English   /   Kannada   /   Nawayathi

مہاگٹھ بندھن میں کانگریس کی عد م دلچسپی خود اعتمادی، لاپروائی یا خوف 

share with us


ندیم عبدالقدیر 


۲۰۶سیٹوں سے ۴۴سیٹ پر پہنچ جانے کے باوجود بھی کانگریس کااندازِ بے نیازی ہے کہ بدلنے کا نام نہیں لے رہا۔پانچ سال سے ذلیل و رسوا ہونے کے باوجود بھی اس میں عزتِ نفس نامی کوئی شئے بیدار نہیں ہوئی۔ اْسے احساس ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی ملک میں اقتدار کا محور ہوا کرتی تھی۔ کانگریس کا وجود اور اثر دھیرے دھیریسکڑتا جارہا ہے۔ اتنا سب ہونے کے باوجود بھی کانگریس اعلیٰ کمان اور اعلیٰ لیڈران کے انداز و اطوار میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔بی جیپی کے خلاف ایک وسیع محاذ کھڑا کرنے میں کانگریس نے اب تک کسی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اسے کانگریس کی خود اعتمادی کا نام دیں، لاپروائی مانیں یا پھر خوف سمجھیں ۔ 
مہاراشٹر میں ایم آئی ایم اور پرکاش امبیڈکر کے درمیان اتحاد ہوگیا ہے۔ اس اتحاد کو مہاراشٹر کے جغادری صحافیوں نے بھی ’ مسلم دلت‘اتحاد اورایک اچھا قدم قرار دیا۔ بی جیپی بھی حلیف جماعتوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔کمیونسٹ لیڈران بھی عظیم اتحاد کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ شرد پوار ،ممتا بنرجی ، اروند کیجری وال،مایاوتی ، اکھلیش یادو وغیرہ بھی اتحاد کی کوشش کررہیہیں۔ اگر کوئی پارٹی اس معاملے میں کسی بھی طرح کی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے تو وہ صرف کانگریس ہے۔ کانگریس کے مقابلے میں دیگر لیڈر اس میں کافی فعال نظر ا?رہے ہیں۔ خصوصاً شرد پوار، لالوپرساد یادو اور کمیونسٹ لیڈران۔ یعنی جو کام کانگریس کو کرنا چاہئے تھاوہ کام یہ لیڈران کررہے ہیں۔ 
مایاوتی کے ساتھ کانگریس کی مفاہمت کاشور تھا۔ انتخابی مفاہمت کی کوششیں ہوئیں۔ سونیا گاندھی اور مایاوتی کی ساتھ میں تصاویر بھی شائع ہوئیں لیکن اس کے بعد نامعلوم وجوہات پر ان رشتوں پر برف پڑنے لگی۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ مایاوتی نے پہلے چھتیس گڑھ میں کانگریس کا دامن جھٹک کر اجیت جوگی سے معاملات استوار کر لئیپھر مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی اس نے کانگریس سے ترکِ تعلق اختیارکرلیا۔ مایاوتی کے علیحدہ ہوجانیکے بعد ایک بڑے محاذ کی جو امید بندھی تھی وہ بھی معدوم ہوگئی۔ 
عام آدمی پارٹی کے ساتھ پنجاب اور دہلی میں گٹھ بندھن پر بھی کانگریس کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ حالانکہ عام آدمی نے واضح طور پر کہا تھا کہ بی جیپی کو شکست دینے کیلئے دہلی اور پنجاب کی سیٹوں پر کانگریس سے بات کی جاسکتی ہے ،لیکن کانگریس نے اس پر اپنی خاموشی نہیں توڑی۔ کانگریس دیگر پارٹیوں پر ’ووٹ کاٹنے‘ اور سیکولر طاقتوں کو نقصان پہنچانے کا الزام لگاتی ہے لیکن یہاں کانگریس ،عام آدمی پارٹی کے ساتھ مفاہمت نہیں کرکے ’ ووٹ ‘ کاٹنے کا کام کرنے والی ہے۔ 
مہاراشٹر میں این سی پی ، کانگریس کی مضبوط حلیف جماعت ہے لیکن یہاں بھی اب تک دونوں جماعتوں کی مفاہمت کے بارے میں باضابطہ طور پرکانگریس کی طرف سے کوئی خاص ہلچل نہیں دیکھی گئی ہے۔ وکھے پاٹل کیدفتر میں ایک میٹنگ ہوئی بس۔ حالانکہ شرد پوار کی طرف سے ایسے بیانات لگاتار ا?رہے ہیں جو عظیم اتحاد کا اشارہ کرتیہیں۔ 
یوپی میں بہوجن سماج، سماج وادی اور کانگریس کے عظیم اتحاد کے بارے میں بھی اب تک باتیں صاف نہیں ہوئی ہیں۔ کانگریس اگر کسی کے ساتھ ٹھوس مفاہمت میں ہے تو وہ صرف اور صرف راشٹریہ جنتا دل ہے۔ یہ اتحاد بھی لالوپرساد یادو کی محنت کا ثمر ہے۔ جنوب میں بھی کانگریس نے اب تک کسی کے ساتھ سیاسی اتحاد کی کوششیں نہیں کی ہے۔ 
کیا کانگریس واقعی نااہل ، سست ، کاہل، لاپروااور سیاسی بلوغت سے اتنی دور ہے کہ اسے اتحاد کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہوپارہا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نہ ہی کانگریس نااہل ہے اور نہ ہی سیاسی بصیرت سے محروم ہے۔ اس کی ایک الگ پالیسی اور مقصد ہے۔ وہ ، ملک میں دو پارٹی کا ہی راج چاہتی ہے۔ اِس کھیل کو سمجھئے۔بی جیپی کے پاس ووٹ بینک کی ایک حد ہے ، کیونکہ اس کے پاس اعلیٰ ذات ہندوؤں کے ووٹ کے سوا دیگر ووٹ نہیں ہیں۔ اعلیٰ ذات ہندو ۲۰فیصد تک ہیں،جبکہ او بی سی ووٹر سب سے زیادہ یعنی ۴۰فیصد، دلت ۲۰فیصد مسلمان ۱۵فیصد اور سکھ و دیگر ۵فیصد ووٹر ہیں۔۲۰فیصد کے علاوہ جو۸۰فیصد بچتا ہے کانگریس اس پر اپنی اجارہ داری اور بلا شرکت غیرے حکمرانی چاہتی ہے۔ 
کانگریس کا خیال ہے کہ مہاگٹھ بندھن اس کی سیاسی زندگی کیلئے مفید نہیں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ،اگر دیگر پارٹیاں مضبوط ہوتی ہیں تو خود کانگریس کا وجود خطرہ میں پڑسکتا ہے۔ یہ پارٹیاں بی جیپی کے روایتی اعلیٰ ذات ہندوؤں کے ووٹوں کو تو متاثر نہیں کرسکتی ہیں البتہ’ او بی سی ، مسلم اور دلت‘ ووٹ یقیناً کانگریس سے چھین سکتی ہیں۔ بی جیپی کے علاوہ دیگر پارٹیوں کا عروج کانگریس کا زوال بن سکتا ہے۔ اسلئے اسے بی جیپی سے تو کوئی پریشانی نہیں ہے بلکہ وہ خوش ہے کہ بی جیپی کا وجود حزب اختلاف کے خلا کو پْر کرنے کیلئے بہت ضروری ہے۔ 
وہ خوشی خوشی بی جے پی کو ۱۸یا ۲۰فیصد ووٹ دے کراِسے دوسری سب سے بڑی پارٹی بنانے اور اپوزیشن کی سیٹ پر بٹھانے کو تیار ہے (تاکہ کوئی اور پارٹی اس خلاء4 کو پْر نہ کردے) کیونکہ اگر کوئی دوسری پارٹی یہاں بیٹھے گی تو وہ کانگریس کیلئے مستقل پریشانی بن سکتی ہے، جبکہ بی جے پی ایسا کرنے سے قاصر ہے۔
وہیں وہ چاہتی ہے کہ او بی سی ، دلت اور مسلم ووٹ لینے کیلئے کوئی دیگر پارٹی کھڑی نہ ہو، کیونکہ اگر ایسا ہوتاہیتو اْس دیگر پارٹی کا ووٹ شیئر کانگریس سے زیادہ ہوسکتا ہے اس صورت میں کانگریس بہت پیچھے جاسکتی ہے۔ اس کی چند مثالیں موجود ہیں۔جن جن ریاستوں میں بی جیپی نے کانگریس سے اقتدار چھینا ہے وہاں کانگریس کی واپسی کے امکانات ہیں لیکن جن ریاستوں میں دیگر پارٹیوں نے کانگریس سے اقتدار چھینا ہے وہاں کانگریس کے اقتدار میں لوٹنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ جہاں کانگریس کا مقابلہ بی جیپی کے علاوہ کسی دیگر پارٹی سے ہے وہاں کانگریس کی حالت انتہائی خستہ ہوچکی ہے۔ جیسے یوپی میں کانگریس چوتھے نمبر پر پہنچ گئی ، بہار میں بھی یہ چوتھے مقام پر پھسل گئی ہے، مغربی بنگال میں اس کا وجود نہ کے برابر ہے ،دہلی میں فی الوقت ایک بھی ایم ایل اے نہیں ہے، تمل ناڈو میں وہ اپوزیشن کے عہدہ سے بھی بہت دور ہے آندھرا ، تلنگانہ میں بھی بہت برا حال ہے۔ کیرالہ میں کانگریس تھوڑی اہمیت رکھتی ہے۔ 
اس کے مقابلے میں وہ ریاستیں جہاں بی جے پی حکومت میں ہے وہاں کانگریس برابری کا مقابلہ کررہی ہے۔ جیسے راجستھان ، اتراکھنڈ۔یہاں ایک بار بی جے پی اور ایک بار کانگریس والا معاملہ ہے۔مدھیہ پردیش میں بی جیپی اقتدار میں ہے لیکن دوسرے نمبر پر کانگریس ہی ہے۔ یہاں بھی دونوں میں تقریباً برابری کا مقابلہ ہے، اور امید کی جارہی ہے کہ دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں کانگریس جیت جائے۔ گجرات میں حالانکہ بی جیپی لمبے عرصے سے اقتدار میں ہے لیکن کانگریس یہاں بھی دوسرے نمبر پرہی ڈٹی ہوئی ہے ، پچھلے ریاستی الیکشن میں تو ایک وقت ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کانگریس شاید بی جیپی کو شکست دیدے گی۔ مہاراشٹر میں اس کا مقابلہ بی جیپی سینا سے ہے۔ یہاں زیادہ تر کانگریس حکومت میں ہی رہتی ہے اور بھگوا محاذاپوزیشن میں ، بالکل اس طرح جیسی کانگریس کی آرزو ہے۔ کرناٹک میں بی جیپی سے مقابلہ ہے یہاں کانگریس کا پلہ بھاری ہے۔یعنی کانگریس کیلئے بی جیپی اتنی خطرناک نہیں ہے جتنی دیگر پارٹیاں ہیں۔ کانگریس کا ریاضی ایکدم سیدھا ہے۔خود حکومت میں رہو اور اپوزیشن میں بی جیپی کو بٹھاو?کیونکہ بی جیپی زیادہ بڑا خطرہ نہیں بن سکتی ہے لیکن اگر کوئی دیگر پارٹی بیٹھ جائے تو وہ بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔کئی ریاستوں میں کانگریس نے اسے جھیلا ہے۔ وہ مرکز میں اسے کسی بھی قیمت دیکھنا پسند نہیں کرے گی اسی لئے وہ گٹھ بندھن سے پہلے وہ پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہتی ہے کہ کہیں بی جیپی کو شکست دینے کے چکّر میں کوئی دوسری پارٹی کانگریس سے زیادہ طاقتور نہ بن جائے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
09؍اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا