English   /   Kannada   /   Nawayathi

بی جے پی کونقصان پہنچاسکتی ہے اعلیٰ ذات کے ووٹروں کی ناراضگی

share with us

غوث سیوانی


بی جے پی کے خلاف اس کے کور ووٹر صف آراء ہورہے ہیں؟ اعلیٰ ذات کے لوگوں نے آرایس ایس اور بی جے پی کو قائم کیا اور آج وہی اس کے خلاف کیوں کھڑے ہورہے ہیں؟ آخر برہمنوں، راجپوتوں، بھومیہاروں اور دوسری اونچی برادریوں کے اندر بھاجپا کے خلاف لاوا کیوں پک رہا ہے؟اہم سوال یہ ہے کہ جس ذہنیت نے آرایس ایس اوربھاجپا کو جنم دیا، آج وہی اس کے خلاف کیوں کھڑی نظر آرہی ہے؟جو ووٹ بینک بی جے پی کے لئے ہمیشہ ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوا،آج وہی اس سے دور کیوں ہوتا جارہا ہے؟اگر آپ گزشتہ چند برسوں میں اونچی ذات کے لوگوں کی تحریکوں پر نظر ڈالیں تو احساس ہوگا کہ وہ بی جے پی کے خلاف سڑکوں پر اتر رہے ہیں۔بی جے پی کے خلاف اونچی ذات کے ووٹروں کی صف بندی اگر جاری رہی تو آنے والے دنوں میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات میں اسے بڑا نقصان پہنچاسکتی ہے کیونکہ ان ریاستوں میں راجپوت ووٹ زیادہ ہے اور اقتدار کا فیصلہ اسی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔
ایس سی ،ایس ٹی ایکٹ کی مخالفت
جس طرح سے ایس سی ایس ٹی ایکٹ کی مخالفت کے نام پر پورے ملک میں برہمن، راجپوت وغیرہ سڑکوں پر نکلے اور غیرمنظم طور پر بھارت بند کردیااسے دیکھتے ہوئے، اس قسم کے سوال اٹھنے لازم ہیں۔ اگر ہندوستان کی گزشتہ پانچ ہزار سال کی تاریخ دیکھیں تو برہمنوں کے قبضہ واقتدار کی تاریخ ہے۔ چھتری راجہ حکمراں رہے ہوں یا مسلمان بادشاہ، انگریز ی حکومت رہی ہو یا آزاد ہندوستان مگر اس ملک میں چلتی تھی صرف برہمنوں کی۔ ہر حکومت کے کل پرزے یہی ہوتے تھے کیونکہ علم انھیں کے پاس تھا اور ایسا سسٹم بنا رکھا تھا جس میں دلتوں کو پڑھنے لکھنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ حالانکہ آج بڑا سوال یہ اٹھ رہا ہے ،برہمن اور اعلیٰ برادریوں کے افراد حاشیئے پر کیوں جارہے ہیں اور ان کے اندر غصہ کیوں ابل رہا ہے جوچند مہینے قبل کے ’بھارت بند‘کے دوران بھی دیکھا گیا تھا جو اعلیٰ ذات اور خاص طور پر برہمنوں کے اشتعال کا گواہ تھا۔نعرے لگ رہے تھے کہ’’ جب جب برہمن بولا ہے راج سنگھاسن ڈولا ہے‘‘ اور جو ’برہمن ہت کی بات کرے گا وہی دیش پہ راج کرے گا‘۔
اعلیٰ ذات کی ناراضگی کا اظہار
گزشتہ 6ستمبر کا ’بھارت بند‘کسی بڑی تنظیم کی طرف سے نہیں بلایا گیا تھا پھر بھی اس کا خاصااثر دکھائی پڑا جو اعلیٰ ذات کی حکومت سے ناراضگی کا اظہار تھا۔اکھل بھارتیہ ہندو برہمن سبھا،ہندو یووا شکتی،اکھل بھارتیہ شتریے مہاسبھا،ہندو یووا سنگٹھن،ہندو مہا سبھا ، بھومیہار،برہمن ایکتا منچ سمیت متعدد تنظیموں کے بینروں کے تحت لوگ سڑکوں پر اترے۔ مانگ یہ تھی کہ ایس سی ایس ٹی ایکٹ جو حال ہی میں پارلیمنٹ میں ترمیم کے ساتھ پاس ہوا ہے، اسے واپس لیا جائے۔ اصل میں سپریم کورٹ نے اس ایکٹ کے تعلق سے فیصلہ دیا تھا کہ اس کے تحت درج ہونے والے کیس میں کسی بھی فرد کی گرفتاری فوری طور پر نہ کی جائے، جب کہ ایس سی ایس ٹی طبقے کی مانگ تھی کہ فوری گرفتاری ہونی چاہئے۔ اس کے بعد دلتوں کے احتجاج کے سبب پارلیمنٹ میں قانون لاکر سپریم کورٹ کے فیصلے کو بدلا گیا۔اب اعلیٰ ذات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ اس دفعہ کے تحت جھوٹے الزامات میں بھی گرفتاریاں ہوتی ہیں اور بیشتر الزامات بعد میں فرضی پائے جاتے ہیں لہٰذا فوری گرفتاری نہ کی جائے اور سپریم کورٹ کے حکم کو برقرار رکھا جائے۔
وویک تیواری کیس میں برہمنوں کی صف بندی
بی جے پی کے خلاف اعلیٰ ذات کی صف بندی کا مظاہرہ صرف ایس سی، ایس ٹی ایکٹ میں ہی نہیں ہوا۔گزشتہ دنوں لکھنؤمیں وویک تیواری قتل کیس ہوا۔ چونکہ وویک تیواری ایک برہمن تھا لہٰذا اس کیس میں عام برہمن ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے برہمن نیتا بھی اپنی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ وویک تیواری قتل کیس کو لے کر یوگی حکومت کے وزیر اور پارٹی کے ایم پی، ایم ایل اے، برہمن۔ٹھاکر کے طور پر ذات پات اورگروپوں میں تقسیم دکھائی دےئے۔یہاں تک کہ یوگی حکومت میں شامل برہمن وزراء نے کھل کر پولیس کے طریقہ کار پر سوال اٹھائے اور بڑے افسروں پر اس معاملے میں لیپا پوتی کرنے کا الزام بھی لگایا۔ وزارت داخلہ کی ذمہ داری وزیر اعلی یوگی کے پاس ہے،اس کے باوجود، یوگی حکومت میں وزیر برجیش پاٹھک اور ریتا بہوگنا جوشی نے یوپی پولیس کو جم کر تنقید کا نشانہ بنایا۔یوگی حکومت میں وزیر قانون برجیش پاٹھک نے الزام لگایا تھا کہ پولیس وویک تیواری قتل کیس کو کمزور کرنے کے لئے حقائق سے چھیڑ چھاڑ کر رہی ہے۔وہیں خواتین و اطفال کے بہبود کی وزیر ریتا بہوگنا جوشی نے وویک تیواری کے خاندان سے کہا تھا، ’’پولیس والوں میں گرمی چڑھی ہوئی ہے‘‘ سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی کے سینئر برہمن لیڈر کلراج مشرا نے بھی اس معاملے میں یوپی پولیس پر سوال اٹھائے تھے۔انہوں نے کہا، جس طرح وویک تیواری کا قتل کیا گیا ہے، وہ بے حد قابل مذمت ہے۔ کلراج مشرا کے علاوہ بی جے پی کے 13 ممبران اسمبلی نے بھی اس واقعہ پر پولیس کی کارروائی کے تئیں ناراضگی ظاہر کی تھی۔ بعض ممبران اسمبلی نے اس سلسلے میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو خط بھی لکھا ۔جس سے ظاہر ہے کہ عام برہمن ہی نہیں بلکہ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ واسمبلی بھی اپنی حکومت ہی کے خلاف کھڑے ہونے لگے ہیں۔ یوگی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی پارٹی یوپی کے تمام ضمنی انتخابات میں ہاری ہے اور اب پارٹی کے کور ووٹر برہمن بھی اس کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہیں۔ اس بیچ مایاوتی نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ برہمنوں کا یوگی راج میں استحصال کیا جا رہا ہے۔ ‘‘ ظاہر کہ اس قسم کے بیانات بی جے پی کے خلاف برہمنوں کا مشتعل کرنے والے ہیں۔
برہمنوں کے غصے کا آتش فشاں پھٹنے والا ہے
بھارت ،گزشتہ پانچ ہزار سال سے اعلیٰ ذات کے لوگوں کے زیراقتدار رہا ہے اور ملک کا اکثریتی طبقہ وسائل زندگی سے محروم اور پسماندہ رہا ہے۔ اترپردیش ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں اونچی ذات کے لوگوں کا ہی دبدبہ چلا آرہا ہے۔ آزادی کے بعد بیشتروزراء اعلیٰ اونچی ذاتوں سے آئے۔ البتہ کانگریس کے دور اقتدار میں فرقہ وارانہ فسادات کی کثرت نے عوام کو پریشان کیا اور انھوں نے متبادل کے طور پر سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو ابھرنے کا موقع دیا۔ دونوں پارٹیاں نے پسماندہ طبقے کے وزراء اعلیٰ دئیے جب کہ ماضی میں بی جے پی نے بھی پسماندہ طبقے سے ہی کلیان سنگھ کو وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا۔ آزادی کے بعد اور1998 سے پہلے پسماندہ طبقے سے صرف ایک وزیراعلیٰ بنا تھا جب کہ 1989کے بعد اونچی ذات سے صرف راجناتھ سنگھ وزیراعلیٰ بنے تھے۔ اب مدتوں بعد یوگی آدتیہ ناتھ اس کرسی پر بیٹھے ہیں۔ اس دوران دلتوں کو شکایت ہے کہ ان پر ٹھاکروں کے مظالم بڑھ گئے ہیں جب کہ برہمنوں کو شکایت ہے کہ موجودہ سرکار میں انھیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں اس اشتعال میں تب اضافہ ہوا جب مرکزی سرکار نے ایس سی ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم کیا۔بہرحال غصے کا یہ لاوہ ایک مدت سے اندر اندر پک رہا ہے جس کی تپش کا احساس باہر والوں کو بھی ہونے لگا ہے مگر آنے والے دنوں میں یہ ابال پر آسکتا ہے اوراس کا خمیازہ بی جے پی کو بھگتنا پڑسکتا ہے کیونکہ اس کی سرکار ہے۔ آج اتر پردیش میں برہمنوں کو کھلے عام یوگی سرکار کو برا بھلا کہتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ حکومت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے ہیں اور اس کی ایک جھلک وویک تیواری قتل کیس میں دیکھنے کو ملی۔ اس کیس کو میڈیا نے ہائی لائٹ بھی اس لئے کیا کہ مقتول برہمن تھا، ورنہ اب تک درجنوں، دلتوں، مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے بے قصور افراد کو یوگی کی پولس نام نہاد انکاؤنٹر میں مار چکی ہے اور میڈیا خاموش رہا۔ 
کیا چاہتے ہیں برہمن؟
جو طبقہ ہزاروں سال سے اپنے لئے خصوصی حقوق رکھتا آیا ہے اگر آج اسے حاشیئے پر ڈال دیا جائے تو ناراضگی لازمی ہے۔ ملک میں نوکر شاہ آج بھی سب سے زیادہ اعلیٰ ذات سے ہیں۔ صنعت کار،میڈیا ہاؤسیز کے مالکان بھی اسی طبقے سے آتے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں میڈیا میں ’ہرہرمودی‘کا خوب غلغلہ رہا۔ حالانکہ اب برہمن خود کو اس لئے ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں کہ حکومت نے ان کی جانب توجہ نہیں دیا۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ، مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج چوہان، چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ رمن سنگھ، راجستھان کی وزیراعلیٰ سندھیاکوئی بھی برہمن نہیں ہے۔ یوگی کے سبب یوپی میں راجپوت تو سراٹھاکر چلتے ہیں اور دوسرے صوبوں میں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے مگر برہمن پوری طرح حاشیئے پر چلے گئے ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کا غصہ ساتویوں آسمان پہ ہے۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہندوستان میں برہمنوں کی آبادی پانچ فیصد سے بھی کم بتائی جاتی ہے مگر اس کے باوجود یہاں کے سماج پر ان کا دبدبہ رہا ہے ۔ آج سماج بدل رہا ہے اور کوئی بھی طبقہ اس کے لئے تیار نہیں کہ اس کے حقوق کی پامالی کر دوسرا طبقہ عیش کرے۔ حالانکہ آزاد ہندوستان میں بھی برہمنوں کا ہی بول بالا رہا ہے اور ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو برہمن ہی تھے۔ بعد کے دور میں بیشتر وزراء اور صوبائی وزراء اعلیٰ، برہمن ہوا کرتے تھے،کانگریس ،بی جے پی اور آرایس ایس میں برہمنوں کا ہی بولا بالا رہا مگر آج کے بدلتے ہوئے، حالات میں ان کی وہ پوزیشن برقرار نہیں رہی جو صدیوں سے چلی آرہی تھی۔80 کی دہائی میں جب سے اوبی سی سیاست کا آغاز ہوا اور سیاست نے ایک الگ رنگ وروپ اختیار کیا، تب سے برہمن حاشئے پرچلے گئے۔ اسی لئے کئی علاقوں میں برہمنوں ، اوبی سی طبقات اور دلتوں کے بیچ ٹکراؤ بھی دیکھنے میں آیا۔ آج ایک بار پھر ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے نام پر برہمن اور دلت آمنے سامنے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ٹکراؤ کی یہ صورت حال ملک کے لئے اچھی نہیں مگر اس کا سب سے بڑا نقصان بی جے پی کو پہنچ سکتا ہے جو اس وقت مرکز اور بیشتر ریاستوں میں برسراقتدار ہے۔ دلتوں کو خوش کرنے کی کوشش میں وہ اپنا برہمن ووٹ بھی گنواسکتی ہے حالانکہ دلت بھی حکومت سے خوش نہیں ہیں کیونکہ ان پرمعمولی معمولی باتوں کے سبب مظالم ہورہے ہیں۔ ان حالات کا فائدہ کانگریس، اٹھانے میں جٹی ہے۔آج جو راہل گاندھی’’ جنیودھاری‘‘ برہمن بن رہے ہیں اور مندر مندر گھوم رہے ہیں، یہ بے سبب نہیں ہے۔اگر بی جے پی سے اعلیٰ ذات کے ووٹروں کی ناراضگی کا سلسلہ جاری رہا اور یونہی کانگریس ان ووٹروں کو لبھاتی رہی تو آنے والے عام انتخابات اور اس سے پہلے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑسکتی ہے۔

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
22؍اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا