English   /   Kannada   /   Nawayathi

عالمی سطح پر اپنی پہچان بنانے والے اسلامی فکر کے حامل عظیم شاعر جناب محمد حسین فطرتؔ کے انتقال پر تعزیتی نشست کاانعقاد 

share with us

فطرتؔ صاحب نے اپنی کلام سے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنائی تھی : مقررین کا اظہارِ خیال 

بھٹکل 22؍ ستمبر 2018(فکروخبر نیوز) شہر بھٹکل کے مشہور شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف جناب محمد حسین فطرت کے انتقال پرملال پر ادارہ بھٹکل نیوز کی جانب سے تعزیتی اجلاس رابطہ ہال میں بروز جمعہ رات نو بجے منعقد کیا جس میں شہر کے کئی علماء اور دانشوران نے مرحوم کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کے دوران ان کی موت کو عظیم خسارہ قرار دیا۔مقررین نے ان زندگی کے کئی ایک شعبوں کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے شاعری کے مقام کو بھی بیان کیا اور کہا کہ فطرت صاحب کی شاعری نہ صرف جنوبی ہندوستان کے لوگوں کے لیے قابلِ فخر تھی بلکہ شمالی ہند کے لوگ بھی اس سے مستفید ہوئے۔ عرب اور عجم میں یکساں طور پر اپنی پہچان چھوڑنے والے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت نے ان کی شاعری کی داد دی اور خطیب العصر حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے جس شاعر کے بارے میں فخریہ کلمات کہے وہ شاعری میں ان کے مقام کو بیان کرتی ہے۔ 
بانی و جنرل سکریٹری مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل مولانا محمد الیاس صاحب ندوی نے فطرت صاحب کے تعلق سے اپنے زریں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جتنی قدر فطرت صاحب کی ان کی زندگی میں کی گئی شاید ہی اتنی قدر کسی کی کی گئی ہو۔ میں نے جب دبئی کے عالمی مشاعرے میں بڑے بڑے شعراء کو داد دیتے ہوئے دیکھا تو مجھے اس نتیجہ پر پہنچنے میں دیر نہیں لگی کہ عالمی سطح پر بھٹکل کاتعارف کرنے میں فطرت صاحب کا نمایاں مقام رہا ہے۔ فطرت صاحب ہمیشہ نام ونمود سے دور رہے لیکن ان کی شاعری نے ان کے مقام کو برصغیر کے سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر جس طرح اجاگر وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ مولانا نے ان کے مختلف واقعات کے حوالوں سے کہا کہ فطرت صاحب کی شاعر ی اور خصوصاً ان کی نعتیں شرکیہ او رکفریہ کلمات سے پاک ہوتی تھیں اور یہی چیز ان کی مغفرت کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے جامعہ اور انجمن سمیت شہر اور آس پاس کے نہیں بلکہ شمالی ہند کے مدرسوں کے بھی ترانے لکھے۔ انہو ں نے رامپور کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ جس کو اردو کی پہچان کہا جاتا ہے اور جہاں اردو کے نبض شناس موجود رہے ہیں وہاں والوں نے اپنے مدرسہ کا ترانہ فطرت صاحب سے لکھوایا ، اسی سے ان کے کلام کے وزن کا ا ثر کا پتہ چلتا ہے۔ مزید کہا کہ مشاعرہ میں کبھی بھی اپنے معیار سے نہیں اترے۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مشاعرہ لوٹنے کے لیے لوگ اپنے کلام کے معیار سے اتر بھی کلام پیش کرتے ہیں لیکن فطرت صاحب کی گویا فطرت کہیے کہ عوام کی طرف سے داد نہ ملنے پر بھی انہوں نے اپنا ہی کلام پیش کیا۔ 
استاد حدیث جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا خواجہ معین الدین ندوی مدنی نے کہا کہ فطرت صاحب دیکھنے میں عام لوگوں کی طرح رخصت ہوئے لیکن وہ اپنی شاعری اور اپنے علم وفن کی وجہ سے ہر وقت ہمارے ساتھ رہیں گے ، ایک وہ نسل جس نے ان کو دیکھا انہوں نے تو فائدہ اٹھایا لیکن ان کے بعد آنے والی نسل میں ان کے علم وفن سے ضرور مستفید ہوگی اور یہ سلسلہ ان شاء اللہ جاری رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فطرت صاحب کی مغفرت کے لیے ان کی ایک نعت ہی کافی ہے۔ ان کے الفاظ اور استعمال کا طریقہ باوجود اس کے کہ یہ بڑا کٹھن راستہ ہے فطرت اس سے پوری طرح کامیاب بن کر نکلے اور دوسروں خصوصاً شعراء کے لیے ایک نمونہ بن کر گئے۔ 
مو لانا عبدالعظیم قاضیا ندوی نے اپنے خیالات کے اظہار کے دوران کہا کہ فطرت صاحب نہ صرف اپنی شاعری سے چھاگئے بلکہ ان کا شمار ہندوستان کے مایہ نازشعراء میں ہونے لگا جس کی گواہی بڑے بڑے شعراء نے دی۔مولانا موصوف نے ان کی کئی ایک خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی شاعری کے کمال اور اس کے درجہ کو بھی واضح کیا اور کئی ایک اشعار بھی سامعین کے گوش گذار کیے۔ انہو ں نے کہا کہ کعبہ کی کنجی جب حضرت مولانا سید مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ کی گئی اوران کے دست مبارک سے کعبہ کا دورازہ کھولا تو اس واقعہ پر فطرت صاحب کی نظم واقعی اپنا اثر رکھتی ہے اور یہ آج بھی ندوہ کے کتب خانہ میں لگی ہوئی ہے۔
مولانا محمد انصار صاحب ندوی مدنی نے شاذلی مسجد اور علوہ مسجد میں لگنے والے حلقوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے صرف عربی زبان سیکھنے کا مقصد قرآن فہمی تھی۔ اس زمانہ میں جو اساتذہ جامعہ اور انجمن میں تھے گویا ان کے لیے فطرت صاحب کا گھر ایک علمی مرکز تھا اور تقریباً ہر ایک انہیں استاد کا درجہ دیتے تھے۔ 
مجلس اصلاح وتنظیم کے صدر جناب مزمل قاضیا صاحب نے کہا کہ وہ پیشے سے تو ڈاکٹر تھے لیکن انہوں نے اردو ادب کی جو خدمات انجام دیں وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ جس سلیقہ کا وہ کلام پیش کرتے اس کی سراہنا ضروری ہے۔ اردو ادب کے حوالہ سے کی جانے والی ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
فطرت صاحب کی زندگی پر مولانا عبدالمتین صاحب منیری کا مقابلہ جناب جیلانی صاحب نے پیش کیا۔ اس کے علاوہ موقعہ کی مناسبت سے فطرت کے کئی ایک نعتیں اور نظمیں پیش کی گئیں جس پر حاضرین سے خوب داد دی۔ بھٹکل نیوز کے ایڈیٹر جناب عتیق الرحمن شاہ بندری صاحب نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔ دعائیہ کلمات پر یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا