English   /   Kannada   /   Nawayathi

دلتوں اور آدیباسیوں کے غصے کا آتش فشاں تیار

share with us

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


دلت، ہندووں سے ناراض ہیں اور ہندو دھرم چھوڑ رہے ہیں جب کہ آدیباسی اپنے حقوق غصب کئے جانے کے سبب کہیں تشدد کے راستے پر چل پڑے ہیں تو کہیں اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے تحریک چلا رہے ہیں۔ پورے ملک کے دبے کچلے طبقے میں غم وغصے کی لہر ہے اور یہ غصہ کبھی بھی آتش فشاں کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ یہ غصہ ایک دن میں تیار نہیں ہوا ہے بلکہ اسے اس مقام تک پہنچنے میں ہزاروں سال لگے ہیں۔ آدیباسی اور دلت، ملک کے وہ محروم اور مجبور طبقے ہیں، جن پر اس ملک میں صدیوں سے ظلم جاری ہے اور آج بھی انھیں انصاف نہیں مل رہا ہے۔ آج جہاں ایک طرف دلتوں کے ساتھ بھید بھاؤ کیا جاتا ہے اور چھوت چھات کے سبب وہ ہندو سماج کا حصہ نہیں بن پائے ہیں، نیز معمولی معمولی باتوں پر انھیں مارا پیٹا جاتا ہے اور ان کی خواتین کی بے حرمتی ہوتی ہے ،وہیں آدیباسیوں کو ان کی زمینوں اور جنگلوں سے محروم کیا جارہا ہے اور ان پر قبضہ کرکے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جہاں ایک طرف دلت خود کو ہندو دھرم کی قید سے آزاد کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف آدیباسی تشدد کی راہ پر چلنے پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں۔ ان دونوں محروم طبقوں میں سخت ناراضگی ہے اور آنے والے دنوں میں ان کا غصہ ایک لاوا کی طرح بہہ سکتا ہے ،تب شاید ملک کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑے۔
ہندو دھرم کو خیرآباد
ہر مردم شماری میں ہندو آبادی میں کچھ کمی آجاتی ہے اور دوسرے طبقوں، خاص طور پر بدھسٹوں کی آبادی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے ہندووادی تنظیمیں مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں اور کہتی ہیں کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں جس کے سبب ہندووں کی آبادی میں کمی آرہی ہے۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ بڑی تعداد میں دلت، تبدیلی مذہب کر رہے ہیں اور ہندو دھرم سے اپنا ناطہ توڑ رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بدھ ازم قبول کر رہے ہیں جب کہ ایک چھوٹا طبقہ، عیسائی مذہب اور اسلام بھی قبول کر رہا ہے۔ گجرات کے اونا میں گؤ کشی کے نام پر دلتوں کو بری طرح زود کوب کرنے کی خبریں میڈیا میں آئی تھیں۔ مبینہ طور پراس واقعے کے بعد اب تک دس ہزار سے زیادہ دلت بدھ ازم قبول کرچکے ہیں۔ جنھوں نے اسلام اور عیسائیت قبول کیا ہے، ان کی تعداد نہیں معلوم۔43سالہ واجی بھائی راٹھور بھی انھیں، لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے ہندو مذہب کو چھوڑا ہے۔ گجرات کے اونا میں چند مہینے قبل تقریبا 450 دلتوں نے ہندو ھرم کو اجتماعی طور پر خیرآباد کہہ دیا۔ اپنے اوپر ہو رہے ظلم و تشدد کے چلتے موٹا سمادھیالا گاؤں کے قریب 50 دلت خاندانوں کے علاوہ گجرات کے دیگر علاقوں سے آئے دلتوں نے ،یہاں ایک تقریب میں ہندو ھرم، چھوڑنے کا اعلان کیا۔انہوں نے الزام لگایا کہ انہیں ہندو نہیں سمجھا جاتا، مندروں میں نہیں گھسنے دیا جاتا، اس لئے انہوں نے بدھ مت اپنا لیاہے۔ تقریب کے آرگنائزرس کا دعوی ہے کہ اس تقریب میں 450 دلتوں نے تبدیلی مذہب کیا ،جب کہ پروگرام میں 1000 سے زیادہ دلتوں نے حصہ لیا۔ بابو بھائی سرویا،ان کے بیٹوں رمیش اور وشرام کے علاوہ ان کی بیوی کنور سرویا نے ہندو دھرم کو اس لئے چھوڑدیا کہ ان پر گؤرکھشکوں نے مظالم ڈھائے تھے۔ بابو بھائی کے بھتیجے اشوک سرویا اور ان کے ایک اور رشتہ دار بیچر سرویا پہلے ہی ہندومت چھوڑ چکے ہیں۔ رمیش کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کے اندرموجود ذات پات اور چھوت چھات کے امتیازی سلوک کی وجہ سے، انہوں نے ہندو دھرم چھوڑا ہے۔انہوں نے کہا، ہندو گؤ رکھشکوں نے ہمیں مسلمان کہا تھا اورہندو ہم سے گریز کرتے ہیں ، اسی وجہ سے ہم نے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ ریاستی حکومت نے بھی ہمارے خلاف، امتیازی سلوک کیا، کیونکہ دلتوں کی ہراسانی کے واقعہ کے بعد جو وعدے ہم سے کئے گئے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے۔ رمیش نے کہا، ہم مندروں میں داخل ہونے سے روکے گئے ہیں۔ہندوہمارے خلاف بھید بھاؤ کرتے ہیں اور جہاں بھی ہم کام کرنے جاتے ہیں، ہمیں اپنے برتن لے جانے پڑتے ہیں۔اونا میں ہمیں اب تک انصاف نہیں ملا ہے اور ہمارے تبدیلی مذہب کے پیچھے کہیں نہ کہیں یہ بھی ایک سبب ہے۔واضح ہوکہ اس تبدیلی مذہب کے پروگرام کے مقام پر سخت پولس بندوبست کیا گیا تھا کیونکہ ہندووادی تنظیموں کی طرف سے تشدد کا اندیشہ تھا۔
بدھ ازم ہی کیوں؟
دلتوں کے لئے انصاف کی تحریک چلانے والے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے چونکہ ہندو دھرم چھوڑنے کے بعد بدھ ازم کو اپنایا تھا لہٰذا آج بھی ہندو دھرم چھوڑنے والے بیشتر دلت اسی راہ پر چلتے ہیں اور آئے دن مذہب تبدیل کرتے ہیں، حالانکہ اس کے باوجود انھیں انصاف نہیں مل رہا ہے اور آج بھی دلتوں کو عزت ووقار کی زندگی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے کا ماننا ہے کہ باباصاحب امبیڈکرنے بدھ مت تب اپنایاتھا، جب انہیں مکمل طور پریقین ہو گیا تھا کہ دلتوں کو ہندو مذہب میں انصاف نہیں ملے گا۔ سماجی انصاف اور امپاورمنٹ کے وزیر مملکت اٹھاولے کا کہنا ہے کہ امبیڈکر نے کٹر وادیوں کوخود کو بہتر بنانے کا موقع دیا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس وجہ سے انہوں نے مذہب تبدیل کیا۔غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ دلت اگر بدھ ازم قبول کرلیتے ہیں تو انھیں شڈول کاسٹ کو ملنے والی سہولیات سے محروم نہیں کیا جاتا جب کہ اسلام یا عیسائیت قبول کرنے کی صورت میں انھیں اس سے محرومی اختیار کرنی پڑتی ہے۔
آدیباسی غصے کا آتش فشاں
ملک بھرمیں قبائلی برادریوں کے اندر حکومت کے تئیں سخت غم وغصہ پایا جاتاہے،اس کا خمیازہ بی جے پی کو آئندہ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں اٹھانا پڑسکتا ہے۔جھارکھنڈ میں پتھل گڑھي تحریک تیزی پکڑ رہی ہے تو ممبئی میں 17 مئی 2018 کو عوامی تحریک نے الکا مہاجن کی قیادت میں آندولن کیا۔مہاراشٹر میں قبائلی مفادات کے لئے کام کرنے والے پروفیسر اشوک باگول، مہاراشٹر راجیہ آدیباسی بچاؤ ابھیان (ایم آراے بی اے) کے تحت قبائلی کمیونٹی کے درمیان، ان کے حقوق کو لے کر مسلسل سرگرم ہیں۔ 2017 میں، اس ادارے نے بڑے پیمانے پر ان کی اجتماعی شادی کرائی۔یہاں شادیاں راون کو گواہ بناکر کی جاتی ہیں۔مدھیہ پردیش میں جے آدیباسی یواشکتی (جیوایس) اور پتھل گڑي تحریک مل کرقبائلیوں کے مسائل پر مسلسل کمیونٹی کے درمیان جا رہے ہیں۔دیگر قبائلی تنظیموں کے ساتھ’ جیواس‘ کے سربراہ ہیراالاوہ ، اس کمیونٹی کے لڑکوں کے لئے کوچنگ کلاس بھی چلا رہے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ آدھے ادھورے طریقے سے لاگو ہونے والے’’ پیسا قانون‘‘ نے اس کمیونٹی کو زیادہ کمزور کیا ہے اور ان کی زندگی کو مشکل بنایا ہے۔ چھتیس گڑھ میں بھی آدیباسی تحریک دھیرے دھیرے پھل پھول رہی ہے۔مجموعی طور پر دیکھیں تو آدیواسی تحریک بھلے ہی ابھی چھٹ پٹ نظر آرہی ہو لیکن اگر آدیباسیوں کے ساتھ ملک میں انصاف نہیں ہوا تو آئندہ انتخابات میں یہ بی جے پی کے لئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔یہاں اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی کے خلاف آدیباسی تحریکوں کو متحد کیا ہے۔ ایسے میں اگر قبائلی تنظیموں کو اپوزیشن پارٹیاں اپنی طرف کھینچ پائیں تو اس سال ہونے والے تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور اگلے سال ہونے والے دو ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سمیت لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے لئے جیت کی راہ انتہائی مشکل ثابت ہو سکتی ہے۔ 18 جون کو جھارکھنڈ دشوم پارٹی نے 40 قبائلی گروہوں کے ساتھ احتجاج کیا۔اوڈیشا کے کالاہانڈی اور رائے گڑھ ضلع میں تو کارپوریٹ سیکٹر کے قبضے کے خلاف تحریک نظر آئی۔ڈونگیریا کوندھ طبقے نے یہاں باکسائٹ کی تلاش میں پہاڑوں میں کان کنی کے خلاف جو کامیاب مہم چلائی اس نے دنیا کومتوجہ کیا۔
آدیباسی آبادی کتنی؟
پورے ملک میں قبائلی آبادی اچھی خاصی ہے اور ریاستوں کی سطح پر تو یہ سیاسی الٹ پھیر کی صلاحیت رکھتی ہے۔مدھیہ پردیش میں قبائلی آبادی 21فیصد کے آس پاس ہے۔یہاں قبائلیوں نے آدیواسی یوا شکتی جیسی سیاسی جماعت بنالی ہے یا پتھل گڑھی آندولن میں شامل ہوگئے ہیں۔ مغربی بنگال میں قبائلی آبادی 6 فیصدسے زیادہ ہے۔یہاں ’’بھارت جکت ماجھی‘‘نامی تنظیم سرگرم ہے اور 60 سنتھالی اسکول چلاتی ہے۔ پنچایت انتخابات میں اس نے امیدوار بھی کھڑے کئے تھے۔اوڈیشا میں قبائلی آبادی 23فیصد ہے۔ یہاں پہاڑوں اور جنگلوں کو بچانے کے لئے آدیواسی کامیاب تحریک چلا چکے ہیں۔ مہاراشٹر میں قبائلیوں کی آبادی 11فیصد ہے اور یہاں آدیواسی کئی قسم کی تحریک چلا رہے ہیں۔ جھارکھنڈ میں قبائلی آبادی 26فیصد ہے۔یہاں پتھل گڑھی تحریک سینکڑوں گاؤں میں پھیل چکی ہے۔ چھتیس گڑھ میں قبائلی آبادی دوسری ریاستوں کے مقابلے زیادہ ہے۔ یہاں وہ 31 فیصد سے زیادہ ہیں۔یہاں کئی اضلاع میں وہ تشدد کے راستے پر چل رہے ہیں اور نکسل ازم کی راہ پر بھی جارہے ہیں،جس کا سبب صرف اور صرف ان کے حقوق کا نہ ملنا ہے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

14اکتوبر۲۰۱۸ (ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا