English   /   Kannada   /   Nawayathi

مساجد کی اہمیت: سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تناظر میں

share with us

 

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

 

جس طرح ہندوستان کا متعصب قومی الیکٹرانک میڈیا صحافتی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر حکومت کے ترجمان کی حیثیت سے کام کررہا ہے اسی طرح سپریم کورٹ کے کچھ حالیہ فیصلے (جیسے ایک نشست میں طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دینا اور اب 1994ء میں ڈاکٹر اسماعیل فاروقی بنام یونین آف اسٹیٹ معاملہ میں دیے گئے فیصلہ کو صحیح قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنادیا کہ مسجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے) کے تناظر میں یہ گمان پیدا ہورہا ہے کہ عدلیہ بھی حکومت کے زیر اثر کام کررہا ہے۔ اس خدشہ کی پہلی وجہ یہ ہے کہ جنوری 2018ء میں سپریم کورٹ کے چار ججوں نے ’جمہوریت خطرہ میں ہے‘ کہتے ہوئے چیف جسٹس کے خلاف عملی بغاوت کردی تھی جو نہ صرف آزاد ہندوستان کی تاریخ کا عدیم النظیر معاملہ تھا بلکہ عدلیہ کی آزادی پر بھی ایک سوالیہ نشان تھا۔ اس خدشہ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب سرکاری عمارتوں میں مورتیاں لگائی جاسکتی ہیں یا نہیں کے مسئلہ کو، دائودی بوہرہ کمیونٹی میں لڑکیوں کے ختنہ کے تنازعہ کو اور نکاح حلالہ جیسے چھوٹے چھوٹے مسائل کو سپریم کورٹ وسیع تر بنچ کو بھیج چکی ہے تو مسجد اسلام کا لازمی جز ہے یا نہیں جیسے بڑے مسئلہ کو بڑی بنچ (Larger Bench)کو بھیجنے سے سپریم کورٹ نے کیوں انکار کردیا ؟ جبکہ جسٹس عبدالنظیر صاحب کی بھی یہی رائے تھی کہ اس مسئلہ کو بڑی بنچ کو بھیجا جانا چاہیے۔

اس خدشہ کی تیسری وجہ یہ ہے کہ بعض قانون کے ماہرین بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے اتفاق نہیں رکھتے۔ عدالت عظمی کا یہ فیصلہ دستور میں دیے گئے مذہبی آزادی کے حق کے بالکل خلاف ہے اس پر سپریم کورٹ کو نظر ثانی کرنی چاہیے۔ عدالت عظمی کا فیصلہ کہ ’مسجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے‘کا معنی یہ بھی ہیں کہ اب ہندوستان میں مساجد کو کوئی دستوری تحفظ نہیں ملے گا چونکہ جب مسجد اسلام کا لازمی حصہ ہی نہیں رہے گی تو اس کی حیثیت ایک عام عمارت کے برابر ہوجائے گی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسجد کے بغیر مسلم معاشرہ کی تشکیل و تعمیر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں قرآن مجید بہ الفاظ صریح کہہ رہا ہے کہ مساجد اللہ تعالی کے لیے ہیں ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ :’’ اور بے شک سب مسجدیں اللہ کے لیے ہیں پس مت عبادت کرو اللہ کے ساتھ کسی کی‘‘ (سورۃ الجن آیت 18)

یعنی مساجد خالص اللہ کے لیے اس میں صرف اور صرف اسی کی عبادت ہونی چاہیے یہی وجہ ہے کہ مساجد میں خرید وفروخت، دنیاوی مصروفیات اور گفتگووغیرہ کو علماء اعلام نے منع قرار دیا ہے۔ چونکہ حدیث شریف میں وارد ہے مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا نیکیاں کو ایسے ہی کھاجاتا ہے جیسے چوپایہ خس و خشاک کو کھاجاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے ہمیں اس لیے بھی اختلاف ہے چونکہ قرآن مجید نے فرمایا کہ مساجد کی تعمیر کرنے، آباد کرنے، وہاں منعقد ہونے والے اجتماعات میں شرکت کرنے اور ان مساجد کی نگہداری کا حق انہی کا ہے جن کے قلوب ایمان کی روشنی سے منور اور جگمگارہے ہوں۔ ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ’’صرف وہی آباد کرسکتا ہے اللہ کی مسجدوں کو جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور روزِ قیامت پر اور قائم کیا نماز کو اور ادا کیا زکوٰۃ کو اور نہ ڈرتا ہو اللہ کے سوا کسی سے پس امید کہ یہ لوگ ہوجائیں ہدایت پانے والوں سے ‘‘ (سورۃ التوبۃ آیت 18) اس آیت پاک میں خالق کونین نے تعمیر مساجد کے جواز کو پانچ چیزوں پرمنحصرفرمایا (1) اللہ پر ایمان (2) قیامت پر ایمان (3) نماز قائم کرنا (4) زکوٰۃ ادا کرنا (5) اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ فرماتا ہے مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم! میں ز مین والوں کو عذاب دینے کا ارادہ کرتا ہوں پھر میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو میرے گھروں کو آباد رکھتے ہیں اور جو میری وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں اور جو سحر کے وقت اٹھ کر مجھ سے استغفار کرتے ہیں تو میں ان سے عذاب کو پھیر دیتا ہوں (تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ نمبر 383)۔

حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ خاتم پیغمبراں نے فرمایا جب تم کسی شخص کو مسجد کی حفاظت کرتے ہوئے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو کیونکہ خالق کونین فرماتا ہے کہ مسجدیں وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ (سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ)۔ مساجد کی فضیلت، اہمیت، عظمت اور امتیازی شان حدیث شریف میں یوں وارد ہوئی ہے کہ قیامت کے دن مسجدوں کے سوا ساری زمین فنا ہوجائے گی۔ (کنزل العمال جلد 4 صفحہ نمبر 139)۔

قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں بیان کردہ ان تمام حقائق کو بالائے طاق رکھ کر سپریم کورٹ یہ کیسے فیصلہ دے سکتا کہ مساجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے؟ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے ہمیں اس لیے بھی اختلاف ہے چونکہ قرآن مجید کے مطابق مسجد کو نماز سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ارشاد ربانی ہورہا ہے ’’ان گھروں میں (جس کے متعلق) حکم دیا ہے اللہ نے کہ بلند کیے جائیں اور لیا جائے ان میں اللہ تعالی کا نام۔ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ان گھروں میں صبح او ر شام ‘‘ (سورۃ النور آیت 36) اس آیت پاک میں شاندار اور نہایت پاک اور ستھری مساجد تعمیر کرنے اور اس میں ذکر کرنے (یعنی نماز پڑھنے )کا حکم دیا جارہا ہے۔ انہی مساجد سے حقائق اسلام اور احکام الٰہی کی نشر و اشاعت بھی ہوتی ہے۔ اور ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے ترجمہ: ’’اور سیدھا کرو اپنے چہرے (قبلہ کی طرف) ہر نماز کے وقت اور عبادت کرو اس کی اس حال میں کہ تم خالص کرنے والے ہو ‘‘ (سورۃ الاعراف آیت 29) اس آیت پاک کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابو بکر جصاصؒ رقمطراز ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز مسجد میں پڑھی جائے جس سے پتہ چلا کہ فرض نماز باجماعت واجب ہے (بحوالہ احکام القرآن جلد 3 صفحہ 38)

حضرت سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ جونہی فرض نماز کے لیے اذان کہی گئی بازار سے ایک جماعت اپنے تمام کاروبار چھوڑ کر مسجد کی طرف روانہ ہوگئی یہ منظر دیکھ کر آپ نے بے ساختہ فرمایا انہی لوگوں کے متعلق قرآن مجید نے اعلان کیا ترجمہ‘ ’’ وہ (جوں ) مرد جنہیں غافل نہیں کرتی تجارت اور نہ خرید و فروخت یادِ الٰہی سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے‘‘ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ نمبر 295)۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے تناظر میں تمام مسلمانوں کی یہ مذہبی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اسلام میں مساجد کی اہمیت کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں نہ صرف سمجھنے کی کوشش کریں بلکہ غیر مسلموں کو بھی سمجھانے کی سعی کریں جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب تک مساجدپر رونق اور آباد رہیں اس وقت تک اسلام بھی سربلند رہا اور جب جب مساجد کی مرکزی حیثیت کوفراموش کیا گیا تب تب مسلمان بھی اپنی شان و شوکت کھوکر تنزل و تسفل کا شکار ہوتا گیا۔

مسجد کے لغوی معنی سجدہ کرنے کی جگہ کے ہیں اور شریعت اسلامی میں سجدہ کو نماز کا خاص رکن قرار دیا گیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام اور مسجد کا خاص اور گہرا تعلق ہے۔ چونکہ مسلمان ہر دن پانچ مرتبہ سال بھر عبادت کی ادائیگی کے لیے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مساجد وہ عبادت گاہ ہے جو روئے زمین پر تمام عبادتی مراکز میں سب سے زیادہ بارونق اور آباد رہتی ہیں۔ ظاہری، باطنی حسی اور معنوی برکتوں، فضیلتوں اور عظمتوں سے معمور مسجد نہ صرف عبادت گاہ ہے بلکہ مسلمانوں کا دینی و اخلاقی مرکز اور اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بھی ہے جہاں نہ صرف تکبیر و تہلیل، تسبیح و تقدیس اور تلاوت قرآن مجید کی مسحور کن صدائیں بلند ہوتی ہیں بلکہ وہاں مسلمانوں کے دینی و دنیوی مسائل کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ وہاں جسمانی صفوں کی درستی کے ساتھ قلبی و روحانی صفوں کی درستی بھی ہوتی ہے۔ مساجد کا واجبی حق ہے کہ اس میں نماز ادا کی جائے جو دین اسلام کا اہم ستون ہے۔ مسجد میں آکر مسلمان نسل و نسب کے تمام امتیازات، بغض و عداوت، حسد و نفرت کو بھلا کر ایک ہی صف میں ایک ہی امام کے پیچھے کھڑا ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتا ہے جس طرح لشکر فوج کے کمانڈر ان چیف کی ہدایات کی پیروی کرتا ہے اور یہ نظام مومن کی زندگی میں بالغ ہونے سے لیکر موت تک روزآنہ جاری و ساری رہتا ہے۔ گویا مساجد مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ بھی ہے اور تربیت گاہ بھی، قدرتی اسمبلی بھی ہے اور پارلیمنٹ بھی اور دستوری حکومت کا تخت بھی ہے اور یونیورسٹی بھی یہی وجہ ہے کہ عام مسلمان کو محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کو ترجیح دینے کا حکم ہے جبکہ طالب علم کے لیے یہ رعایت رکھی گئی کہ وہ اس مسجد میں نماز ادا کرے جہاں اس کے استادنماز ادا کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے استاد سے علمی استفادہ بھی کرسکے۔

مساجد کا نظام منتشر افراد میں شیرازہ بندی کا کام کرتا ہے اس میں دینی و دنیوی امراض کا شفا بخش علاج موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں مساجدکو بڑی اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ تاریخ کے حوالے سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں مسجد کو خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ مکہ شریف میں مسلمان علی الاعلان نماز ادا نہیں کرتے تھے اسی بناء پر آقائے نامدار رسول عربی کی مکی زندگی باضابطہ مساجد کی تعمیر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ البتہ جب تاجدارکائنات مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور مقام قباء میں چند روز قیام فرمایا تو یہاں سب سے پہلے مسجد تعمیر فرمائی جو تاریخ اسلام میں مسجد قباء کے نام سے مشہور ہے اور یہ مسجد، مسجد نبویؐ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ حضرات ابن عباسؓ، ابن بریدہ ؓاور ابن زیدؓجیسے صحابہ اور حضرات ابن بریدہؒ، ابن زیدؒ اور ضحاکؒ جیسے تابعین کے موقف کے مطابق اس مسجد کی رفعت اور عظمت شان کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ارشاد ہورہا ہے ترجمہ : ’’البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے پہلے دن سے وہ زیادہ مستحق ہے کہ آپ کھڑے ہوں اس میں اس میں ایسے لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں صاف ستھرا رہنے کو اور اللہ تعالی محبت کرتا ہے پاک صاف لوگوں سے‘‘ (سورۃ التوبۃ آیت 108)

یعنی اس مسجد کی تعمیر کا مقصد وحید یہی تھا کہ یہ اسلام کا مرکز بنے اور مسلمان اپنے معبود برحق کی عبادت کے لیے اس میں جمع ہوں۔ علاوہ ازیں جب اسلام کا حجاز مقدس سے نکل کر دنیا کے مختلف علاقوں اور ممالک تک پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوا تو مساجد بھی تعمیر ہوتی چلی گئیں۔ اس تاریخی حقیقت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ مسلم معاشرے کے قیام میں مسجد کی کیا اہمیت ہے۔ ان تاریخی حقائق کے بعد کوئی شخص اسلام میں مسجد کی اہمیت اور اس کی دینی مرکزیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ہمیں زندگی کا ہر لمحہ تصور بندگی کے ساتھ گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔ آمین



01 اکتوبر۲۰۱۸ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا