English   /   Kannada   /   Nawayathi

تاج محل کی شاہ جہانی مسجد میں نماز پر پابندی’ ایک سیاسی چال

share with us


ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی 


جب سے بی جے پی نے دہلی میں مرکزی حکومت اور ہندوستان کے بیشتر صوبوں کے اقتدار پر قبضہ کیا ہے ہزاروں سال پرانی گنگا جمنی تہذیب کے خلاف ہندوستان کے مسلمانوں میں خوف وہراس پیدا کیا جارہا ہے۔ حالانکہ ضرورت تھی کہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے نعرہ کو عملی جامہ پہنایا جاتا۔ بجلی پانی اور کپڑا مکان جیسے عوامی مسائل کو حل کیا جاتا۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے کم از کم گفتگو ہی کی جاتی۔ خواتین کے ساتھ سچی ہمدردی کا نمونہ پیش کرکے ان کو روزگار مہیا کرایا جاتا۔ ملک کو سٹے بازاروں سے پاک کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اْن شراب خانوں کو بند کرنے کی کوشش کی جاتی جہاں ہندوستانی قوانین کی دھجیاں اڑا کر صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ شراب تیار کی جاتی ہے۔ عیاشی کے اڈوں کو بند کرنے کے فیصلے کیے جاتے۔ گنڈوں کو سلاخوں کے پیچھے بند کیا جاتا۔ اْن لوگوں کے خلاف سخت کاروائی کی جاتی جو چند پیسوں کی خاطر لوگوں کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ رشوت خوری، دھوکہ دھڑی ، کھانے کی اشیاء4 حتی کہ دواؤں میں ملاوٹ، چوری، ڈکیتی اور شراب نوشی جیسے مسائل پر پہلے توجہ دی جاتی۔

حال ہی میں کرناٹک کے ضمنی الیکشن میں شکست سے دوچار بی جے پی حکومت نے اسی سال چھتیس گڑھ، راجستھان، مدھیہ پردیش، تلنگانہ اور میزورم میں ہونے والے الیکشن، نیز 2019 کے پارلیمنٹ کے الیکشن میں جیت کو یقینی بنانے کے لیے ملک کی امن وسلامتی کی فضا میں گھناؤنے بادلوں کو منڈلانے کی غرض سے مسجد ومندر کے مسائل کو اٹھانا شروع کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے قضیہ پر بحث کو آئندہ سال تک کے لیے ملتوی کردیا ہے، جس سے شر پسند عناصر کو بہت دھکا لگا ہے۔ مودی حکومت نے جو بڑے بڑے وعدے کرکے ۴۱۰۲ کے الیکشن میں جیت حاصل کی تھی، اب اْن کا حساب دینے کا وقت آگیا ہے، جبکہ اْن وعدوں کو پورا کرنا اْن کے لیے ممکن ہی نہیں ہے جیسا کہ اْن کے ایک وزیر نے خود اس کا اعتراف کیا ہے۔ لوگوں کی توجہ اْن وعدوں سے ہٹانے اور مسلمانوں کے خلاف ہندؤوں کے جذبات کو ابھارکر چھتیس گڑھ، راجستھان، مدھیہ پردیش کے سیمی فائنل اور 2019 کے فائنل میں جیت حاصل کرنے کے لیے مسجد ومندر کے مسائل کو اٹھا یا جارہا ہے۔ 

اسی ایجنڈے کے پیش نظر تاج محل کی شاہ جہانی مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی گئی ہے، حالانکہ اس مسجد میں کئی سو سال سے پانچوں وقت کی نماز کے ساتھ جمعہ، عیدین اور نماز تروایح پابندی سے ادا کی جاتی رہی ہے۔ شاہجہاں کے زمانہ میں متعین شاہی امام کی تنخواہ صرف پندر روپئے ہندوستان کی حکومت آج تک وہی پندر روپئے دیتی آرہی ہے۔ غالباً حکومت کی جانب سے ملنے والی یہ سب سے کم تنخواہ ہوگی، حالانکہ حکومت کو تاج محل سے کروڑوں روپئے کی آمدنی ہوتی ہے۔ حکومت ہند صرف مسجد کی صفائی کا انتظام کرتی ہے، باقی کام حتی کہ مسجد میں صفوں کا انتظام بھی خود مقامی لوگ اپنے تعاون سے کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ صفائی کرنے والے ملازم کی تنخواہ پندر ہزار وپئے جبکہ شاہی امام کی تنخواہ صرف پندرہ روپئے ؟ 

قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مرد حضرات کو حتی الامکان فرض نماز جماعت ہی کے ساتھ ادا کرنی چاہئے کیونکہ فرض نماز کی مشروعیت جماعت کے ساتھ وابستہ ہے۔ فرض نماز جماعت کے بغیر ادا کرنے پر فرض تو ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، مگر معمولی معمولی عذر کی بناء4 پر جماعت کا ترک کرنایقیناًگناہ ہے۔ لیکن ہندوستان کے موجودہ تناظر میں علماء4 ودانشواران قوم کو چاہئے کہ وہ فی الحال اس موضوع پر سڑکوں پر آنے کے بجائے ہندوستانی قوانین کا سہارا لے کر قانونی جنگ لڑیں، ورنہ ہم شرپسند عناصر کے مقاصد کوپورا کرنے والے بنیں گے اور یہی بی جے پی کا اصل ایجنڈا ہے کہ مسجد ومندر کے مسائل کو اٹھاکر ہندؤوں کے ووٹ حاصل کرکے چھتیس گڑھ، راجستھان، مدھیہ پردیش اور پھر مرکزی حکومت پر دوبارہ قبضہ کیا جائے۔ ہاں البتہ ہمیں ایسی کوششیں ضرور کرنی چاہئیں کہ ہمارے محلہ کی مسجدیں آباد ہوں اور مسلمان خاص کر نوجوان جمعہ کی طرح تمام نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے والے بنیں کیونکہ فرض نماز ہمیں جماعت کے ساتھ مسجد میں جاکر ہی ادا کرنی چاہئے۔ اس موضوع پر چند آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کا ترجمہ پیش کررہا ہوں جس سے کم از کم ہمارے نوجوانوں کو شریعت اسلامہ میں فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی اہمیت وتاکید معلوم ہو۔ 

آیات قرآنیہ: جس دن پنڈلی کھول دی جائیگی اور سجدہ کے لئے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے۔ نگاہیں نیچی ہوں گی اور ان پر ذلت وخواری طاری ہوگی حالانکہ یہ سجدہ کے لئے (اس وقت بھی) بلائے جاتے تھے جبکہ صحیح سالم یعنی صحت مند تھے (سور? القلم ۲۴) حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میدانِ قیامت میں اپنی ساق (پنڈلی) ظاہر فرمائے گا جس کو دیکھ کر مؤمنین سجدہ میں گر پڑیں گے مگر کچھ لوگ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر نہ مڑیگی بلکہ تختہ (کی طرح سخت) ہوکر رہ جائیگی۔ یہ کون لوگ ہیں؟ توحضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) قسم کھاکر فرماتے ہیں کہ یہ آیت صرف ان لوگوں کے لئے نازل ہوئی ہے جو جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے ہیں۔ حضرت سعید بن مسیب? (ایک بہت بڑے تابعی) فرماتے ہیں: حی علی الصلا? ، حی علی الفلاح کو سنتے تھے مگر صحیح سالم، تندرست ہونے کے باوجود مسجد میں جاکر نماز ادا نہیں کرتے تھے۔غور فرمائیں کہ نمازیں نہ پڑھنے والوں یا جماعت سے ادا نہ کرنے والوں کو قیامت کے دن کتنی سخت رسوائی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ساری انسانیت اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں ہوگی مگر بے نمازیوں کی کمریں تختے کے مانند کردی جائیں گی اور وہ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔اللہ تعالیٰ! ہم سب کی اس انجام بد سے حفاظت فرمائے۔ آمین۔ اسی طرح فرمان الٰہی ہے: اور نمازوں کو قائم کرو، زکو? ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع ادا کرو۔ (سور? البقرہ) قرآن کریم میں جگہ جگہ نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ نماز کو قائم کرنے سے مراد فرض نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ 

احادیث نبویہ: رسول اللہ ? نے ارشاد فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں اور ساتھ ہی نماز کے لئے اذان کہنے کا حکم دوں پھر کسی آدمی کو نماز کے لئے لوگوں کا امام مقرر کردوں اور خود ان لوگوں کے گھروں کو جاکر آگ لگادوں جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے۔ (یعنی گھر یا دوکان میں اکیلے ہی نماز پڑھ لیتے ہیں)۔ (بخاری) جو حضرات شرعی عذر کے بغیر فرض نماز مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں، اْن کے گھروں کے سلسلہ میں اْس ذات کی جس کی اتباع کے ہم دعویدار ہیں، اور جس کو ہماری ہر تکلیف نہایت گراں گزرتی ہو، جو ہمیشہ ہمارے فائدے کی خواہش رکھتا ہو اور ہم پر نہایت شفیق اور مہربان ہو، یہ خواہش ہے کہ ان کو آگ لگا دی جائے۔

رسول اللہ ? نے ارشاد فرمایا: جو شخص اذان کی آواز سنے اور بلا کسی عذر کے مسجد کو نہ جائے (بلکہ وہیں پڑھ لے) تو وہ نماز قبول نہیں ہوتی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ عذر سے کیا مراد ہے؟ آپ ? نے ارشاد فرمایا: مرض یا خوف۔ (ابوداود، ابن ماجہ) حضرت ابو ہریرہ ? فرماتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی نبی اکرم ? کی خدمت میں حاضر ہوئے، کہنے لگے : یا رسول اللہ! میرے پاس کوئی آدمی نہیں جو مجھے مسجد میں لائے۔ یہ کہہ کر انھوں نے نماز گھر پر پڑھنے کی رخصت چاہی۔ رسول اکرم ? نے انہیں رخصت دیدی لیکن جب وہ واپس ہونے لگے تو انہیں پھر بلایا اور پوچھا: کیا تم اذان سنتے ہو؟ ا نہوں نے عرض کیا:ہاں یا رسول اللہ! آپ ? نے ارشاد فرمایا: تو پھر مسجد میں آکر ہی نماز پڑھا کرو۔ (مسلم) غور فرمائیں کہ جب اس شخص کو جو نابینا ہے، مسجد تک پہنچانے والا بھی کوئی نہیں ہے اور گھر بھی مسجد سے دور ہے، نیز گھر سے مسجد تک کا راستہ بھی ہموار نہیں ہے (جیسا کہ دوسری احادیث میں مذکور ہے)، نبی اکرم ?نے گھر میں فرض نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی تو بینا اور تندرست کو بغیر شرعی عذر کے کیونکر گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ رسول اللہ ? نے ارشاد فرمایا: جس گاؤں یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہاں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلّط ہوجاتا ہے۔ اس لئے جماعت کو ضروری سمجھو۔ بھیڑیا اکیلی بکری کو کھا جاتا ہے، اور آدمیوں کا بھیڑیا شیطان ہے۔ (ابوداود، نسائی، مسند احمد، حاکم) رسول اللہ ? نے ارشاد فرمایا: جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے اجر و ثواب میں ۷۲ درجہ زیادہ ہے۔ مسلم

اقوال صحابہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہے کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مسلمان بن کر حاضر ہو وہ نمازوں کو ایسی جگہ ادا کرنے کا اہتمام کرے جہاں اذان ہوتی ہے(یعنی مسجد میں) اِس لئے کہ حق تعالیٰ شانہ نے تمہارے نبی? کے لئے ایسی سنتیں جاری فرمائی ہیں جو سراسر ہدایت ہیں، اْن ہی میں سے یہ جماعت کی نمازیں بھی ہیں۔ اگر تم لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگوگے جیسا کہ فلاں شخص پڑھتا ہے تو تم نبی? کی سنت کو چھوڑ نے والے ہوگے اور یہ سمجھ لو کہ اگر تم نبی ? کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجاؤگے۔ تو اپنا حال یہ دیکھتے تھے کہ جو شخص کھلّم کھلّا منافق ہوتا وہ تو جماعت سے رہ جاتا (ورنہ حضور کے زمانے میں عام منافقوں کو بھی جماعت چھوڑنے کی ہمت نہ ہوتی تھی) یا کوئی سخت بیمار، ورنہ جو شخص دو آدمیوں کے سہارے سے گھسٹتا ہوا جا سکتا تھا وہ بھی صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا۔ (مسلم) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے علاوہ نہیں ہوتی۔ پوچھا گیا کہ مسجد کا پڑوسی کون ہے؟ تو حضرت علی? نے فرمایا: جو شخص اذان کی آواز سنے وہ مسجد کا پڑوسی ہے۔ (مسند احمد) حضرت ابو ہریرہ ? فرماتے ہیں کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور جماعت میں حاضر نہ ہو اس کے کان پگھلے ہوئے سیسہ سے بھر دئے جائیں‘ یہ بہتر ہے۔ (مسند احمد) حضرت عبد اللہ بن عباس? سے کسی نے پوچھا کہ ایک شخص دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات بھر نفلیں پڑھتا ہے مگر جمعہ اور جماعت میں شریک نہیں ہوتا، (اس کے متعلق کیا حکم ہے؟) حضرت عبد اللہ بن عباس? نے فرمایاکہ یہ شخص جہنمی ہے۔ (گو مسلمان ہونے کی وجہ سے سزا بھگت کر جہنم سے نکل جائے)۔ ترمذی

آخر میں عرض ہے کہ مسلمانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاقرآن کریم میں اعلان ہے کہ ہر پریشانی کے بعد آسانی آتی ہے۔ اس ملک کی آزادی کے لیے ہم نے کندھے سے کندھا ملاکر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ بھرپور حصہ لیا ہے، اور آج بھی اس کی تعمیر وترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ ملک کسی مخصوص مذہب کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسی سب کا ہے، اور اس پر سب کا یکساں حق ہے۔ اسی سمت میں ہمیں سوچ سمجھ کر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو سماجی بھائی چارہ کو مضبوط کریں اور دوسری اقوام کے ساتھ ساتھ ہماری روز مرہ کی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں معاون ہوں۔ علماء4 کرام ودانشوران قوم اور عام مسلمانوں سے درخواست ہے کہ ہم اپنے اخلاق وکردار کے ذریعہ مسلم و دیگر قوموں کے درمیان پیدا شدہ فاصلہ کو کم کرنے کی کوشش کریں اور اپنے عمل سے لوگوں کو بتائیں کہ اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے۔

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
09؍نومبر2018(ادارہ فکروخبر/ذرائع)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا