English   /   Kannada   /   Nawayathi

وزیراعظم کا اُمیدوار ایک اور

share with us


حفیظ نعمانی

جس پارٹی کے نام میں علماء کا لفظ شامل ہو اسے اگر خدا کا خوف ہے تو اس کا خیال کرنا چاہئے کہ علماء کو علوم نبوتؐ کا وارث کہا گیا ہے۔ اور اس وراثت کے ہوتے ہوئے جھوٹ فریب دھوکہ دغابازی اور غبن کرنا اور اس کے باوجود اپنے کو مسلمان کہلانا ایسا گناہ ہے جو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ گذشتہ دس سال سے ایک تنظیم اپنے کو راشٹریہ علماء کونسل کہتی اور کہلاتی ہے۔ دس سال میں ہونے والے ہر الیکشن میں اس نے کسی نہ کسی شکل میں حصہ لینے کی بات کی ہے۔ لیکن جو اُن کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا نہ لوک سبھا میں کوئی ممبر ہے نہ راجیہ سبھا میں اور نہ اسمبلی میں کوئی ہے نہ کاؤنسل میں۔ اس کی وجہ جو بھی ہو، ہوتا یہ ہے کہ وہ اس الیکشن سے کچھ نہ کچھ کما لیتے ہیں۔
دنیا کے وجود میں آنے کے بعد لینا اور دینا انسان کی ضرورت رہی ہے ایک زمانہ تک جب سکہ ایجاد نہیں ہوا تھا تو سامان کا لینا دینا ہی ضرورت پوری کرتا تھا ایک انسان کپڑا بناتا تھا دوسرا جوتا بناتا تھا ایک گیہوں اُگاتا تھا دوسرا دالیں اُگاتا تھا ایک نمک مرچ کا انتظام کرتا تھا دوسرا گڑ اور آگ کا انتظام کرتا تھا اور ایک دوسرے سے اپنی ضرورت کی چیز لے لی جاتی تھی اور اس کی ضرورت کی دے دی جاتی تھی۔
آخر ایک وقت وہ آیا کہ درمیان میں سکہ آگیا اور ہر چیز کی قیمت بنانے والوں نے مقرر کردی ضرورت کے لئے مرد بکنے لگے اور عورتیں بھی بکنے لگیں اور جن کو پروردگار نے اولاد نہیں دی وہ بچہ بھی خریدنے لگے۔ اور پھر اس خرید اور فروخت نے اتنی ترقی کی کہ علم بھی بکنے لگا دین بھی بکنے لگا ڈگریاں بھی بکنے لگیں اور آج دنیا یہاں تک تو آگئی ہے کہ تعلق بھی بکنے لگا اور بے تعلق بھی۔ جن پارٹیوں کے پاس ہزاروں کروڑ روپئے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو خریدنے لگیں اور آدمی کا ووٹ بھی خریدا جانے لگا اور اس کا گھر میں بیٹھا رہنا اور ووٹ ڈالنے کے لئے نہ جانا بھی خریدا جانے لگا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض پارٹیاں صرف اس لئے بنائی جانے لگیں کہ وہ الیکشن میں کچھ نہ کچھ کما لیں گی۔ دنیا کا کوئی سودا اتنا غیریقینی نہیں ہے جتنا الیکشن جو پارٹی یا اُمیدوار ووٹ خریدتا ہے اس کی نہ رسید ہوتی ہے نہ بیع نامہ اور جو پارٹی یا دلال یا فرد فروخت کرتا ہے وہ اگر بے ایمان ہے تو کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔
گذشتہ برسوں میں نہ جانے کتنے ایسے لیڈر پیدا ہوئے جنہوں نے ایک مسلم پارٹی بنالی اور سیکولر پارٹیوں کے دشمنوں سے سودا کرلیا۔ یہ سودا تو کوئی نہیں کرتا کہ ہم آپ کی پارٹی کو مسلم ووٹ دلوا دیں گے۔ وہ یہ سودا کرتے ہیں کہ سیکولر پارٹی کو مسلم ووٹ نہیں جانے دیں گے یا ہم خود لے لیں گے یا ان کو اس پر تیار کرلیں گے کہ پیسے لے لو اور ووٹ کسی کو نہ دو۔ یہ سودا ایسا ہے کہ اسے آسانی سے وہ جاہل قبول کرلیتے ہیں جو اس نزاکت کو نہیں سمجھتے کہ ووٹ نہ دینا بھی دشمن پارٹی کو ووٹ دینا ہے۔
راشٹریہ علماء کاؤنسل کا دسواں یوم تاسیس لکھنؤ میں منایا گیا۔ اس جلسہ میں یقیناًمسلمانوں کی غالب اکثریت ہوگی حیرت ہے کہ مسلمانوں کے شعور کو کیا ہوگیا ہے کہ جو داڑھی والا مداری ڈگڈگی بجاتا ہوا آئے اس کا تماشہ دیکھنے آجاتے ہیں؟ اخبار کی خبر کے مطابق اس جلسہ میں 10 سال کی جدوجہد سے متعلق ایک کتاب بھی تقسیم کی گئی۔ افسوس ہے کہ کتاب کا صرف ذکر ہے ظاہر ہے کہ اس میں صرف جھوٹ کے علاوہ اور کیا ہوگا؟ اس لئے کہ کارگذاری میں اسمبلی سے پارلیمنٹ تک ایک نام بھی نہیں ہوگا جسے جتاکر بھیجا گیا ہوگا۔ اور حالت یہ ہے کہ عامر رشادی نے کہا کہ علماء کاؤنسل ہی اکیلی ایسی سیاسی پارٹی ہے جس نے تحریک کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ (یہ بات اعظم گڑھ کا ہر آدمی جانتا ہے کہ اس پارٹی نے کس کی کوکھ سے جنم لیا ہے)
اب تک عامر صاحب صوبائی پارٹیوں کا مکھن نکالتے تھے اب ان کی داڑھی کے زیادہ بال سفید ہوگئے تو انہوں نے 130 کروڑ آبادی والے ملک کی پارلیمنٹ کی طرف دیکھنا شروع کیا ہے۔ موجودہ حکمراں این ڈی اے اور سابق ایم پی اے کے مقابلہ میں سوشت سماج ایلائنس بنانے کا اعلان کیا ہے اب وہ کیرالہ، تمل ناڈو، کرناٹک، منی پور، اروناچل، تری پورہ، میگھالیہ، اُڑیسہ اور گوا ہر جگہ اپنے اُمیدوار کھڑے کریں گے اور اپنے دم پر حکومت بناکر خود وزیراعظم بنیں گے اور مولوی طاہر مدنی کو وزیر داخلہ بنائیں گے۔ انہوں نے وجہ یہ بتائی کہ یہ پارٹیاں اپنی مدت کار میں ملک کے عوام کو بنیادی سہولت تک مہیا نہیں کراسکی ہیں۔
ہم آج آتش کی طرح اپنی جوانی کو یاد کرکے روتے رہے کہ ہمارا زمانہ ہوتا تو شیخ چلی کی اولادوں کی گندے انڈوں اور ٹماٹروں سے ایسی خاطر کرتے کہ زردی اور سفیدی میں لپیٹ کر آملیٹ بن جاتے۔ یہ سیاسی گرہ کٹ اور ووٹ فروش جنہوں نے 2017 ء کے اسمبلی الیکشن میں 80 اُمیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا اور شہرت کی حد تک مایاوتی سے سودا کرکے سب کو بٹھا دیا اور مایاوتی سر پکڑکر روتی رہ گئیں۔ اب لوک سبھا کے الیکشن میں ہر اس سیٹ پر مسلمان کو کھڑا کرنے کا ڈرامہ کیا جائے گا اس کے بعد امت شاہ اگر داڑھیوں کے جال میں پھنس گئے تو ملک کے نہ سہی اعظم گڑھ کے وزیراعظم تو بن ہی جائیں گے۔
ہم حضرت مولانا مجیب اللہ ندوی کے نیاز مندوں میں ہیں وہ ندوہ میں پڑھتے رہے تو ممتاز رہے، دارالمصنفین میں رہے تو معارف میں تبصروں میں کسی کی رعایت نہیں کی جن بڑوں کے سامنے لوگ گردن جھکاتے تھے ان کے سامنے بھی مولانا سینہ تان کر کھڑے رہے اور دارالرشاد کے لئے سب سے مورچہ لیا۔ وہ عالم تھے اور ہم جس خاندان میں پیدا ہوئے اس میں آج 13 عالم دین ہیں ہم لفظ علماء جس جماعت کے نام میں شامل ہو اسے ایسی حرکتیں نہیں کرنے دیں گے جن سے خودکشی بہتر ہو۔
اپنے ملک میں مسلمان کب کس کو ووٹ دیں یہ ہر الیکشن میں طے کرنے کی بات ہے؟ ہم نے سیکڑوں مضمون کانگریس کی مخالفت میں لکھے ہیں لیکن آج یہ لکھ رہے ہیں کہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں صرف کانگریس کو ووٹ دے اور جو نام کی مسلم پارٹیاں اسلام اور مسلمان کی دُہائی دیں ان کے بارے میں یقین کریں کہ وہ دشمن کے ایجنٹ ہیں اور ان سے پیسے لے کر مسلمانوں کو فروخت کررہے ہیں۔ ایسے لیڈر بھی آئیں گے جو مسلمان کا ووٹ مسلمان کو، کا نعرہ دیں گے۔ ہم قسم کھاکر کہتے ہیں کہ وہ سب دشمن کے ایجنٹ ہوں گے ان دو صوبوں میں اس وقت یہ کرنا ہے اور 2019 ء کے الیکشن میں آگے کا پروگرام بتائیں گے۔
انشاء اللہ
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
08؍اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا