English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملاحظہ فرمائیں نئی ’’بھاگوت گیتا‘‘

share with us

آجکل ایک نئی بھاگوت گیتا کے بڑے چرچے ہیں۔ اس نئی گیتا کے مصنف آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت ہیں۔ وہ سرسنگھ چالک ہیں اسی لیے بہت ’’چالاک‘‘ بھی ہیں۔ ’’چالاک‘‘ نہ ہوتے تو انھیں ’’چالک‘‘ کیوں بنایا جاتا اور وہ چالاک نہ ہوتے تو بڑی چترائی کے ساتھ ایک نئی بھاگوت گیتا کیسے لکھ دیتے۔

پرانی والی شری مد بھگود گیتا تھی اور یہ نئی والی شری مان بھاگوت گیتا ہے۔ وہ گیتا مہابھارت سے عبارت تھی۔ یہ گیتا چناوی مہابھارت سے عبارت ہے۔ اس میں شری کرشن ارجن کو نصیحتیں کرتے ہیں تاکہ جنگ میں پانڈؤں کی جیت ہو۔ نئی گیتا میں موہن بھاگوت ووٹروں سے مخاطب ہونے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ چناوی مہابھارت میں ایک بار پھر بی جے پی یا بہ الفاظ دیگر آر ایس ایس کی جیت ہو۔ سابقہ جنگ میں ارجن کے کمالا تِ جنگ پر شکست و فتح کا انحصار تھا اور موجودہ جنگ میں عوام کے فیصلے پر انحصار ہے۔

اس جنگ کو جیتنے کے لیے موہن بھاگوت نے اپنے گرو (گولوالکر) تک کے آدیشوں، نردیشوں اور وچاروں کا پریتیاگ کر دیا، ان کو خیرباد کہہ دیا۔ یہی تو آر ایس ایس کی ’’خوبی‘‘ ہے کہ جب اور جہاں جیسی ضرورت ہو خود کو اسی کے مطابق ڈھال لو۔ لیکن تم اندر سے جو ہو وہی رہو۔ البتہ دنیا کو دکھانے کے لیے خود کو بدل ڈالو۔

لہٰذا موہن بھاگوت نے نئی دہلی میں منعقدہ تین روزہ لیکچر سیریز میں آر ایس ایس کے بنیادی نظریے کے برعکس اتنی باتیں کہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی آر ایس ایس کے پروردہ ہیں۔ وہ پرچارک رہے ہیں۔ لیکن انھیں سیاست میں بھیجا گیا اور وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہو ئے۔ ان کا نعرہ کانگریس مکت بھارت کا ہے۔ لیکن موہن بھاگوت جنگ آزادی میں کانگریس کی قربانیوں کی ستائش کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ کانگریس کی شکل میں ایسی جنگ لڑی گئی کہ ہندوستان آزادی کے راستے پر گامزن ہو گیا۔ اور ان مجاہدین سے ہمیں آج بھی پریرنا ملتی ہے۔ انھوں نے بظاہر مودی کے برعکس کہہ دیا کہ ہمیں ’’مکت‘‘ نہیں بلکہ ’’یکت‘‘ بھارت چاہیے۔ یعنی ایک ایسا بھارت جس میں سبھی لوگ ہوں۔

آر ایس ایس کے گرو گولوالکر اپنی کتاب بنچ آف تھاٹ میں مسلمانوں کے خلاف زہرپاشی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہندو راشٹر میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ لیکن بھاگوت کہتے ہیں کہ وہ ہندو راشٹر، ہندو راشٹر نہیں ہوگا جس میں مسلمان نہیں ہوں گے۔ سبھی ہمارے اپنے ہیں۔ سب کو اپنے ساتھ لانا ہوگا۔ ہندوتو پوری دنیا کو ایک خاندان مانتا ہے۔ انھوں نے اپنی اس بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے یہ انکشاف بھی کیا کہ ہم نے جو نئی کتاب چھاپی ہے اس میں گرو جی کے مسلم مخالف وچاروں کو نکال دیا ہے، حذف کر دیا ہے۔ ہم نے خود کو بدلا ہے اور بدل رہے ہیں۔

آر ایس ایس کے سابق سرسنگھ چالک کے ایس سدرشن اور دوسرے رہنما ہندوستانی آئین کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں قوم کا بنیادی نظریہ نہیں ہے۔ یعنی یہ ہندوتو قوم پرستی سے دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ کے لوگ اکثر و بیشتر آئین کو بدلنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ وہ اقلیت کی اصطلاح کے بھی خلاف ہیں اور اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بھی کوئی بات کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن بھاگوت آئین کی تعریف کرتے ہیں۔

مرکز میں بی جے پی کی حکومت کے قیام کے بعد ملک میں ماب لنچنگ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور گؤ رکشا کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور اتارا جا رہا ہے۔ گؤ رکشکوں نے قانون اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم مودی اس مسئلے پر اگر کچھ بولتے ہیں تو ایسا کہ شرپسندوں کے حوصلے پست نہ ہوں۔ لیکن اس معاملے پر بھی بھاگوت نے ایک رائے رکھی۔ انھوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی مخالفت کی اور جہاں یہ کہا کہ گؤ رکشا ہونی چاہیے وہیں یہ بھی کہا کہ گؤ رکشک گائے کو پہلے اپنے گھر میں رکھیں، اسے آوارہ نہ چھوڑیں اور اس کے بعد گؤ رکشا کی بات کریں۔

یکساں سول کوڈ ایک ایسا معاملہ ہے جس سے مسلمانوں کو ہمیشہ ڈرایا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ اس ملک کی جو تکثیریت ہے وہ یکساں سول کوڈ کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر یہ نافذ کیا گیا تو مسلمانوں کے علاوہ دوسرے طبقات پر بھی اس کی مار پڑے گی۔ موہن بھاگوت اس بارے میں کہتے ہیں کہ اسے ہندو مسلم ایشو بنا دیا گیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اگر یہ لاگو ہوا تو اس سے ہندووں کے بھی بہت سے اعمال متاثر ہوں گے۔ انھوں نے اس پر اتفاق رائے کی بات کہی۔ گویا اس طرح انھوں نے اس معاملے میں بھی سنگھ اور بی جے پی سے الگ رائے رکھی۔

ریزرویشن کا معاملہ بھی انھوں نے اٹھایا۔ حالانکہ تین سال قبل بہار کے انتخابات کے موقع پر وہ ریزرویشن کی مخالفت کر چکے ہیں جس کا بی جے پی کو نقصان بھی ہوا تھا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ یہ اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک کہ اس سے استفادہ کنندگان ہی یہ نہ کہہ دیں کہ اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ ایک ہزار سال کی بیماری دور کرنے کے لیے اگر سو ڈیڑھ سو سال ہم کو جھک کر رہنا پڑتا ہے تو یہ مہنگا سودا نہیں ہے۔ یعنی اتنے دنوں تک بھی ریزرویشن کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔

ایل جی بی ٹی سوسائٹی کے حق میں بھی انھوں نے آواز اٹھائی۔ حالانکہ حکومت اس کے خلاف تھی۔ آر ایس ایس کے لوگ بھی دفعہ 377 کے خاتمے کے خلاف تھے۔ لیکن بھاگوت جی کہتے ہیں کہ مذکورہ طبقات بھی سماج کا حصہ ہیں ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے بین برادری شادی کی بھی حمایت کی اور کہا اگر اس معاملے میں مردم شماری کرائی جائے تو زیادہ واقعات سنگھ پریوار میں ملیں گے۔

یہ اور ایسے متعدد ایشوز پر موہن بھاگوت نے وہ رائے رکھی ہے جو آر ایس ایس اور اس کے رہنماؤں کی اب تک کی رائے سے مختلف ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی آر ایس ایس بدل گئی ہے یا بدل رہی ہے۔ آخر انھوں نے یہ باتیں کیوں کہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ نہ تو آر ایس ایس بدلی ہے نہ بدلے گی۔ یہ تو وقت کی مجبوری ہے جو بھاگوت سے قلا بازی کروا رہی ہے۔ آر ایس ایس ایک بہت ہی ٹھوس مگر منفی نظریے والی جماعت ہے۔ اس کا نظریہ ہندوستان کی روح اور اس کے نظریے کے برعکس ہے۔ وہ صرف اور صرف ہندووں کے مفادات کی بات کرتی ہے۔ اس کے یہاں نہ تو مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ ہے اور نہ ہی دیگر اقلیتوں کے لیے۔

در اصل یہ 2019 کا انتخابی دنگل ہے جو بھاگوت کو ایک نیا چہرہ دکھانے پر مجبور کر رہا ہے۔ اب بی جے پی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کو بھی اس کا احساس ہو چلا ہے کہ 2019 کی جنگ آسان نہیں ہے۔ اگر نئی حکمت عملی نہیں وضع کی گئی تو شکست مقدر ہوگی۔ اسی لیے ان تمام طبقات کو رجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اب تک اس سے دور رہے ہیں یا دور ہیں۔

اس لیے یہ سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے کہ آر ایس ایس بدل گئی ہے بلکہ یہ ایک عیارانہ چالبازی ہے اور دھوکے کا ایک جال ہے جس میں رائے دہندگان کو پھنسا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب یہ ان کے اوپر ہے کہ وہ اس جال میں پھنستے ہیں یا اس سے دور رہتے ہیں۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 

23ستمبر2018(ادارہ فکروخبر)

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا