English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسلام میں جانوروں کے حقوق

share with us

 

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

 

اللہ پاک نے زمین و آسمان اور ساری کائنات کی تخلیق کےبعد انسانوں کو پیدا فرمایا اور دنیا میں اپنا خلیفہ بناکر مبعوث کیا پھر یہاں کی ہر چیز کو انسان کے لیے سامانِ منفعت قرار دیا،جیساکہ سرکار دو عالم ﷺنے ارشاد فرمایا:ساری کائنات تمہارے نفع کےلیے پیداکی گئ ہے اور تم محض آخرت کےلیے پیداکیے گئے ہو۔(تنبیہ الغافلین)

یہ امر واقعی ہے کہ جانور ساری دنیا کی زندہ اشیاء کا سب سے بڑا حصہ ہے اور یہ بھی  حقیقت ہے کہ ان جانوروں کی مختلف ساخت و بناوٹ،متنوع ڈھانچے، ان گنت شکلیں،عجیب و غریب عادتیں یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ان کا مشاہدہ کرنے والاہر شخص قدرتی طور پر ان کی طرف کھنچا چلا جاتاہے،ان میں سےکسی بھی جاندار کی خلقت پر غوروفکرکرنا انسان کو اللہ تعالی کے لامتناہی علم و قدرت سے روشناس کراتا ہے نیز قرآن کریم میں بھی بہت سی آیات ہیں جن میں اللہ کی توحید خالص کا ذکر کیا گیا ہے پھر توحید کے اثبات اور اس کی تفہیم میں عام طورپر جانوروں کی خلقت کا تذکرہ کیاگیا ۔ بعض مقامات پر تو خاص خاص جانوروں کو نام بنام بیان کرتے ہوئے ان کی انوکھی اور حیرت انگیز تخلیق پر غوروفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

گزرتے زمانے کے ساتھ سائنسی ایجادات نے بھی یہ ثابت کردیاہے کہ دنیا کی کوئی چیز عبث اور بے کار نہیں ہے،ہرچیز کا ایک مقصد ہے اور کارخانۂ قدرت میں اسی مقصد کے لیےاسے لایاگیاہے،جانوروں سےبھی انسانوں کی بہت سی ضروریات وابستہ ہیں، کچھ جانوروں سے گرم لباس و کپڑے مثلاً کمبل، شال، ٹوپی، خیمہ،چرمی جوتے ،چپل اور طرح طرح کے بہت سے ضروری سامان حاصل ہوتے ہیں،کچھ جانور کھیتی، سواری اور باربرداری کے کام آتے ہیں،کچھ سے دودھ، دہی، مکھن، گھی، پنیر، گوشت اور بہت سی مفید غذائیں تیار ہوتی ہیں۔ الغرض دنیا میں موجود بہت سے جانوروں میں ہم انسانوں کیلئے فائدہ ہی فائدہ ہے اور ہمیں ان سے آرام ہی آرام ملتا ہے، کتاب ہدایت قرآن مجید کی متعدد سورتوں (خاص طور سے سورۃ آل عمران:14، سورہ الانعام :142 سورہ نحل: 80، سورہ شعراء:133، سورہ حج: 30، سورہ مومنون:21، سورہ غافر:79 اورسورہ زخرف:12) کی مختلف آیتوں میں اللہ تعالٰی نے اپنی ان گنت نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے جانوروں کا بھی تفصیلی تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے کہ ’’ اور چوپائے (جانور) بھی اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمایا ہے ان میں تمہارے لئے گرم لباس بھی ہے اور (بے شمار دوسرے) فائدے بھی ہیں، اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو اور ان کی وجہ سے تمہاری شان بھی ہے، اور وہ تمہارے بوجھ بھی اٹھاتے ہیں، اور گھوڑے خچر اور گدھے کو (اللہ تعالیٰ ہی نے تمہارے لئے پیدا فرمایا ہے) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور یہ جانور (تمہارے لئے) باعث زینت بھی ہیں‘‘۔ (سورہ نحل: 7،5 مختصراً) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو ہم انسانوں کیلئے مسخر کردیا ہے اور ہمیں ان پر پورا قبضہ اور تصرف عطا فرمایا ہے، ان کو ہمارے تابع فرمان کردیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ حقیقت نہایت موثر اور بلیغ انداز میں یوں بیان کی ہے کہ’’ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان (انسانوں) کیلئے چوپائے (بھی) پیدا کئے ہیں، جن کے یہ مالک ہیں اور ان چوپایوں کو ہم نے ان کا تابع بنادیا ہے، جن میں سے بعض تو ان کی سواریاں ہیں اور بعض کے گوشت (یہ انسان) کھاتے ہیں اور پینے کی چیزیں‘‘۔ (سورہ یٰسین: 71-73)۔ دنیا میں موجود سارے حیوانات اللہ تعالیٰ ہی کی مخلوق ہیں، دنیا میں ان کا وجود جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے،وہیں دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت و نعمت کا مظہر ہے اور ہم انسانوں کیلئے منفعت، سہولت اور زینت کا باعث ہے۔

آمد اسلام سے قبل جاہلیت کے تیرہ و تاریک دور میں  اہل عرب خصوصاً اور اہل دنیا عموماً وحشت اور قساوت کی وجہ سے حیوانات پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے تھے وہ جانوروں کو اندھا دھند مار کر گرادیتے تھے اور لوگوں کو کہتے تھے کہ ان کو کھاجاؤ اور اس کو فیاضی و دریادلی کی انتہاسمجھتے تھے۔ دو آدمی شرط باندھ کر کھڑے ہوجاتے تھے اور ہر ایک باری باری اپنا  اونٹ ذبح کرتا چلاجاتا تھا جو رک جاتا وہ ہارجاتا یہ سب جانور دوست واحباب کی دعوت کے نذر ہوجاتے، یہ بھی سخاوت سمجھی جاتی تھی ان واقعات کا ذکرشعراء عرب نے اپنےمتعدد اشعار میں کیا ہے۔ ایک دستور یہ بھی تھا کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کی سواری کے جانور کو اس کی قبر پر باندھ لیتے تھے اور اس کو دانہ گھاس اور پانی نہیں دیتے تھے اور وہ اسی حالت میں سوکھ کر مرجاتا ایسے جانور کو بلیہ کہتے تھے اسلام آیا تو اس سنگدلی کو مٹادیا عرب میں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ جانور کو کسی چیز سے باندھ کر اس پر نشانہ لگاتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے جانوروں کے گوشت کو ناجائز قراردیا کہ کسی ذی روح چیز کو اس طرح نشانہ نہ بنایا جائے۔(ترمذی،باب ماجاء فی کراہیۃ اکل المصبورۃ ابواب الصید)اس سے بھی زیادہ بے رحمانہ طریقہ یہ تھا کہ زندہ اونٹ کے کوہان اور دنبہ کے دم کی چکی کاٹ کر کھاتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آکر یہ حالت دیکھی تو فرمایا کہ اس طریقے سے زندہ جانوروں کا جوگوشت کاٹ کر کھایاجاتاہے وہ مردار ہے۔ (ترمذی، باب ماجاء ماقطع من الحی فہو میت ابواب الصید)

مختصر یہ کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو بتایا کہ جس طرح انسانوں کی ایذاء رسانی ایک شرعی اور اخلاقی جرم ہے اسی طرح جانوروں کی ایذاء رسانی بھی ایک مذہبی گناہ اور سنگدلی کی علامت ہے۔

جانوروں کو کھلانے کی ترغیب:

حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جوبھی مسلمان کھیتی لگائے یا پودا لگائے، پھر کوئی انسان یا پرندہ یا چوپایہ اس میں سے کھا لیوے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔(مسلم)

ایک شخص نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے حوض میں پانی بھرتاہوں اپنے اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے ، کسی دوسرے کا اونٹ آکر اس میں سے پانی پیتا ہے توکیا مجھے اس کا اجر ملے گاتو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:”ہر تر جگر رکھنے والے میں اجر وثواب ہے“ (مسند احمد)

ان دونوں روایتوں سے جان دار چیز کو کھلانے پلانے کا اجر معلوم ہواکہ کوئی بندہ کھیتی بوئے اور اس کھیتی میں سے کوئی جان دار کھا لیتا ہے اور اس کھیتی کے مالک کو پتہ بھی نہیں کہ اس کی کھیتی سے چوپائے پرندے وغیرہ جو کھارہے ہیں اس کے نامہٴ اعمال میں صدقے کا اجر لکھا جارہا ہے، اب اگر کسی نے کسی جان دار کو پال رکھا ہو اور پھر اسے چارہ ودانہ وغیرہ دیتا ہو تو اس پر کتنا اجر ہو گا؟! اسی طرح کسی جانور کو تکلیف دینا، انہیں بھوکا رکھنا سخت ترین گناہ ہے ۔

حضرت ابن عمر وابوہریرہ رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کے سبب عذاب ہوا تھا کہ اس نے اس کو پکڑ رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی ،سو نہ تو اس کو کچھ کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض، یعنی زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لے۔(مسلم)

کتنی سخت وعید ہے کہ ایک بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے اس عورت کو جہنم کا عذاب ہو رہا تھا، ایک اور روایت میں امام ترمذی ذکر کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا، جس کو ایک بلی کے معاملے میں اس طرح عذاب ہو رہا تھا کہ وہ بلی اس کو نوچتی تھی جب کہ وہ عورت سامنے آتی تھی۔

بلاوجہ تکلیف دینے کی ممانعت:

ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ کسی سفر کے پڑاؤ میں تھے آپ ضرورت سے کہیں تشریف لے گئے،  جب واپس آئے تو دیکھا کہ ایک صاحب نے اپنا چولہا ایسی جگہ جلایاہے جہاں زمین پر یادرخت پر چیونٹیوں کا سوراخ تھا۔ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ یہ کس نے کیا ہے؟ ان صاحب نے کہا یارسول اللہ میں نے کیاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کو بجھاؤ! (مسند احمد بن حنبل ج:۱ ص:۲۹۶) غرض یہ تھی کہ ان چیونٹیوں کو تکلیف نہ ہو ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے، ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے، ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، وہ چڑیا آ کر زمین پر پر بچھانے لگی، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے، اور (یہ دیکھ کر) فرمایا: ”اس چڑیا کا بچہ لے کر کس نے اسے بے قرار کیا ہے؟ اس کے بچے کو اسے واپس کرو“، اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی کو دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا تو پوچھا: ”اس کو کس نے جلایا ہے؟“ ہم لوگوں نے کہا: ہم نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ سے عذاب دینا آگ کے مالک کے سوا کسی کو زیب نہیں دیتا“۔(ابو داؤد)

باربرداری میں اعتدال کا حکم:

اس عنوان کے تحت مولانا مجیب اللہ ندوی لکھتے ہیں :اسلام نے محنت کش جانوروں تک کے حقوق کا تحفظ کیا ہے، جب کہ دنیا کے کسی مذہبی یا سیاسی دستور میں محنت کش جانوروں کے حقوق کا کوئی ایسا مکمل قانون موجود نہیں ہے جس میں ان کے حقوق کی پوری ضمانت و حفاظت کی گئی ہو،اگر کہیں قانونی طور پر بعض جانوروں کی حفاظت بھی کی گئی ہے، تو اس کا تعلق محض جذبات و روایات یا محض مادی منفعتوں سے ہے،مگر اس حیثیت سے ان کے حقوق متعین نہیں کئے گئے ہیں کہ وہ بھی خدا کی ایک بے زبان مخلوق ہیں، اس لئے ان کے ساتھ بھی انسان کو رحم و کرم کا معاملہ کرنا چاہئے۔ ضرورت کے لئے ان سے کام لینا اور فائدہ اٹھانا تو صحیح ہے، مگر ان پر ظلم و ستم کرنا، ان کو آرام نہ پہنچانا اخلاق و قانون دونوں لحاظ سے مجرمانہ فعل ہے۔(اسلامی قانون محنت و أجرت)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم سبزہ والی زمین میں سفر کرو تو اونٹوں کو انکا حصہ دو(مسلم: باب مراعاة مصلحة الدروس،حدیث:۱۹۲۶)یعنی اثنائے راہ اگر ہریالی نظر آئے تو ان کو کچھ چرنے اور آرام لینے کا موقع دو ،بھوکا ، پیاسا مسلسل چلاکر ان کو نہ تھکاوٴ۔اسی طرح ایک جانور پر تین آدمیوں کو سوار ہونے سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے(مسلم: باب فضائل عبداللہ بن جعفر، حدیث:۲۴۲۸)ابنِ ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے تین لوگوں کو خچر پر سوار دیکھا تو فرمایا : تم میں سے ایک شخص اتر جائے؛کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمنے تیسرے شخص پر لعنت فرمائی ہے (مصنف ابن ابی شبیة)

حضرت سہل ابن حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو دیکھا کہ بھوک و پیاس کی شدت اور سواری وبار برداری کی زیادتی سے اس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان پر ایسی حالت میں سواری کرو جب کہ وہ قوی اور سواری کے قابل ہوں اور ان کو اس اچھی حالت میں چھوڑ دو کہ وہ تھکے نہ ہوں(ابوداوٴد)

ذبح و شکار سے متعلق حقوق:

جو جانور ضرورۃً مارے یاذبح کئے جاتے ہیں ان کے مارنے یاذبح کرنے میں بھی شریعت مطہرہ نے ہر طرح کی نرمی  کا حکم دیا ہے،ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض کیاہے اس لئے جب تم لوگ کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقے سے مارو او رجب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو تم میں سے ہر شخص اپنی چھری کو تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔ (مسلم،باب الامرباحسان الذبح کتاب الصید والذبائح)

ایک بار ایک لڑکا  مرغی کو باندھ کر تیر کا نشانہ بنارہا تھا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مرغی کو کھول دیا اورمرغی کے ساتھ اس لڑکے کو لے کر اس کے خاندان میں آئے اور کہا کہ اپنے لڑکے کو اس سے منع کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقے سے جانور یااور کسی جاندار کو نشانہ بنانے کی ممانعت فرمائی ہے۔ اسی طرح کچھ اور لوگ مرغی کو باندھ کر نشانہ بنارہے تھے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گذر ہوا تو وہ لوگ بھاگ گئے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ایسا کس نے کیاہے؟ جو لوگ ایسا کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ملعون قراردیاہے۔( بخاری،باب مایکرہ مکن المثلۃ والمصبورۃ والمجسمۃ‘‘ کتاب الذبائح )

ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اس پر رحم آتا ہے ، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو خدا تم پر رحم کرے گا(مجمع الزوائد)

جانوروں کا عالمی دن :

جانوروں کا عالمی دن منانے کا فیصلہ 1931 میں فلورینس میں ماہرین ماحولیات کے کنونشن میں کیا گیا۔اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں نایاب اقسام کے جانوروں کو ناپید ہونے سے بچانا،ان کے حقوق سے لوگوں کو آگاہ کرنا اور ان کے تحفظ کے لیے بہتر اقدامات کرنا تھا۔ جانوروں کے عالمی دن کے حوالے سے جانوروں کے تحفظ کے لیے ملک میں قوانین تو موجود ہیں؛ لیکن ان پر عمل درآمد نہیں۔ انسان کی انسانیت سے محبت تو عام بات ہے لیکن جانوروں سے محبت کے حوالے سے یہ دن خاص اہمیت کا حامل ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا