English   /   Kannada   /   Nawayathi

مودی کے دوسرے ٹرم پر رافیل کی بمباری

share with us

غوث سیوانی، نئی دہلی


بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ سب سے زیادہ ممبران، اسی جماعت کے ہیں۔وہ دنیا کی سب سے امیرپارٹیوں میں سے ایک ہے اور ہندوستان کی سبھی ریاستوں اور ضلعوں میں اس کے شاندار آفس ہیں۔اندرونِ ملک اس وقت بی جے پی کی طوطی بولتی ہے اور کوئی بھی بڑانیوز چینل حکومت کے خلاف ایک لفظ بولنے کو تیار نہیں ہے۔ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی جیسے مشکل فیصلوں میں عوام پریشان رہے مگر نیوزچینل عوام کی ترجمانی کے بجائے حکومت کے سامنے دم ہلاتے رہے ۔آج حالات ایسے ہیں کہ کوئی بھی بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف زبان کھولنے کی ہمت نہیں رکھتا، اس کے باوجود اس وقت بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے عام انتخابات میں بی جے پی کو میابی ملے گی اور نریندر مودی دوسری بار وزیراعظم بنیں گے؟یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کہ اس وقت رافیل ڈیل معاملہ مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بنتا جارہا ہے اور عوام کو بھی احساس ہونے لگا ہے کہ ’نہ کھائیں گے اور نہ کھانے دینگے‘ کا نعرہ بلند کرنے والے،نہ صرف کھارہے ہیں بلکہ کمبل اوڑھ کر گھی بھی پی رہے ہیں اوت اس قدر کھاپی لی ہے کہ اب بدہضمی شروع ہوگئی ہے۔
آزاد ہندوستان کی تاریخ پر نظرڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ اس ملک کے لئے کرپشن کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ گزشتہ 70سال میں کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جس نے گھوٹالے نہ کئے ہوں۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اقتدار میں آنے کے لئے سابقہ منموہن سنگھ حکومت کے کرپشن کو ایشوبنایا تھا اور عوام نے یقین کرلیا کہ کانگریس کے دور حکومت میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی ہے ۔ نریندر مودی نے بار بار کہا تھا کہ وہ عوام کا ایک پیسہ بھی گھوٹالوں کی نذر نہیں ہونے دیں گے اور عوام نے ان کی باتوں کو قبول بھی کیا تھا اور انھیں اقتدار تک پہنچایا تھا مگر اب رافیل ڈیل میں گڑبڑی کا معاملہ سامنے آیا ہے، جس میں ان کی حکومت کے ارکان ہی نہیں بلکہ خود وزیراعظم کی شمولیت کے اشارے مل رہے ہیں۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا جس طرح عوام نے نریندر مودی اور بی جے پی لیڈروں کی باتوں پر یقین کرکے کانگریس کے ووٹ دینے سے انکار کردیا تھا، اسی طرح اب راہل گاندھی اور کانگریس کے الزام پر بھروسہ کر نریندر مودی اور بی جے پی کی حکومت کو ٹھکرادینگے؟ 
رافیل ڈیل کے تعلق سے سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے سنسنی خیز انکشاف کیا کہ اربوں ڈالر کے اس سودے میں حکومت ہند نے انل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس کو فرانسیسی کمپنی ڈاسالٹ ایویشن کا ساجھے دار بنانے کی تجویز دی تھی۔ اولاند کا تبصرہ اس معاملے میں حکومت ہند کے رخ سے مختلف ہے ۔ ظاہر کہ اس انکشاف کے بعد بھاجپائیوں کی بولتی بند ہوگئی ہے۔ وہ سبھی معاملات پر بول رہے ہیں مگر ان سوالوں کو گول کر جاتے ہیں جو ان دنوں اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں۔ یقیناًحکومت کو اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ اس نے ہزاروں کروڑ کے قرض میں ڈوبے ہوئے انل امبانی کو ساجھے دار بنانے کو کیوں کہا اور وہ بھی ان کی ایک ایسی کمپنی کو ڈیل میں شامل کیا گیا، جس کے قیام کو جمعہ جمعہ محض آٹھ دن ہوئے تھے۔ یہ الزام بھی کانگریس کی طرف سے لگایا گیا ہے کہ رافیل طیاروں کی جو قیمت ابتدا میں طے کی گئی تھی، اس سے زیادہ قیمت پر حکومت نے خریدنا قبول کرلیا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے یہ مطالبہ اٹھ رہا ہے کہ رافیل ڈیل کے تعلق سے جانچ کرائی جائے اور جانچ کے لئے ایک جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی بنائی جائے مگر حکومت، اس معقول مطالبے کو بھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔
بی جے پی کی طرف سے یہ کوشش ضرور کی گئی کہ نمک خوار میڈیا رافیل سودے کو نہ اچھالے اور نریند رمودی کو کھٹہرے میں کھڑا کرنے کا کام نہ کرے مگر کانگریس اور اپوزیشن کی طرف سے اس معاملے میں اتنا شور مچایا گیا کہ میڈیا کو چاہتے ہوئے بھی کوریج دینا پڑا۔ظاہر ہے کہ اپوزیشن کی سیاست کا ابھار بی جے پی کے لئے پریشانی کا سبب بن گیا ہے اور اس ہڈی کو وہ نہ تونگل پارہی ہے اور نہ ہی اگل پارہی ہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ یہ ایشو آنے والے الیکشن میں برسراقتدار پارٹی کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کرسکتا ہے۔ میڈیا خواہ آج حکومت کے خلاف ہمدردانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے مگر مدھیہ پریش، چھتیس گڑھ اور راجستھان اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد میڈیا کا رخ بھی بدلے گا اور وہ دم ہلانا چھوڑ، بھونکنا شروع کرے گا۔ 
راجیو گاندھی کے دور حکومت میں بوفورس خریداری معاملہ ہوا تھا اور اس میں بھی گڑبڑی کی بات اٹھی تھی۔ ملک وبیرون ملک کے کئی نامورلوگوں کے نام اس میں لئے گئے تھے مگر آج تک اس معاملے کی سچائی سامنے نہیں آئی۔ حالانکہ محض الزام کے سبب راجیو گاندھی کو اقتدار سے باہر ہونا پڑا تھا۔ اس دلالی معاملے نے ہندوستان کی سیاست میں کئی نشیب و فراز کو جنم دیا تھا ۔ہندوستان میں بوفورس دلالی کا معاملہ بدعنوانی کے اہم معاملوں میں سے ایک ہے اور آج بھی مسئلہ ختم نہیں ہوا ہے ۔ بوفورس دلالی معاملہ کے سامنے آنے کے بعد اس وقت کی راجیوگاندھی حکومت کے وزیر خزانہ وی پی سنگھ نے اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت کی آواز بلند کی تھی اور اس کے بعد راجیو گاندھی کو 1987 کے عام انتخابات میں میں شکست کاسامنا کرنا پڑا تھا۔ آج پھر ایک ویسا ہی معاملہ سامنے آیا ہے اورایسے وقت میں سامنے آیا ہے ،جب عام انتخابات سر پر ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا بوفورس کی طرح اس معاملے کے بھی سیاسی اثرات ہونگے اور عوام راہل گاندھی اور کانگریس کے الزام کو قبول کرتے ہوئے بی جے پی کو اقتدار سے باہر کا راستہ دکھانے کا کام کریں گے؟
(مضمون نگا ر کی رائے سے ادا رہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
30؍ستمبر2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا