا تھا۔اس کے بعد وہ اپنے دوست تیج سنگھ اور ستیہ ویر کی مدد سے انھیں مسلم اکثریتی گاؤں پلڑی کے پردھان، تسلیم کے سپرد کر آئے تھے۔ سنجیو کے مطابق’’ گاؤں کے کچھ غلط لوگ مسلمانوں کی مدد کرنے سے ناراض تھے اور وہ کہتے تھے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ لیکن اب سب مجھ سے متفق ہیں اور انھیں بھی لگتا ہے کہ فساد صرف سیاست کی دین تھا۔ ‘‘واضح ہوکہ فساد کے دوران دلہیڑاسے تقریباً 65 مسلم خاندانوں نے ہجرت کی تھی لیکن دو مسلم خاندان اس وقت بھی گاؤں میں ہی رہے اور ان کی حفاظت سنجیو پردھان کر رہے تھے۔ اب ان کی کوششوں سے کل 37خاندان واپس لوٹ آئے ہیں اور باقی کو واپس لانے کے لئے وہ کوشاں ہیں۔ ان کی کوششوں کے لیے کئی مقامی اداروں نے انھیں اعزاز سے نوازا ہے۔ فساد کے دوران بھی ہجرت نہ کرنے والے بشیر کے مطابق فساد کے بعد ہر طرف پچھتاوا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں جاٹ اور مسلمان ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ جاٹوں کے پاس زمین ہے اور مسلمان ان کے کام کرتا تھا۔ بیچ میں یہ رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔ جاٹوں کو گھر بنانے کے لیے مستری، کھیت میں پانی دینے کے لیے مزدور اور زراعتی مشینیں بنانے کے لیے لہار نہیں مل رہے تھے۔ دونوں طرف زبردست جانی اور مالی نقصان ہوا تھا، لیکن اب ایک بار پھر بھروسہ لوٹ آیا ہے۔ حالانکہ جمعیۃ علماء ہند کے مقامی ترجمان مولانا موسیٰ قاسمی کہتے ہیں ’’محبت کا واپس لوٹ آنا بہت اچھی بات ہے لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ گنہگاروں کو سزا نہ ملے۔‘‘
پاسباں مل گئے کعبہ کو
یوپی کے مظفر نگر میں 2013 کے فسادات کی آنچ اب بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ لوگوں کی زندگی مکمل طور پر ٹریک پر ابھی تک نہیں لوٹی ہے۔اس سب کے درمیان ایک شخص ایسا بھی ہے جو دو مذاہب کے درمیان کے فرق کو ختم کر رہا ہے۔پانچ سال سے 59 سالہ رام ویر کشیپ فسادات میں بچائی ایک مسجد کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔کشیدگی کے درمیان انسانیت کی اس مثال کو جو بھی دیکھتا ہے، دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔یہ مسجد 120 سال کی بتائی جاتی ہے۔سال 2013 کے فسادات کے دوران ایک گروپ اس کو توڑنے کے لئے آگے بڑھا تو رام ویر نے مردانگی سے اس کا سامنا کیا۔انہیں گاؤں والوں کی حمایت ملی اور مسجد بچا لی گئی۔اس کے بعد سے ہی رام ویر اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ وہ صبح اسے صاف کرتے ہیں، شام کو موم بتیاں جلاتے ہیں اور ہر رمضان سے پہلے رنگائی پتائی بھی کرواتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے۔ان کا کہنا ہے، ’میراوشواس مجھے عبادت کی تمام جگہوں کا احترام کرنے کے لئے بلاتا ہے۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ گاؤں میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ضلع ہیڈکوارٹر سے 40 کلومیٹر دور نن ہیڈا، جاٹ اکثریتی گاؤں ہے۔یہاں کچھ دلت اور پسماندہ برادریوں کے لوگ رہتے ہیں۔رام ویر کے مطابق گاؤں میں آزادی سے پہلے بڑی تعداد میں مسلمان تھے۔آہستہ آہستہ وہ چلے گئے۔اب کبھی کبھار ہی کوئی نماز کے لئے آتا ہے۔پاس کے کھیڑی فیروز آباد گاؤں میں رہنے والے خوش نصیب احمد بتاتے ہیں، میں چند سال پہلے نن ہیڈا گیا تھا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ ایک ہندو شخص مسجد کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔میں نے وہاں نماز ادا کی ہے۔انھوں نے کہا نفرت کو کاٹنے والی محبت اور امن کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
یکجہتی کی مثال
رام ویر مسجد سے صرف 100 میٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بچپن میں وہ اس کے ارد گرد کھیلتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، میرے لئے یہ عبادت کی جگہ ہے جس کا احترام ہونا چاہئے۔ اس کی دیکھ بھال کے لئے کوئی نہیں تھا، میں نے ذمہ داری لے لی ۔گزشتہ 25 سال سے میں روز اس کی صفائی کرتا ہوں اور مرمت کی طرف توجہ رکھتا ہوں۔ رمضان سے پہلے اس کی پتائی،اپنے خاندان کے ساتھ مل کر کرتاہوں۔
نن ہیڈا گاؤں کے پردھان دارا سنگھ، رام ویر کی کافی تعریف کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رام ویر خود کے پیسے سے رمضان سے پہلے مسجد کی پتائی کرواتے ہیں۔ صفائی کرانے میں رام ویر کا خاندان بھی ان کی مدد کرتا ہے۔دارالعلوم دیوبندمیں شعبہ تنظیم و ترقی کے انچارج اشرف عثمانی کہتے ہیں، بھارت کی یہی بات اسے بہت اچھا بناتی ہے۔نن ہیڈا جیسی مثالیں پورے ہندوستان میں پھیلی ہیں۔تقسیم کے ٹھیک بعد مسلمانوں کو پاکستان جانا پڑا، خاص طور پر پنجاب سے، وہاں سکھ اور ہندوؤں نے ان مساجد کو سنبھالا جو، اب بھی وہاں ہیں۔ایسے ہی کئی مقامات پر مسلم مندروں کی حفاظت کر رہے ہیں۔
دردِ دل پاسِ وفا، جذبۂ ایماں ہونا
آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا