English   /   Kannada   /   Nawayathi

’’یوم ہیروشیما‘‘ پر اسلحہ سازی کے مضمرات پر ایک نظر

share with us


عارف عزیز(بھوپال)


* انسانی تاریخ کا سب سے المناک پہلو قوموں اور ملکوں کے باہمی جنگ وجدال اور اس سے وابستہ فطرت ہے، دنیا میں انسانیت کے آغاز سے لیکر آج تک یعنی دورِ وحشت سے موجود نام نام نہاد ترقی کے عہد تک چھوٹی بڑی کتنی ہی جنگیں لڑی جاچکی ہیں جن کے اسباب وعلل کا مطالعہ کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس کے نتائج خود حضرت انسان کو بھگتنے پڑے ہیں اور اسی عمل یا ردعمل کے طور پر انسان نے اپنے تحفظ اور دوسروں کی ہلاکت کے لئے نت نئے ہتھیار بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
پتھر کے ہتھیاروں سے نیزے، بلم، تلوار اس کے بعد بارود، بندوق، توپ اور اب بم، راکٹ، میزائل جیسے جوہری اسلحہ اور کیمیائی سمیات یہ سب انسان کے تہذیبی ارتقاء کے کارنامے ہیں۔کبھی انسان نے چنگیز وہلاکو کی صورت میں قتل وغارت گری کا مظاہرہ کیا، کبھی نادر شاہ بن کر خون کے دریا بہاتا رہا اور کبھی اس کی بھڑکائی ہوئی عالمی وعلاقائی جنگوں میں مہلوکین کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کرگئی پھر بھی یہ جنگیں ایسی بے نتیجہ رہیں کہ ان کے فاتح ومفتوح میں امتیاز کرنا دشوار ہوگیا۔
جیسا کہ تاریخ کا ایک معمولی طالب علم بھی بخوبی جانتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کا مقصد ترکی کی خلافت کے عالی شان محل کو تباہ کرکے اس کی جگہ برطانیہ وفرانس کے اقتدار کا نیا ایوان تعمیر کرنا تھا لیکن جنگ کے نتائج اور مابعد جنگ کے اثرات کے باعث جرمنی کے نام سے ایک نئی طاقت دنیا کے نقشے پر ابھر آئی، اسی طرح روس میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد عالمی سیاست میں نوآبادیات کا ایک ایسا دشمن پیدا ہوگیا جو انحطاط پذیر ترکی خلافت سے کہیں زیادہ مغرب دشمن اور طاقتور تھا۔ یہ سرخ حکومت لڑنے کے لئے نئے اور کارگر ہتھیار لے کر مقابلہ میں اترتی تو اسلحہ سے زیادہ نظریات پر بھروسہ کرتی تھی جبکہ اس کا حریف نوآبادیاتی نظام عسکری قوت کی برتری اور جدید فوجی حکمتِ عملی پر بھروسہ کرتا تھا پھر بھی اسے نئی طاقت کی درجہ بدرجہ کامیابیوں کے آگے پسپائی اختیار کرنا پڑی اور اس طرح ان ممالک میں بھی اس کے حامی پیدا ہوگئے جو نظریاتی طور پر کمیونزم کے مخالف بلکہ دشمن تھے۔
دوسری جنگ عظیم کا نتیجہ اس سے زیادہ خلاف برآمد ہوا، اس میں برطانیہ وفرانس جیت کر بھی ہار گئے، جرمنی ہار کر نہ صرف تقسیم بلکہ بربادی تک پہونچ گیا۔ جاپان کو آگ وخون کے سمندر سے گذرنا پڑا اور اس طرح وہ تمام نوآبادیاتی نظام اور عالمی تجارتی اجارہ داری جس کے تحفظ کے لئے یہ جنگیں لڑی گئیں تھیں پارہ پارہ ہوگئے۔ اس وقت کی بڑی طاقتیں برطانیہ وفرانس سکڑ کر محدود ہوگئیں اور عالمی سیاست پر روس وامریکہ کا پرچم لہرانے لگا جن کے بعد اپنی جدوجہد کے بل پر قابل ذکر حیثیت کے مالک چین، جاپان اور جرمنی شمار ہونے لگے۔۲۰ ویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے دنیا نے دو تین جنگوں کا مزہ اورچکھا جبکہ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی کارروائی خود اس کے لئے اتنی خطرناک بلکہ مہلک ثابت ہوئی کہ ایک بڑی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ دوسری طرف خلیج کی دو جنگوں نے عراق، ایران اور دیگر عرب ممالک کی اقتصادی ترقی کو درہم برہم کرکے رکھ دیا اور آج بڑی طاقتوں کو اس کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ جنگیں فاتح ومفتوح دونوں کو برباد کردیتی ہیں، اسی لئے ان میں ہزار اختلافات اور کشیدگی کے باوجود براہ راست تصادم یا کھلے ٹکراؤ کی نوبت دوبارہ نہیںآئی۔
دوسری طرف وہ اپنی قومی آمدنی کا بڑا حصہ انسانی وسائل کے فروغ ، اس کی بنیادی ضرورتوں مثلاً تعلیم وصحت پر صرف کررہی ہیں۔وہاں کی آبادی غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور نہیں، سب کو روٹی کپڑا مکان جیسی سہولتیں میسر ہیں، اس کے بعد ان کے یہاں اسلحہ سازی یا ایٹم بم بنانے پرتوجہ دی جاتی ہے لیکن ایشیا بالخصوص برصغیر میں حال یہ ہے کہ ہندوستان ہو یا پاکستان دونوں جگہ نصف آبادی سے زیادہ حصہ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسرکررہا ہے، بنیادی سہولتیں مثال کے طور پر پینے کا صاف پانی ،علاج اور تعلیم تک عام لوگوں کو میسر نہیں،فلاحی منصوبے نامکمل پڑے ہوئے ہیں ریاستیں مالی لحاظ سے دیوالہ ہورہی ہیں پھر بھی دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو اپنے عوام کے مسائل ومشکلات کی فکر سے زیادہ اسلحہ سازی کا شوق ہے بالخصوص پاکستان اپنے محدود وسائل کے باوجود جس طرح فوج اور اسلحہ پر اندھا دھند خرچ کررہا ہے اس نے وہاں کی معیشت کو تباہ کردیا ہے اور یہ انسانی وسائل کا نہایت بدتر استعمال ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا